اَفغانستان پر قابض غیر ملکی
فوجوں اور ان کی جارحیت کے خلاف جو قوت، غیرت ملی اور ایمانی جذبے سے
مدمقابل ہو کر بر سر پیکار ہے وہ”طالبان“ ہیں۔ جو امیر المومنین ملا
محمد عمر مجاہد حفظہ اﷲ تعالیٰ کی زیر اِمارت ”جہاد فی سبیل اﷲ “کا
اَہم فریضہ نبھار ہے ہیں اور تحفظ و دفاعِ اسلام و مسلمین کے لئے ہر
قربانی پیش کر رہے ہیں، یہ حضرات جس طرح کفار کی مادی یلغار سے واقف
ہیں اور اس کے مقابل سینہ سپر ہیں، اسی طرح غیر ملکیوں کی طرف سے جاری
عیسائی مشنز پر بھی ان کی پوری نظر ہے اور ان کی روک تھام کے لئے تمام
کوششیں بروئے کار لائی گئی ہیں۔11جمادی الاولیٰ 1430ھ کو”امارت اسلامیہ
افغانستان“ کی جانب سے ایک واضح اِعلامیہ جاری کیا گیا اور پوری قوم کو
تنبیہ کی گئی کہ ان عیسائی مشنریوں سے تمام لوگ دور رہیں ۔مجاہدین
اورعلما کرام کو اس فتنے کی روک تھام کے لئے سخت اِقدامات کرنے کو کہا
گیا اور کوئی بھی شخص جو ایسی سرگرمیوں میں ملوث پایاجائے اُسے کسی قسم
کی رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ”امارت اسلامیہ افغانستان“ کی جانب
سے جاری ہونے والے بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا :
” ان الدفاع عن اراضی البلاد الطاہرة و المعتقدات الاسلامیہ للمسلمین
الافغان واجبہا العقدی و مسﺅلیتہا الایمانیة“ یعنی” افغانستان کی
اسلامی سرحدات اور اسلامی معتقدات کا دفاع و تحفظ ایمانی ذمہ داری اور
اہم فرض ہے۔“
قارئین کرام! ان تمام لزرہ خیز اور تکلیف دہ حالات وواقعات پر نظر
ڈالنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح آشکارا ہو جاتی ہے کہ غیر ملکی
استعماری طاقتیں جو اس وقت افغانستان پر یلغار کئے ہوئے ہیں وہ حد درجہ
خائن اور دشمنانِ دین ہیں۔ انہوں نے صرف افغانوں کی سرزمین پر حملہ
نہیں کیا بلکہ ان کے دینی شعائر و مراکز اور ایمان و اعتقاد پر بھی
حملہ زن ہیں۔ان کی طرف سے دہشت گردی ختم کرنے کا نعرہ محض ایک دکھلاوا
ہے، گزشتہ دس سالوں میں ان کے ہاتھوں سوائے تباہی و بربادی اورہلاکت و
ویرانی کے افغان قوم کو اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس تباہی و بربادی کے
سیلاب میں افغان مسلمانوں کے ایمان و اخلاق اور دینی اقدار کو بھی بہا
لیجانے کی کوشش کی گئی ہے۔ شراب نوشی، شب عیاشی، فحش و منکرات، زنا
کاری و بے پردگی اور ہر بد عمل کو رواج دینے پر بیش بہا دولت صرف کی
گئی اور حد یہ ہے کہ گمراہی وضلالت اور کفر و ارتداد کے اس پرچار میں
نام نہاد کابل حکومت جو بزعم خویش افغان قوم کی نمائندہ ہونے کی مدعی
ہے، ایمانی و ملی غیرت سے یکسرعاری ہو کر خاموش تماشائی کے روپ میں ان
دشمنانِ دین قوتوں کی مدد گار ثابت ہوئی اورذرہ برابر اسے یہ توفیق نہ
ملی کہ ان قوتوں کے خلاف کم از کم آواز ہی بلند کر دے اور نہیں اتنا
کہہ دے کہ تمہاری یہ سرگرمیاں طالبان اور مجاہدین کے خلاف تو نہیں ہیں
بلکہ یہ توپوری افغان قوم اور ملک و ملت کے خلاف ہیں جنہیں ہم بحیثیت
افغان قوم کے نمائندہ ہونے کے ان کی پرزور مذمت کرتے ہیں لیکن اتنی جرا
ت بھی نہ ہوئی کیوں کہ جب ایمانی غیرت کا جنازہ نکل جائے تو قومی و ملی
غیرت کا وجود کہاں باقی رہتا ہے؟
امریکہ کی جانب سے افغانستان کے خلاف جو سازشیں اندرونی سطح پر طے پائی
ہیں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے کہ ان میں ایک اہم مشن یہ بھی ہے کہ
افغانستان کے مختلف قبائل اور اَقوام کو باہم ایک دوسرے کا دشمن بنا کر
آپس میں لڑایا جائے پھر اس باہمی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر پورے
افغانستان پر عیسائی حکومت کاجھنڈا لہرا دیا جائے یا کم ازکم افغانستان
کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک چھوٹی عیسائی ریاست قائم کر دی جائے۔ اس سے
قبل انڈونیشیا کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا جا چکا ہے اور اس سے ایک حصہ
الگ کر کے وہاں عیسائی ریاست قائم کرادی گئی تھی۔ جبکہ ماضی بعید میں
دیکھا جائے تو سرزمین اندلس آج بھی اپنی عظمت رفتہ پر نوحہ کناں ہے اور
عیسائیوں کے دجل وفریب اور اسلام دشمنی کا ایک ایک ورق کھول کھول کر
بیان کر رہی ہے۔ کیا اب بھی عالم اسلام کے بیدار ہونے کاوقت نہیں آیا؟
اور کیا اب بھی اس حقیقت میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ مغربی ممالک کی
جانب سے بپا کردہ یہ جنگ جس کے شعلے افغانستان و عراق کواپنی لپیٹ میں
لینے کے بعد کبھی یمن کی طرف لپکتے ہیں تو کبھی لیبیا و پاکستان کی
طرف، یہ ”صہیونی جنگ“ ہے۔ یہ اسلام دشمنی کی جنگ ہے، اپنے اپنے دنیاوی
مفادات سے ذرا سر بلند کر کے دیکھیں آج سرزمین افغانستان پر کس طرح
استعماری طاقتیں وہاں کی صرف زمین ہی نہیں روند رہیں بلکہ پوری عیاری
ومکاری اور زر وزن کے ہر مذموم حربے کے ساتھ دین و مذہب کی بساط لپیٹنے
کی تگ و دو بھی کر رہی ہیں۔ وہ افغانستان جو صدیوں سے اسلامی تہذیب و
ثقافت کا نمایاں مرکز رہا ہے جہاں کا ہرات، غزنی، چرخ، قندہار، کابل
کیا کیا اسلامی شہر ہیں جن سے ہماری اسلامی،تاریخی ،تہذیبی اور علمی
یادیں اور محبتیں وابستہ ہیں۔
لیکن آہ! آج وہاں صلیب کے پجاری دندنارہے ہیں، اوران کے مقابل اگر کوئی
قوت ہے تو وہ صرف جہاد کی قوت ہے اور اس جہاد کی قوت کی برکات و ثمرات
ہیں کہ افغانستان پر اس درجہ بھیانک یلغار کے باوجود دشمن ناکامی کی
خاک چاٹ رہا ہے۔ کاش! وہ مسلمان جو اب بھی ساحل پر کھڑے طوفان کا نظارہ
کر رہے ہیں غفلت سے بیدار ہوں، دشمن کے عزائم کو سمجھیں ۔یہود ونصاری
کی یہ ارتدادی سرگرمیاں کوئی انہونی نہیں بلکہ یہ وہ حقیقت اور ان کے
اصل عزائم ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید نے ہمیں پہلے ہی خبر دے رکھی
ہے،فرمان باری تعالیٰ ہے: ترجمہ:” اکثر اہل کتاب تو اپنے حسد سے حق
ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے تمہیں ایمان لانے کے
بعد پھر کفر کی طرف لوٹا کر لے جائیں ،سو(تم اُن کی اِن بری حرکتوں کو)
معاف کرو اور درگزر کرو جب تک اﷲ تعالیٰ اپنا حکم بھیجے۔ بیشک اﷲ
تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔( سورہ البقرہ ۹۰۱)
اس آیت مبارکہ کا خلاصہ اور پیغام کیا ہے؟ اسی سوال کا جواب دے کر ہم
اپنا یہ کالم ختم کرتے ہیں۔لیجیے !فتح الجوّاد فی معارف آیات الجہاد سے
یہ عبارات ملاحظہ فرمائیے :
”(۱) اﷲ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کو ہوشیار فرما رہے ہیں اور انہیں
متنبہ کر رہے ہیں کہ اہل کتاب( یہود و نصاریٰ) کافر تمہیں مرتد بنانے
کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ وہ تمہارے ظاہری اور باطنی دشمن ہیں اور
وہ تم سے حسد رکھتے ہیں۔
(۲) مسلمان فی الحال صبر کریں اور نماز اور زکوٰة کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ
سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں اور اپنی جماعت کو ان عبادات (نماز
اورزکوة وغیرہ)کے ذریعے قوت دیں۔
(۳) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا علاج.... جہاد فی
سبیل اﷲ،اللہ کے حکم کے ذریعے نازل ہونے والا ہے.... جہاد فی سبیل اﷲ
پورے عالم میں امن کا انتظام کرنے والا قانون ہے۔
(۴) مسلمان اپنی کمزوری اور اپنے دشمنوں کی طاقت سے پریشان نہ ہوں، جب
جہاد کا حکم نازل ہو گا اور مسلمان اس پر عمل کریں گے تو وہ اکیلے نہیں
ہوں گے اﷲ پاک ان کی مدد کرنے اور انہیں غالب کرنے پر قادرہے۔
(۵) جہاد.... ”امر اﷲ “یعنی اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے۔
(جی ہاں!آج بھی )یہود ونصاریٰ کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی
کوششیں بھی زوروں پر ہیں اور اﷲ تعالیٰ کا حکم قتال فی سبیل اﷲ بھی
نازل ہو چکا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بیداری، شعور اور اپنے
اَوامر(جس میں نماز روزے کے ساتھ جہاد بھی ہے) پر عمل کی توفیق عطا
فرمائے“۔ |