میرے بکھرے الفاظ سلام کرتے ہیں!


ویرانی میری روح کی
خدا جانے یا دل جانے

ابھی جو ہے اس میں شکر ادا کرتا ہوں جو ہوگیا اسکا سوچ کر کبھی پچھتاتا نہیں اور نا آنے والے کل کا سوچ کر فکر کرتا ہوں,
بس آج بھی میں خوش ہوکر جیتا ہوں یقین مانے اس سے ہم اور ہمارے آس پاس کے لوگ بھی خوش اور سکون سے رہتے ہے,
‏زندگی جو کبھی ہمیں بوجھ لگنے لگے تو یاد رکھنا کسی کو کانو کان خبر نا ہونے دینا سیدھا اپنے رَب کے حضور سجدہ ریز ہو کے ٹوٹے ہوئے دل اور آنسوؤں کے ساتھ سب کچھ بیان کر دینا کامیابی ہے, باقی لوگ اور یہ دنیا یہاں صرف تماشائی ہیں...
صرف ‏
اَللّٰهُ الصَّمَدُ‌ ۞
اللّٰه سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں
‏کچھ لوگ آپ کےہزار الفاظ بھی نہیں سمجھیں گے.
جبکہ کچھ آپ کی خاموشی کو بھی سمجھیں گے۔
انہیں کسی بھی قیمت پر جانے نہ دیں۔
‏نفرت بھی ایک بہت خوبصورت رشتہ ہے انسان دل اور دماغ میں بسا رہتا ہے ‏اور اِنسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی ایسے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں۔
اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
یقینا اللہ ہی صاحبِ اِقتدار بھی ہے، بہت بخشنے والا بھی۔
﴿سورۃ فاطر، ۲۸﴾
‏دنیا ظالمانہ مقام ہے اور دوسروں کے درد سے لطف اٹھاتی ہے میں کسی کو بھی دل کے خراب حالات کے بارے میں نہی بتاتا
‏کبھی کبھی الفاظ نہیں ہوتے کیفیت کو بیان کرنے کے لیے پھر دل کرتا ہے کوئی سن لے سمجھ لے بغیر کہے ہی…
‏‎اسی لئے وہی قریبی سمجھے جاتے ہیں جو آپکی زہنی کیفیت کو آپکے انداز سے بھانپ لیتے ہیں ۔۔۔
‏اکثر وہ لوگ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ کھینچنے میں بہت دلچسپی رکھتےہیں اور اس کو زندگی کا حصہ اور خوشی سمجھتے ہیں ان کو یہ ضرور سمجھ لینا چاہیئےکہ جب وقت پلٹتا ہے تو پھر ایسے لوگوں ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ بھی ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﺮﺗﯽ,
‏مجھے محسوس ہو جائے کہ کوئی مجھ سے اکتا کر دو قدم دور جانا چاہتا ہے تو میں خود اس سے چار قدم دور چلا جاتا ہوں ہر چیز برداشت ہو سکتی ہے مگر اپنے کسی بہت پیارے کا نظر انداز کرنا گوارہ نہیں۔ اگر وہ مجھ سے دور رہ کہ خوشی محسوس کرتے ہیں تو ایسی ہزاروں خوشیاں ان پر قربان!!!!

⁦‏سیانے کہندے نے اگر تمھارے پاس حُسنِ خلق نہیں تو تمھارے سارے کمال کسی کام کے نہیں
‏"تم اس کی مصلحت کو نہیں جانتے مگر وہ رب تمہاری ہر تکلیف کو جانتا ہے۔

‏بتانے کو الفاظ مُیسّر نہیں ہیں، ورنہ!
خُواہشوں نے دِل میں دربار لگا رکھا ہے ۔

معاشرے کی بنیاد عدل ہے, عدل غلام بن جاۓ تو حق کے لیے باہر نکل کر آواز بلند کرنے والے مجاہد کو دنیا سلام کرتی ہے گزشتہ سالوں میں پاکستان کی سرزمین ہر ایک ایسا ہی بابا جی خادم حسین صاحب کا کردار تھا,
اپنی لگن, مختلف ؤ منفرد انداز, اقبال کے اشعار میں غرق عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جام پیتا انسان تھا جو لوگوں کو عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رنگ اپنے انداز ؤ بیان سے دکھاتا فانی دنیا سے ابدی زندگی کی طرف روانہ ہوا,
لوگوں کو بتا کر گیا ہے کہ عشق میں شرک اور محبت میں بےوفائی ہو جاۓ تو معافی ممکن نہیں لہذا جتنی جلدی ہو اپنے تار عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں رنگ لو.....

‏ٹر گئے یار محبتاں والے
لے گئے نال ای ہاسے
دل نئیں لگدا محمد بخشا
جائیے کیہڑے پاسے

‏کچھ لوگوں کی سوچ ساری زندگی انتہائی محدود رہتی ہے نئے انداز سے سوچنا نئے پہلوؤں کو زندگی میں شامل کرنا اُن کو کسی جہالت سے کم نہیں لگتا__
‏عجب موت کا موسم، بچھڑنے کی رُت، جدائیوں کا عہد اور الگ ہونے کے دن ہیں کہ کوئی دم آتا ہے اور کوئی گھڑی جاتی ہے کہ گلیوں سے لال گلابوں میں ڈھکے سفید لباس پہنے لوگ گزرتے جاتے ہیں اور دل ہے کہ زرد ہوتا جاتا ہے۔
‏وہ سچائیاں جو انسانوں کو آزاد کرتی ہے ایسی تلخ حقیقتیں ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر انسان سننا گوارا نہیں کرتے__‏
‏تو بات یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا “ورفعنالک ذکرک” گویا اب جو محمدﷺ کے ساتھ جڑ گیا وہ بھی بلندیاں پا گیا۔۔

‏حالات کو اور لوگوں کو کبھی ان کے حال پر بھی چھوڑ دینا چاہیے اور صرف اپنی ذات کے بارے تفکر کرنا چاہیے کیونکہ بالآخر ہمارے لئے صرف ہم ہی اہم ہوتے ہیں لیکن جہاں نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آ جاۓ تو جان لو کہ تم خاک ہو کیونکہ ‏محمد رسول اللہﷺ اب حشر تلک توحید کے بعد حق و باطل کا سب سے بڑا پیمانہ ہیں، نیتوں کا معاملہ حق تعالی کے پاس ہے، ہم تو اسی طرف ہیں اورا سی کی طرف ہیں جو آپﷺ کی طرف ہے بس۔
‏علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی کا آخری کام بھی کیا ہی عمدہ تھا کہ آپ رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو اور اس حوالے سے نرمی برتنے پر حکومت وقت کو للکارتے رہے۔۔۔ اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے،
‏جن سیاسی پجاریوں کے دیوتا کبھی ختم نبوت، قادیانیوں کی خباثت اور تحفظ ناموس رسالتﷺ پر مچھر کے پر جتنی آواز نہ نکال سکے انہیں گستاخان نبیﷺ کے خلاف علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی جرأت و بیباکی اور حق گوئی فتنہ و فساد ہی لگے گی۔
‏مسئلہ صرف دین سے ہے کہ کوئی آخر اللہ کا، رسولﷺ کا اور صحابہؓ کا نام کیوں لیتا ہے پھر سیدنا معاویہؓ کی مدح کیوں کرتا ہے اور صحابہؓ پر تنقید کیوں نہیں کرتا اور گستاخان رسولﷺ کے خلاف کیوں بولتا ہے اور قادیانیوں کو کافر کیوں کہتا ہے، دیسی لبڑلز کی بلبلاہٹ دیکھ کر بڑا لطف آتا ہے۔
سوچ اور علم کی بنیاد پر مولانا مرحوم سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر مولانا صاحب کے کام سے انکار ممکن نہیں
آج اس کی گواہی جنازہ میں شریک ہر مکتبہ فکر اور علم کا شخص دے رہا ہے
اللہ کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور محبت کے صدقے مولانا مرحوم کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائیں اور اپنی رضا سے نواز دیں ..
بابا جی رضوی صاحب کی یاد میں علّامہ اِقبال رحمتہ اللہ کے اشعار
کیونکہ بابا جی کو اقبال کا فارسی کلام تَو تقریبًا حِفظ ہی تھا!

مَتاعِ بےبہا ہے درد و سوزِ آرزومَندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لُوں شانِ خُداوندی

تِرے آزاد بَندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مَرنے کی پابندی، وہاں جِینے کی پابندی

حِجَاب، اِکسیر ہے آوارہءِ کُوئے مَحَبّت کو
مِری آتش کو بَھڑکاتی ہے تیری دَیر پَیوَندی

گُزَر اَوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذِلّت ہے کارِ آشیاں بَندی

یہ فَیْضانِ نَظًر تھا یا کہ مَکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کِس نے اِسماعیل کو آدابِ فَرزَندی

زیارت گاہِ اَہلِ عَزم و ہِمّت ہے لَحَد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ اَلوَندی

مِری مَشّاطگی کی کیا ضَرورت حُسنِ مَعنی کو
کہ فِطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حِنابَندی

‏تڑپ میں ایسی بے چینی تو ہو کہ اللہ کو آپ کی حسرت بھا جائے، دوری میں ایسی آہ تو ہو کہ اللہ کو آپ کا اضطراب پسند آ جائے، خواہش میں ایسی آرزو تو ہو کہ اللہ کو آپ کی تمنا اچھی لگ جائے اور دل میں ایسی دعا تو ہو کہ اللہ دل کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لے۔

‏میں اپنی روح لیے دربدر بھٹکتا رہا
بدن سے دور مکمل وجود تھا میرا.
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 489176 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More