اوقات

تحریر:عین النور فیصل آباد
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کھیلنے جنگل میں جارہا راستے میں اس کو ایک مانگنے والی فقیرنی نظر آئی وہ فقیرنی بادشاہ کے دل میں اتر گئی اس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ یہ میرا دل اس پر آگیا ہے تو پہلے تو سب دوست حیران ہوئے کہ کہاں یہ بادشاہ اور کہاں یہ در در مانگنے والی فقیرنی انہوں نے بادشاہ سلامت کو سمجھایا کہ بادشاہ سلامت یہ آپ کے معیاری کی نہیں ہے۔مگر بادشاہ کا دل اس پر فدا ہو چکا تھا پوری طرح۔بادشادہ نے کسی کی نا مانی سب نے بہت سمجھایا مگر بادشاہ کہتا میں اس سے شادی کروں گا اب بس۔بادشادہ سلامت شکار کھیلنے کی بجائے خود اس فقیرنی کے ہاتھ شکار ہو چکے تھے شکار پر جانا ملتوی کر کے بادشاہ سلامت اس فقیرنی کو لے کر محل میں آگیا اب محل کے سبھی لوگ حیران۔و۔پریشان کہ بادشاہ سلامت کو اس فقیرنی میں کیا اچھا لگا جو شادی کرنے چلے ہیں۔خیر سب خاموش رہے بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ اس کو تیار کیا جائے شاہی لباس زیب تن کیا جائے بادشاہ سلامت کے حکم پر فورا عمل شروع کر دیا گیا اس کئی دفعہ غسل دیا گیا آخر میں عرقِ گلاب سے اس کو غسل دیا اور شاہی لباس زیب تن کروایا گیا جب وہ تیار ہو کر آئی تو سب کے منہ کھولے کے کھولے رہ گئی جیسے آسمان سے کوئی پری اتر آئی ہو سب واہ واہ سبحان اﷲ سبحان اﷲ کرنے لگ گئے بادشاہ سلامت کی جوہری آنکھیں کی سب داد دینے لگ گئے۔اور بادشاہ سلامت بھی خوشی سے جھوم اٹھے محل میں ہر طرف خوشیاں رقص کرنے لگی بادشاہ سلامت نے اپنی شادی کی خوشی میں تین دن تک پوری ریاست کا کھانے پینا اپنی طرف سے دینے کا اعلان کر دیا اور بہت دھوم دھام سے شادی کی رسمیں ادا کی گئی۔شادی ہو گئی بادشاہ سلامت اپنی نئی ملکہ کے ساتھ پاکر بہت خوش۔و۔ خرم تھے نئی ملکہ بھی بہت خوش تھی کچھ عرصے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا پھر آہستہ آہستہ نئی ملکہ کی طبیعت خراب رہنے لگی بادشاہ سلامت نے نوٹ کیا نئی ملکہ کھانے پینے بہت تھوڑی سی مقدار میں کھاتی ہیں تو شاہی طبیب کو بلوایا اس نے نبض دیکھی تو کہتا بادشاہ سلامت نئی ملکہ بلکل ٹھیک ہیں پریشانی کی بات کچھ نہیں۔مگر نئی ملکہ کی طبیعت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی شاہی خانساماں کو حکم دیا جاتا ہے بہترین سے بہترین کھانے بنائے جائے۔ مگر نئی ملکہ کچھ بھی ٹھیک سے نا کھاتی۔وہ دن بدن کمزور ہو رہی تھی آنکھوں کے نیچے حلقے گہرے ہوتے جا رہے تھے بہت سارے طبیب آئے مگر کسی کو بھی نئی ملکہ کی بیماری کا پتہ نا چل سکا ملکہ کی حالت بگڑتی جا رہی تھی بادشاہ سلامت نے اپنی ریاست میں اعلان کروا دیا جو نئی ملکہ کا علاج دریافت کرے گا اس کومنہ بولا انعام دیا جائے گا۔پھر ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک لوگوں کا تانا بانا باندھا رہتا مگر کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخری نئی ملکہ کو بیماری کیا ہے انہی دنوں اس ریاست میں ایک اﷲ کا نیک بندہ رہنے اجاتا ہے وہ اﷲ والا علم طب کا بھی ماہر ہوتا ہے جب بادشاہ سلامت کو پتہ چلتا ہے تو بادشاہ سلامت حکم دیتا ہے اس اﷲ والے کو عزت۔و۔احترم کے ساتھ محل میں لائے جائے بادشاہ کے حکم پر فورا سپاہی اس بزرگ طبیب کے پاس پہنچ جاتیہیں وہ بزرگ اﷲ کی عبادت میں مصروف ہوتے ہیں جیسے ہی وہ عبادت سے فارغ ہوتے ہیں تو ان سپاہیوں سے پوچھتا ہیکہ کس لئے آئے ہو سپاہی سارا ماجرا سناتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کو بادشاہ سلامت نے یاد کیا ہے۔وہ بزرگ طبیب ان کے ساتھ محل میں اجاتا ہے بادشاہ سلامت کے ہمراہ وہ نئی ملکہ کے کمرے میں آتا ہے تو دیکھتا وہاں ایک انتہائی کمزور عورت شاہی لباس زیب تن کیے لیٹی ہوئی ہے۔جب اس کی نیض دیکھتا ہے تو وہ خوراک کی کمی کی وجہ سے بہت سست چل رہی ہوتی ہے وہ بزرگ بہت حیران ہوتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ وہ بادشاہ کو کچھ نہیں کہتا سب یہ پوچھتا ہے کہ شادی کو کتنا عرصہ ہو گیا؟ اور کس خاندان میں سے شادی کر کے لائے ہیں آپ بادشاہ سلامت شروع سے لئے کر شادی تک کا سارا قصہ سناتا ہے اور یہ بھی بتایا کہ ملکہ نے کھانا پینے بلکل چھوڑ رکھا ہے شاہی خانساماں نے بہت اعلی اعلی پکوان تیار کیے مگر ملکہ نے سب کچھ کھانے سے انکار کر دیا وہ بزرگ طبیب کہتا ہیآپ کی ملکہ کا علاج میں کروں گا بادشاہ سلامت افسردہ سی ہنسی ہنس کر کہتا ہے اﷲ والوں سب یہی کہتے ہیں جب آتے ہیں مگر کامیاب کوئی نہیں ہوا آج تک۔وہ بزرگ خاموش رہتا ہے اور بادشاہ سلامت کو کہتا ہے میں آپ کی ملکہ کا علاج کیسی انعام کی لالچ میں کرنے نہیں آیا۔بادشاہ کہتا ہے ٹھیک ہے آپ بھی کوشش کر لو وہ بزرگ کہتا ہے جیسے جیسے میں بولوں ویسے ہی سب نے کرنا ہے۔بادشادہ سلامت کہتا ہے ٹھیک ہے اس بزرگ نے محل میں چھوٹے چھوٹے دریچے بنوائے کافی زیادہ اور ہر دریچے کے اندر ایک کھانے پینے کی چیزیں رکھ دی اور ملکہ کے کمرے سے سب کو نکال دیا اب ملکہ اپنا کمزور جسم کو بمشکل سے سنبھال کر ہر دریچے میں جا کر صدا لگاتی اﷲ کے نام کر کچھ کھانے کو دو اور پھر وہ اس دریچے سے کھانے پینے کی چیز اٹھا کر کھانے لگ جاتی جیسے جیسے وہ صدا لگاتی ویسے ہی اگلے دریچے سے کھانے والی چیز اٹھا کر کھانے لگ جاتی ایسے کرتے کرتے کچھ دن بیت گئے اور نئی ملکہ بلکل تندرست ہو گئی بادشاہ سلامت بہت حیران ہوا کہ میری ملکہ چن دن میں کیسے ٹھیک ہو گئی۔ نا کوئی دوائی کھائی بادشاہ سلامت ان بزرگ طبیب کو بلاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے ملکہ کو کیا بیماری تھی اور بنا دوائی کے کیسے ٹھیک ہو گئی۔وہ بزرگ مسکرانے لگے اور کہتے جب کیسی کو اوقات سے بھر کر کچھ اچانک مل جائے تو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے بس آپ کی نئی ملکہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا وہ ذات کی فقیرنی تھی آپ نے ایک دم سے ملکہ بنا ڈالا اس کو یہ ساری چیزیں ہضم نہیں ہو رہی تھی وہ بھوکی رہتی تھی کیونکہ ان کو عادت ہی نہیں تھی شاہی کھانوں کی وہ دردر سے مانگ کر کھانے کی عادی تھی اس لئے ان کو ایک در کا کھانا پسند نہیں آرہا تھا اور منہ سے کچھ بول بھی نہیں رہی تھی بادشاہ سلامت کو جب ان بزرگ طبیب کی بات سمجھ آئی تو بادشاہ نے فورا ہی اپنی نئی ملکہ کو آزاد کر دیا اور کہا سچ فرمایا آپ نے انسان کو اسکو اوقات سے بڑھ کر مل جائے تو وہ ہضم نہیں کر سکتا چاہے پھر وہ عزت ہو یا کوئی کھانے پینے والی چیز ہو چھوٹے لوگ ہضم نہیں کر سکتے
 
M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 73138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.