اَعمالِ خیر اور مآلِ خیر !!
(Babar Alyas, Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب (((( سُورَہِ
یُونس ، اٰیت 24 تا 27 )))) اَعمالِ خیر اور مآلِ خیر !!
ازقلم.......اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
انما
مثل الحیٰوة
الدنیا کما ان انزلناہ
من السماء فاختلط بہ نبات
الارض مما یاکل الناس والانعام حتٰی
اذا اخذت الارض زخرفھا وزینت وظن اھلھا
انھم قادرون علیھا اتٰھا امرنا لیلا او نھارا فجعلنٰھا
حصیدا کالم تغن بالامس کذٰلک نفصل الاٰیٰت لقوم یتفکرون
24 واللہ یدعواالٰی دارالسلام ویھدی من یشاء الٰی صراط المستقیم
25 للذین احسنواالحسنٰی وزیادة ولایرھق وجوھم قترة ولاذلة اولٰئک اصحٰب
الجنة وھم فیھا خٰلدون 26 والذین کسبواالسیاٰت جزاء سیئة بمثلھا وترھقھم
ذلة مالھم
من اللہ من عاصم کانما اغشیت وجوھھم قطعا من الیل مظلما اولٰئک اصحٰب النار
ھم فیھا خٰلدون 27
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ زمان و مکان اور زمین و مکین
کی یہ حیاتِ حسین ہر لَمحہ و ہر آن ایک اَچانک آنے والی موت کی زد میں رہتی
ھے اور اِس حیاتِ حسین کی مثال اُس زمین کی طرح ھے کہ جس پر خُدا پہلے خلاء
سے پانی برساتا ھے ، پھر اُس میں انسان و حیوان کے کھانے کے لیۓ سبزہ و گُل
اُگاتا ھے اور پھر وہ اُس زمین کو اَشجار و اَثمار سے سجا سنوار کر کُچھ
ایسا حسین و دلنشین بناتا ھے کہ جس سے انسان اِس زُعم میں مُبتلا ہو جاتا
ھے کہ زمین کا یہ رُوۓ بہار اور اِس کے یہ حسین و جمیل گُل و گُلزار اللہ
کی قُدرت کا کرشمہ نہیں ہیں بلکہ انسان کی اپنی محنت و صلاحیت کا نتیجہ ہیں
اور اِن پر اسی کا اقتدار و اختیار ھے اور جب یہ نادان انسان اللہ اقتدار و
اختیار کو اپنا اقتدار و اختیار قرار دے کر اللہ کے اقتدار و اختیار کی نفی
کردیتا ھے تو پھر اَچانک ہی ایک شَب یادن کو زمین پر اللہ کا وہ حُکمِ فنا
آجاتا ھے جس کے نفاذ و نفوذ سے وہی زمین ایسی ویران ہو جاتی ھے کہ جیسے ایک
دن پہلے اِس پر کُچھ موجُود تھا ہی نہیں ، اللہ نے یہ دلیل اور یہ تمثیل
اِس تفصیل کے ساتھ اِس لیۓ بیان کی ھے تا کہ جو انسان اللہ سے اپنی اِس
فکری بغاوت کی معافی طلب کر کے اپنے اِس سفرِ حیات کے لیۓ ھدایت چاھے تو
اُس کو ھدایت دی جاۓ اور اُس پر یہ اَمر بھی واضح کر دیا جاۓ کہ دُنیا میں
انسان کی بطور انسان حقیقی ذمہ داری یہ ھے کہ وہ دُنیا کے اِس عارضی و غیر
محفوظ گھر سے نکلنے اور عُقبٰی کے اُس دائمی و محفوظ گھر میں جانے کے لیۓ
زادِ راہ بناۓ جس محفوظ گھر میں رہنے کے لیۓ اللہ اُس کو بُلا رہا ھے اور
انسان کو یہ بھی سمجھایا جاۓ کہ اگر وہ اللہ کے اُس گھر میں جانا چاہتا ھے
تو اُس کا زادِ سفر انسان کا عملِ خیر ھے اور جس انسان کے پاس عملِ خیر ھے
اُس کے لیۓ دُنیا و عُقبٰی دونوں میں خیر ہی خیر ھے اور اِس خیر دَر خیر پر
مزید خیر یہ ھے کہ جو انسان اللہ کے اُس گھر میں جانے کے لیۓ سامانِ خر جمع
کرے گا تو وہ اللہ کے اُس گھر میں اِس شان سے داخل ہو گا کہ اُس کے چہرے پر
خوف کی کوئ پرچھائیں نہیں ہوگی اور اُس کے دامن پر رُسوائ کا کوئ داغ بھی
نہیں ہوگا ، اِس کردار و عمل کے حامل لوگ اُس دائمی باغِ بہشت کے مالک و
مکین ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے لیکن جن لوگوں کے پاس سامانِ خیر کے
بجاۓ سامانِ شر ہو گا تو اُن کو سزا تو اُن کے اعمالِ شر کے برابر برابر ہی
دی جاۓ گی لیکن اِس پر صرف یہ اضافہ ہو گا کہ وہ اپنی جزا و سزا کے اِس سفر
پر اِس حال میں جائیں گے اُن کے دامن کے داغ ہر نگاہ کو دُور سے نظر آئیں
گے اور اُن کے چہروں پر رات کی تاریکی کی طرح لپٹی ہوئ ایک تہہ دَر تہہ
تاریکی بھی ہر ایک کو دُور دُور سے نظر آۓ گی اور اُن کو اسی حال میں دوزخ
کے اُس دائمی گھر میں دھکیل دیا جاۓ گا جس میں اُن کو ہمیشہ رہنا ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات کے گزشتہ مضمون کا مُنتہاۓ کلام انسان کو دی گئ اِس ھدایت پر
مُشتمل تھا کہ ہر انسان نے دُنیا میں ایک طے شُدہ مقررہ مُدت تک رہنا ھے
اور اِس طے شُدہ مقررہ مُدت کے بعد ہر انسان نے اللہ کے حضور میں حاضر ہوکر
فردا فردا اپنے اپنے اعمالِ خیر و شر کا جواب دینا ھے اور ہر انسان نے اپنے
اپنے اعمالِ خیر و شر کے مطابق اپنی اپنی جزا و سزا کو پانا ھے اور اَب
موجُودہ اٰیات کا آغاز کلام اِس تمثیل سے کیا گیا ھے کہ جس طرح بَطنِ زمین
میں ایک ہی بار اللہ کا پیدا کیا ہوا پانی بار بار زمین کی ساری رگوں کے
سارے عناصر لے کر پہلے سمندر میں جاتا ھے ، پھر زمین و سمندر کے سارے عناصر
اُٹھا کر خلاء میں جاتا ھے ، پھر زمین و سمندر اور خلا کے سارے عناصر سے لے
کر بارش کی صورت میں دوبارہ زمین پر آتا ھے اور پھر وہ عناصرِ حیات سے پُر
حیات پانی زمینی حیات کی پرورش کے لیۓ زمین سے رزق و رحمت کے خزانے نکال کر
باہر لاتا اور ہر ذی حیات کو آسودہِ حیات بناتا ھے ، اسی طرح اللہ کی وحی
جو آسمان سے انسان کے لیۓ آتی ھے وہ بھی انسان کے لیۓ زمین و آسمان کی ساری
رحمتیں اور سعادتیں لے کر انسان کے پاس آتی ھے تاکہ انسانی جسم اور انسانی
جان اِن رحمتوں سے بالیدگی پاۓ اور بالآخر انسان ایک ایسا سَچا اور سُچا
انسان بن کر اس طرح اپنے اللہ کے پاس جاۓ کہ ارتقاۓ حیات کی اَگلی اور
قابلِ احترام دُنیا میں داخل ہو جاۓ اور اسی تمثیل کے یمین و یسار میں یہ
بھی بتایا گیا ھے کہ جس طرح اللہ کا نظامِ فطرت زمین سے نکلنے والے رزق و
رحمت کے خزانوں کی قدر نہ کرنے والے انسانوں کو زمین سے مٹا دیتا ھے اسی
طرح اللہ کا نظامِ قُدرت اللہ کی وحی کی قدر نہ کرنے والے انسانوں کو بھی
زمین سے ملیا میٹ کر دیتا ھے کیونکہ جس طرح زمین سبزہ و گُل کے لیۓ پانی کی
مُحتاج ھے اسی طرح انسان بھی ایمان و یقین کے لیۓ نُورِ وحی کا مُحتاج ھے
اور جس طرح زمین آسمانی بارش کے بغیر بنجر ہوکر رزق و رحمت کے خزانے پیدا
کرنے سے معذور ہو جاتی ھے اسی طرح انسان بھی آسمانی رُشد و ھدایت کے بغیر
ایک ناکارہ و نامراد ہستی بن کر رہ جاتا ھے اِس لیۓ اٰیاتِ بالا میں سے
تیسری اٰیت میں اللہ نے بتایا ھے کہ جو لوگ اللہ کے اَحکامِ اَمر و نہی پر
عمل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ کے اِن اَحکام کی تفہیم کے لیۓ اللہ سے ھدایت
چاہتے ہیں تو وہ اللہ سے توفیق پاتے ہیں لیکن اللہ کی ھدایت و توفیق اللہ
کی کتاب اور اَحکامِ کتاب کے ساتھ مربُوط اور مشرُوط ھے ، جو شخص کتابِ
ھدایت کو سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کے لیۓ نہیں آۓ گا وہ کبھی بھی ھدایت
نہیں پاۓ گا کیونکہ ھدایت کا مفہوم ھدایت کی خواہش کرنا یا دُعا مانگنا
نہیں ھے بلکہ ھدایت کا مقصود اللہ کی کتاب کو سمجھنا اور اِس کے اَحکام پر
حُور و غلمان اور شراب و شھد کی خواہش کے بغیر صرف اور صرف اِس خواہش و
خیال سے عمل کرنا ھے کہ یہ اللہ کا حُکم ھے اور بندہِ مومن نے اِس حُکم پر
عمل کر کے اپنے بندہِ مومن ہونے کا ثبوت فراہم کرنا ھے ، اٰیاتِ بالا میں
اہلِ ایمان کی جس سُرخ رُوئ اور اہلِ کفر کی جس رُوسیا ہی کا ذکر ہوا ھے یہ
ذکر اسی مضمون کا اعادہ ھے جو مضمون اَصحابِ اعراف کے بارے میں سُورةُ
الاَعراف کی اٰیت 46 میں آیا ھے اور جس مضمون میں اللہ نے یہ بتایا ھے کہ
اہلِ اَعراف اہل جنت و اہلِ دوزخ کو اُن کی صورتوں سے پہچان لیں گے اور
اہلِ جنت و اہلِ جھنم کو صورتوں سے پہچانے لینے کی یہی صورت ھے جو اٰیاتِ
بالا میں بیان ہوئ ھے ، ایک دُوسری بات جو اٰیاتِ بالا میں ھدایت کے حوالے
سے آئ ھے یہ بھی وہی بات ھے جو کا سُورةُالاَنعام کی اٰیت 161 میں سیدنا
ابراھیم علیہ السلام کے اِس بیان پر مُشتمل ھے کہ میرے رب نے مُجھے صراطِ
مستقیم پر چلنے کے لیۓ ھدایت دی ھے ، قُرآن کے اِس ایک مقام کے علاوہ متعدد
مقام کے متعدد اَحکام سے معلوم ہوتا ھے کہ اللہ تعالٰی اپنے اجتماعی قانونی
اَحکام کے لیۓ براہِ راست جو ھدایت یا ھدایات دیتا ھے وہ صرف اور صرف اپنے
اَنبیا و رُسل کو دیتا ھے اور غیر اَنبیاء و رُسل کو اپنے اَنبیاء و رُسل
سے یا پھر اُن پر نازل ہو نے والی کتابِ ھدایت سے ھدایت لینے کا حُکم دیتا
ھے ، اٰیات بالا میں " یھدی من یشاء " کے جو الفاظ وارد ہوۓ ہیں وہ قُرآن
کا ایک اُسلوبِ کلام ھے اور اِس اُسلوبِ کلام کے مطابق اِس " مَن " میں
پہلے ھدایت پانے والا شاملِ مَن ہو تا ھے اور اُس کے بعد ھدایت دینے والا
توفیقِ ھدایت دیتا ھے ، جہاں تک مُطلق اور مُجرد ھدایت کا تعلق ھے تو اُس
کا واحد ذریعی نبی یا کتابِ نبی ہوتا ھے ، اللہ تعالٰی بذاتِ خود نہ تو کسی
انسان کو ھدایت دیتا ھے اور نہ ہی کسی انسان کو گُم راہ کرتا ھے ، ھدایت و
ضلالت انسان کا ایک اختیاری اختیار ھے جس کو انسان اپنے آزادانہ ارادے اور
اختیار سے اختیار کرتا ھے ، قیامت کے روز انسان سے انسان کے اسی آزادانہ
ارادے اور اختیار کے حوالے سے سوال و جواب ہوگا اور اُس کے اسی آزادانہ
ارادے کے مطابق اُس کی نجات و عدمِ نجات کا فیصلہ ہو گا !!
|
|