مقصد انسانیت سمجھ آیا

ایک شام علی گھر داخل ہوا اور جا کر اپنی ماں کی گود سر رکھ کر رونے لگا, علی گھر میں بڑا تھا اس سے چھوٹے دو یعنی ایک بہن اور ایک بھائی تھا, علی کو روتا دیکھ کر گویا گھر میں قیامت ٹوٹ گئ کہ علی کو آج خلاف معمول کیا ہوا ہے یہ تو بڑا ہنس مکھ ,درد دل رکھنے والا جوان تھا, علی کی ماں اسکے باپ کی طرف دیکھتی ہے اور بیٹے کے سر پر پیار کرتے ہوۓ, روتے ہوۓ دلاسہ بھی دیتی ہے اور پوچھتی ہے کہ میرے بہادر لال کو کیا ہوا, کس نے کیا کہا ہے کیوں روتے ہو ؟
علی کا باپ پاس آ کر پیار کرتے ہوۓ پوچھتا ہے کہ بیٹا کیا ہوا ہے, کچھ بتاو یا ہمیں پریشان کرتے رہو گۓ ؟
علی ماں کی گود میں لیٹے ہوۓ باپ کی جانب دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ابا جان آج آپکے علی کو کچھ ہو گیا ہے, یا اباجان پھر تیرے علی کو زندگی کے مقصد کی سمجھ آ گئ ہے, ماں جی آج تیرا علی لگتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہو جاۓ گا, چھوٹی بہن علی کی بات سن دوڑتی ہوئی بھائی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے کہ بھائی ایسا نہیں کہتے,
علی ایک لمبا سانس لیتا ہے, آنسو صاف کرتا ہوا ماں کی گود سے سر اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ
ماں جی آج جب میں گھر واپس آ رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ نہر کے کنارے ایک بزرگ کہہ رہا تھا کہ زندگی فانی ہے, ابدی سفر کی تیاری کر لو, زندگی کے مقصد کو سمجھ لو, اللہ کی امانت لے لو, میں اسکی آواز سن کر رک گیا,
اباجان,اماں جان میں نے ان سے پوچھا بابا جی کیا ہے زندگی ,کیا ہے اسکا مقصد میں جاننا چاہتا ہوں تو اباجان اس نے مجھے پاس بلایا, پیار سے تپکی دی اور کہنے لگا,
پترجی سکون انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے جس کی تلاش میں انسان شب و روز ہلکان ہوئے پھرتے ہیں لیکن وہ موجود پیہم رب کی یاد میں ہے,
لیکن انسان بھول جاتا ہے کہ تمہیں موت بھی اچھی لگنی چاہیے اس لئے کہ موت بھی تو وہی دے گا جس نے زندگی دی تھی،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک اچھا تحفہ دینے کے بعد کوئی دوسرا تحفہ برا دے"
پتر جی ‏جب انسان قرآن کا علم حاصل کرتاہے تو پھر اس کے اندر سے حسد، بغض، کینہ اور نفرت جیسی چیزیں نکل کر محبت، پیار اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے پھر وہ ذاتی مفادات سے ہٹ کر بھی لوگوں کیلئے حلیم بن جاتاہے__
پتر جی اللہ قران کریم میں فرماتا ہے کہ
‏زمانے کی قسم، انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو اِیمان لائیں، اور نیک عمل کریں، اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔(سورۃ العصر)
علی روتے ہوۓ دوبارہ ماں کی گود میں سر رکھتا ہے اور ماں جی پھر بابا جی کہنے لگے ‏کچھ لوگوں کے حالات ان کی گہرائیوں میں دفن ہوتے ہیں اگر ان کو نہیں جانتے تو اچھی سوچ کے ساتھ ان کا احترام کیا کرو,
پتر جی ‏جن رشتوں سے ہم کو پیار، ہمدردی اور توجہ چاہیے ہوتی ہے، بدلے میں جب ان سے طنز اور نفرت ملے تو انسان انجانے میں اچھے برے کا فرق بھول کر ہر اس انسان سے تعلق بنا لیتا ہے جو توجہ اور پیار دے اس لیے پتر جی اللہ کی مخلوق کا احترام کیا کرو,
علی یہاں ایک پل کے لیے خاموش ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اباجی وہ اللہ والا میرا نام تک جانتا تھا, ماں جی پھر اس نے کہا پتر علی ‏مرنے والے انسان کو نہیں معلوم کہ آپ نے اس کے لئے کتنے آنسو بہائے لیکن زندہ انسان کو مرتے دم تک یاد رہے گا کہ آپ کی وجہ سے اس نے کتنے آنسو بہائے،جو رشتے آپ کے پاس ہیں ان کی قدر کیجئے انہیں احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لئے کتنے اہم ہیں اور آپ کو ان کی کتنی ضرورت ہے ان سے کتنی محبت ہے,
علی پتر دنیا پیار سے قائم ہے اور ‏پیار اندھا ہوتا ہے,
پتر علی ‏بعض اوقات ہم ایک ہی وقت میں کسی کیلئے بہت اچھے اور کسی کے لئے بہت برے ہوتے ہیں کیوں کہ یہ زندگی ہے لیکن پتر جی آپ کبھی بھی کسی کی نظروں میں بہت اچھے نہیں ہو سکتے بعض اوقات ہمیں اچھا بننے کی کوششیں دوسروں کی نظر میں بُرا بنا دیتی ہے, لوگوں کی پرواہ کیئے بغیر خود مثبت رہتے ہوۓ زندگی بسر کرو وقت بہت کم ہے,
‏اباجی وہ کہتے ہیں کہ پتر جی اللہ کی تلاش کے لیے اسکی مخلوق سے ‏علیحدگی کی صورت میں انکے رازوں کو دفن کرنا اصول بناؤ, ‏کسی تعلق کو بچانے کے لئے سو دلیلیں دینے سے بہتر ہے کہ دل پہ پتھر رکھ کے جانے والے کو خوشی خوشی رخصت کر دیا جائے...!!
علی بات کرتے ہوۓ پھر زور زور سے روتا ہے, علی کی والدہ پیار کرتی ہے, حوصلہ دیتی ہے اور ایک عجب سی کیفیت محسوس کرتی ہے لیکن اپنے آنسو اپنے پتر علی کے رخساروں پر گرنے نہیں دیتی,
علی حوصلہ کرتے ہوۓ باباجی کی بات کو جاری رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اباجان باباجی کہتے ہیں
علی تم کچھ دنوں سے بے چین ہو کیوں ؟
اکثر خاموش بیٹھتے ہو, کیوں ؟
علی کہتا ہے اماں جان,
یہ سچ ہے کہ تنہا, اکیلے. نا جانے کن سوچوں نے میرے ذہن کے ساتھ ساتھ میرے پورے وجود پر قبضہ کر لیا تھا.میں پریشان تھا کہ آخر یہ کیا ہے.
اباجان میں بہت ہنس مکھ اور باتونی تھا. اچانک خاموش رہنے کو دل کرتا ہے . علی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے. وہ اپنے چھوٹے بھائی, چھوٹی بہن سے کہہ رہا تھا کہ تم لوگ ابھی سفر زندگی سے ناآشنا ہو ,تم لوگ سمجھتے ہو کہ یہ مادی چیزیں مکان,گاڑی, روپیہ پیسہ, فون, کمپیوٹر, اے سی,فریج ,بنک بیلنس, ظاہری ترقی, وغیرہ ہی اصل زندگی اور خوشی ہیں,
لیکن ماں جب یہ زندگی کے مقصد سے آشنا ہو
جائیں گے تو جانیں گے کہ ماں باپ, بہن بھائی, رشتے ناتے کیا ہوتے ہیں. تم دونوں سے بڑا یہ جو تمہارا بھائی ہے نا یہ سفر زندگی سے باخبر ہوچکا ہے , مقصد زندگی سے آشنا ہو چکا ہے. تم دونوں ابھی ناآشنا ہو اور انسانوں سے محبت کی نہ صلاحیت رکھتے ہو اور نہ اظہار کر سکتے ہو,
لیکن اباجان آپکا بڑا بیٹا علی ماں کی گود میں لیٹا ہے. محبت انسان سے آشنا ہوچکا ہے.
باباجی کہتے ہیں بچہ سب سے پہلے جس جذبے سے روشناس ہوتا ہے ,وہ محبت ہی ہے. وہ محبت کو محسوس کرتا ہے ,مسکرا کر محبت کا اظہار کرتا ہے. بچہ معصوم ہوتا ہے,اس کی محبت سچی ہوتی ہے. اس کی محبت میں ایک وارفتگی ہوتی ہے.
لیکن نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں, ہم حبت کے جذبے سے ناآشنا ہو جاتے ہیں. ہم شاید دنیا اور اس مادی اشیاء اور اس کی خواہشوں میں اس قدر الجھتے چلے جاتے ہیں کہ پھر کبھی سلجھ ہی نہیں پاتے یا پھر یوں کہہ لیتے کہ اس دنیا کی بھول بھلیوں میں محبت کی راہوں سے کہیں دور نکل جاتے ہیں اور اس دوری کی وجہ سے ہمارے جذبات خود غرضی ,لالچ, مفاد پرستی, انا پرستی کے سرد خانوں میں پہنچ کر منجمد ہو جاتے ہیں.
اماں جان باباجی کہتے ہیں کہ لیکن زندگی سدا ایک سی نہیں رہتی یہ بدلتی رہتی ہے, اس کا بدلنا ہی اس کا حسن ہے اگر زندگی میں تبدیلی رونما نہ ہو تو انسان زندگی جیسی نعمت کو زحمت سمجھے . خالق نے ہمیں زندگی دی ہے ,مالک نے ہماری دلچسپی اور جینے کی خواہش کو برقرار رکھنے کے لیے زندگی کو ہزارہا تغیرات عطا کیے ہیں. اسی لیے تو انسان ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے, کبھی مرنا,نہیں چاہتا. وہ نہ تو بیمار ہونا چاہتا ہے , نہ ہی بوڑھا ہونا چاہتا ہے.
علی روتے ہوۓ کہتا ہے کہ اباجی وہ مٹی سے کیھلنے والے بابا جی کہتے ہیں کہ علی پتر انسان کی اس نادانی پر قدرت مسکراتی ہے اور کہتی ہے ارے نادان, اے غافل انسان ! اے جلد باز انسان, اے خواہش کے سمندر میں غرق انسان, اے لالچ ؤ مفاد کے تختہ پر حکمرانی کرنے والے انسان, کیا تو نہیں جانتا جسکو زندگی ملتی ہے اسے موت کا ذائقہ بھی چکھنا ہے, جو بنتا ہے وہ ٹوٹتا بھی ہے ,جو پھول کھلتے ہیں وہ مرجھاتے ہیں, جن باغوں میں بہار آتی ہے وہاں خزاں بھی ڈیرہ ڈالتی ہے.
اس لیے میرے بچے ان سب باتوں پہ غور کرو,سوچو, سمجھو, اپنے جسم کے ساتھ اپنے دل کو بھی زندہ رکھو,اپنی روح کو منور رکھو. دل ہمیشہ رشتوں, جذبوں کے احساس سے زندہ رہتا ہے. رشتوں ,احساس, ایثار کے جذبوں کی زندگی محبت انسان اور صرف محبت انسان سے ہے.
علی ماں کی گود میں روتے ہوۓ کہتا ہے کہ اماں جان, ابا جان وہ بابا کہتے ہیں علی پتر یاد رکھنا,
ماں باپ بچے کو کمزور اور بے بس بچے خو پالتے ہیں, پرورش ,نگہداشت ؤ حفاظت کرتے ہیں. خدانخواستہ اگر بچہ بیمار ہو سب چھوڑ چھاڑ کر , بھول بھال کر اس کے علاج معالجہ کرواتے ہیں, صحت و تندرستی کے لیے دوا ؤ دعا دونوں کرتے ہیں. اپنا کھانا پینا, اوڑھنا بچھونا سب کچھ بھول جاتے ہیں.بس ایک ہی غرض ؤ عرض, ایک ہی دعا ؤ مدعا کہ ان کا بچہ آللہ کے کرم و فضل سے صحتیاب ہو جائے. بچے کی بیماری دور ہو جائے. یہاں تک کہ وہ دعا کرتے ہیں کہ ان کے بچے کی بیماری ان کو لگ جائے اور ان کی عمر ان کے بچے کو لگ جائے.
وقت کی رفتار, برف کے پانی ہوتی حالت جیسی بدلنے والی زندگی پھر بدلتی ہے ,بچے جوان ہو جاتے ہیں. بااختیار ہوجاتے ہیں اور ماں باپ بوڑھے اور کمزور ہو جاتے ہیں. بچوں کے پاس کرنے کو بہت سے کام لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے پاس بیٹھیں,باتیں کریں ان کی دلچسپی کا کچھ سامان کریں. ان دونوں میں سے کوئی بیمار ہو تو ان کا بھر پور علاج کروائیں,تیمارداری کریں,دعا لیں ,ان کی صحتیابی کے لیے پوری توجہ سے, تڑپ سے دعائیں کریں جیسے تڑپ کر ان کے ماں باپ نے کبھی کی تھیں.
علی بابا جی باتیں کرتے کرتے کچھ دیر رکا,آنسو صاف کیے اور بولا ہاں مگر کچھ ایسے بھی جوش نصیب, ہوتے ہیں جو بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں,خیال رکھتے ہیں. انھیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں .ان سے محبت کرتے ہیں جیسے کہ بچپن میں والدین نے ان سے کی تھی. سب اختیار رکھتے ہوئے اپنے ماں باپ کے سامنے جھکے رہتے ہیں اور والدین کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے بچے ہیں. آپ کے خدمت گذار ہیں.
ہاں ایسا بھی ہوتا ہے مگر صرف اور صرف احساس انسانیت میں, مقصد زندگی میں, محبت انسانیت کے باعث دلوں میں محبت کا جذبہ بیدار رہتا ہے. ان کو اپنوں سے پیار اور ان کا دل اپنوں کے لیے بے قرار رہتا ہے.
اباجان باباجی یہ کہتے ہوۓ چلے گۓ لیکن میرے اندر ایک طوفان برپا کر گۓ, مجھے خود پر کنڑول ہی نہیں ہے تب سے اباجان, اماں جان میں کمزور ہو مجھے معاف کر دینا ہو سکتا ہے میں آپکے حقوق ادا نہیں کر سکا,
علی کی اماں اور ابا جان علی کو پیار کرتے ہوئے,آنسو صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علی بیٹا اسی واسطے ہم سمجھانے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ ہمارے بچوں اپنے اندر نرمی رکھو , سخت زمینوں میں فصلیں نہیں اگتیں, سخت دلوں میں محبت کے پھول نہیں کھلتے.اپنے دل کو ہمیشہ ملنساری کے پانی سے سیراب رکھو, پھل جھکے ہوۓ درخت پر ہی لگتا ہے, پھر دیکھو زندگی کتنی حسین اور آسان ہو جائے گی.
یہ ساری باتیں کرتے والدین کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے, لیکن علی کی آنکھوں کے آنسو خشک ہوگئے تھے. اس کی طبیعت بھی پہلے سے بہت پر سکون نظر آ تھی. اسے شاید یقین ہو گیا تھا کہ اس نے بابا جی کی طرف سے ملنے والے جذبوں کی امانت کو بحفاظت ان کے حقیقی وارثوں تک پہنچا دیا ہے,
فانی زندگی میں والدین کی آخری باتیں سنتے ہوۓ زندگی کا مقصد پورا ہوا, سبق زندگی تکمیل ہو چکی , گھر کا لاڈلہ چھوٹوں کو پیغام زندگی, پیغام انسانیت دے چکا, پھر علی اطمینان کی نیند سو گیا, پرسکون آفاقی نیند کہ جو ماں کی آغوش میں آچکی تھی, روح خالق کائنات سے جا ملی لیکن جاتے ہوئے مقصد زندگی اور مقام انسانیت سمجھا گئ,
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 488159 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More