جمعہ نامہ: نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا

 ارشادِ ربانی ہے :’’وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے ‘‘۔ سورۂ یونس کی اس آیت میں ویسے تو یہ ایک سفر کیفیت بیان ہوئی ہے لیکن یہ مثال انسانی زندگی پر بھی صادق آتی ہے؟ زندگی بھی سفر کی مانند نشیب و فراز سے دوچار ہوتی ہےآگے مزید فرمایا :’’یہاں تک کہ تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو ‘‘ اللہ کا کرم ہے کہ اپنے بندوں کو وہ سب بھی عطا فرمادیتا ہے جس کی فرمائش و خواہش تک نہ کی گئی ہو۔ اس کے باوجودنا شکرا انسان احسانمندی کے دو بول ادا نہیں کرتامگرپھر آزمائش ِ حیات سےحالات کے بدلنے کا ذکریوں کیا گیا کہ :’’ اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ‘‘۔ یہ معاملہ سبھی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن جن کے پاس سامانِ زیست زیادہ ہوتو ان کو احساس شدید تر ہوتا ہے اور ہلکی پھلکی زندگی گزارنے والے اسے کم محسوس کرتے ہیں۔

دنیا کی اس آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو بشارت دی گئی : ’’ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے" انہیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں‘‘ لیکن جو ایسے نہیں ہوتے ان کےلیے سورہ یونس کی آیت مذکورہ میں ارشادِ قرآنی ہے :’’ اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دُعائیں مانگتے ہیں کہ ’’اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے‘‘ ۔

اس کیفیت کا مشاہدہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ کورونا کے دوران تواس کا مظاہرہ خوب ہوا لیکن جب وباء کی پہلی لہر گزر گئی تو لوگ پھر سے اپنی پرانی ڈگر پر لوٹنے لگے اور ان پر آگے والی آیت صادق آنے لگی :’’مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں‘‘۔ مشکل کی گھڑی میں اپنے رب سے کیے جانے والے مناجات اورعہدو پیمان کو فراموش کردینے والے احسان فراموش لوگوں کو اس طرح خبردار کیا گیا کہ :’’ لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے‘‘۔ انسان اپنے خالق و مالک سے بغاوت تو کرتا ہے مگر اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔حدیث قدسی کا حصہ ہے:’’ اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جائیں کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں کچھ کمی نہیں کر سکتے‘‘ لیکن وہ اپنا مستقبل ضرورتباہ کر لیتے ہیں کیونکہ اس آیت میں آگے فرمایا گیا: ’’ دنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو‘‘۔

ان آیات میں زندگی کی ایک سفر کی مانند عکاسی کرنے کے بعد اللہ کے دین سے غافل کردینے والے جہانِ فانی کی تمثیل ملاحظہ فرمائیں : ’’ دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ‘‘۔کورونا کی دوسری لہر میں ہمارے لیے نشانِ عبرت ہے، فرمایا:’’اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں‘‘۔ دنیا میں سنبھلنے کا موقع بار بار آتا ہے لیکن ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب توبہ کا دروازہ بند اور مہلت عمل ختم ہوجائے گی ۔ اس وقت نگری نگری پھرکر اپنا گھر کا رستہ بھول جانے والے مسافر کے لیے عذابِ الٰہی سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1279377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.