کپتان کے کھلاڑی، بھٹو کے جیالے اور شریف کے شیر، اپنے قائدین کی غلط بات کو بھی صحیح کیوں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں

image
 
سیاست کرنے کے لیے سیاسی جماعت کا بنانا بہت ضروری ہوتا ہے اور سیاسی جماعت بنانے کے بعد اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی کارکن جمع کر سکے- سیاسی کارکن کی اصطلاحی تعریف کے مطابق جو فرد کسی جماعت کے منشور سے متفق ہو اور اس منشور کو کامیاب بنانے کے لیے عملی کوشش کرے اس کو سیاسی کارکن کہا جاتا ہے- مگر دنیا کے ہر حصے میں یہ تعریف بھلے درست سمجھی جائے مگر پاکستان میں سیاسی کارکن کی تعریف یکسر مختلف ہے یہاں سیاسی کارکن سے مراد کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کرنے والے اس ٹولے سے لی جاتی ہے جن کا کام اپنے سیاسی قائدین کو اپنے کاندھے پیش کرنا اور ان کی غلط بات کو صحیح ثابت کرنا ہوتا ہے- ہمارے ملک میں اس وقت بنیادی طور پر تین بڑی سیاسی جماعتوں کے تین قسم کے سیاسی کارکن موجود ہیں-
 
1: بھٹو کے جیالے
پاکستان پیپلز پارٹی کا شمار پاکستان کی ان سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جنہوں نے عام عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا- اس جماعت کا قیام ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہوا جو کہ ایک پر جوش لیڈر تھے اور یہی وصف ان کی سیاسی جماعت کے کارکنوں میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے مگر حالیہ دنوں میں بے نظیر کی شہادت کے بعد اس جماعت کی قیادت اب بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں میں ہے جو کہ اگرچہ سیاست کے عملی میدان میں نو آموز ہیں- مگر وراثتی سیاسی نظام کے سبب ان کے سر پر بہت سارے سینئير لوگوں کی موجودگی کے باوجود قیادت کی پگڑی رکھ دی گئی ہے اس جماعت کے کارکنوں کا سب سے پسندیدہ نعرہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے سمجھا جاتا ہے۔ اس جماعت کے کارکن بے نظیر کے بعد ایک زرداری سب پر بھاری کہہ کر ان کی تمام کرپشن کو الزامات ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں- اس جماعت کے کارکنوں کی تعداد میں پنجاب میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے مگر سندھ میں اب بھی اس جماعت کے جیالوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو کہ سندھ کے برے حالات کا ذمہ دار تیرہ سالہ اقتدار کے باوجود اپنی جماعت کے بجائے دوسروں کو سمجھتے ہیں-
image
 
2: نواز شریف کے شیر
مسلم لیگ ن کے کارکن ان کے سیاسی نشان شیر کے سبب خود کو شیر کہلوانا پسند کرتے ہیں اس حوالے سے یہ اپنے قائدین کو بھی شیر مانتے ہیں مگر ہمیشہ اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہتے ہیں کہ ان کے قائدین جب بھی اقتدار سے باہر ہوتے ہیں ملک سے فرار ہو جانا کیوں پسند کرتے ہیں۔ ان شیروں کی بڑی تعداد پنجاب میں موجود ہے نواز شریف کے ملک سے باہر ہونے اور شہباز شریف کے جیل میں ہونے کے سبب اب ان شیروں کی قیادت ایک شیرنی مریم نواز کر رہی ہیں جو کہ عملی سیاست میں صرف اسی وقت ایکٹو نظر آتی ہیں جب ان کے والد اور چچا اقتدار سے دور ہوتے ہیں ورنہ حکومت میں رہتے ہوئے یہ لوگ اپنے کارکنوں سے بھی دور رہنا پسند کرتے ہیں مگر اقتدار جاتے ہی یہ کارکنوں کے کاندھوں پر سوار ہو جاتے ہیں-
image
 
3: کپتان کے کھلاڑی
پاکستان تحریک انصاف کے کپتان اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ملک کے نوجوانوں اور اپنے کھلاڑیوں کی مدد سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا اور نواز شریف کو اقتدار سے دور کرنے کی تحریک چلائی- مگر اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہی ان کے کھلاڑی بھی پچ سے باہر ہو گئے اور انکے ارد گرد ایسے ٹولے نے جگہ لے لی جو کہ ان کی تحریک کے دوران کبھی بھی ان کے شانہ بشانہ نظر نہیں آیا، کپتان کے کھلاڑیوں کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کا کپتان کرپشن کے تمام الزامات سے پاک ہے مگر عام لوگوں کے سامنے وہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو ماضی کی حکومتوں کا تحفہ قرار دے کر اپنے کپتان کے ہر عمل کو درست ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے نظر آتے ہیں-
image
 
یاد رکھیں !
دنیا بھر میں سیاسی کارکن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے غلط عمل کو بھی صحیح ثابت کریں بلکہ سیاسی جماعت کے کارکن سے مراد وہ افراد ہیں جو کہ اپنی جماعت کی فیصلہ سازی میں بھی شامل ہوں اور اس کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد ایک ناقد کے طور پر اس بات پر نظر رکھیں کہ ان کی جماعت اپنے منشور کو درست انداز میں نافذ کر رہی ہے یا نہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: