عمل کی بنیاد پر ہی انسا نی زندگی کندن اور بد اعمال سے
تباہی اور بربادی انسان کا مقدر بن جاتی ہے نیکی اور برائی کی دو راہیں
انسان کے سامنے لا کر فرق کی شناخت کے لئے انسان کو شعور کی دولت سے مالا
مال کیا ہے۔اہل خیر اﷲ تعالی کے احکامات دوسروں تک پہنچانے کے لئے کوشاں
رہتے ہیں اور شیطان بھی اپنی عادت فراموش نہیں کرتا لیکن اﷲ تعالی خیر
خواہی اور امن سلامتی کا راستہ دکھاتے ہیں جبکہ شیطان لالچ اور حرص اور عیش
نشاط کی محا فل میں الجھا کر انسان کو اس کے نیک مقصد سے دور کر دیتا ہے
اور اس وقت انسان بھی اپنی اصلی حیثیت بھول جاتا ہے اور وہ اپنی بے جا
خواہشات کی تکمیل کے لئے ناجائز ذرائع اختیار کر تا ہے اپنے ماحول اور
معاشرے کا حق مارتا ہے اور وہ دوسروں سے بالاتر رتبے کا خواہاں ہو جاتا ہے
آپنے نفس کی تسکین کے لئے وہ بدعنوانی کا راستہ اختیار کرتا ہے اپنی حیثیت
سے بالا تر ہو کر لوٹ مار ،قتل وغارت، ڈاکہ زنی، چوری،رشوت،اور اپنے
اختیارات کے ناجائز استعمال سے وہ اپنی چند روزہ زندگی کو الجھنوں اور
پریشانیوں میں مبتلا کر لیتا ہے زندگی کے حقیقی عنوان سے بھٹکنے والے بد
عنوانی کا شکار ہو تے ہیں۔بدعنوانی کا یہ راستہ کسی ایک نقطہ پر ہی نہیں
رہتا بلکہ یہ بڑھتا رہتا ہے۔بدعنوانی ایک ایسی حالت ہے جس میں لالچ،
طمع،حرص، جھوٹ، مکاری، فریب، خود نمائی کے نگینے جڑے ہوئے ہیں اپنی حقیقت
کو فراموش کرتے ہوئے اپنی ذات میں ہی دلچسپی لیتے ہیں۔1947ء کو پاکستان بنا
تو اس کے بعد سے اینٹی کرپشن کے ایکٹ بنے شعبہ جات قائم ہوئے کم از کم 30
مرتبہ کسی نہ کسی حوالے سے بد عنوانی کے خلاف اقدامات کا آغاز ہوا یکم
نومبر 1991ء میں ایک جامع قانون نیب (national accountability bureau)کا
آغاز ہوا اور بہت سے بد عنوانی عناصر اور بدعنوانی کو روکنے اور ختم کرنے
کی کوشش کی۔ عصر حاضر میں پاکستان کی ترقی بدعنوانی کی وجہ سے متاثر ہو رہی
ہے بد عنوانی عناصر پاکستان کی تعلیم، صحت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں
حائل ہیں پاکستان کی 60 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے، صاف پانی، طبعی
سہولتوں، تعلیمی سرگرمیوں، بجلی، گیس، اور اسی قسم کی لازمی ضروریات سے
محروم یہ طبقہ گدا گری اور دیگر کرائمز میں مبتلا ہوجاتا ہے اس لیے ضروری
ہے کہ ہم بدعنوانی کے خلاف اجتماعی جنگ کریں۔آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ
بد عنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔مقاصد کے حصول کے لیے ایمانداری، محنت،
حب الوطنی اور خلوص نیت بہت ضروری ہے معاشرتی انصاف بدعنوانی کے خاتمہ سے
ہی مل سکتاہے اور اقدار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم پاکستانی صلاحیتوں
کے اعتبار سے کسی دوسری قوم سے کمتر نہیں ہیں ہمیں پاکستان کو خوشحال بنانے
کے لئے کوشاں رہنا چاہیے۔دہشت گردی کے بعد پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ
بدعنوانی سے ہے چند لوگ بدعنوانی کے بل بوتے پر راتوں رات امیر ہونے کے
خواب پورے کرنا چاہتے ہیں۔باکردار قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے
سکتی پاکستان کو مستحکم ملک بنانے کے لئے ہمہ وقت محنت کرنی چاہئے۔عوام کو
چاہئے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کے لئے ایمان داری اور دیانت
دار ی کا مظاہرہ کریں بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے ہمیں ضبط نفس اور حسن اخلاق
کو اپنی خوبی بنانی چاہئے بلند کردار سے ہی انسان باوقار بنتا ہے انسانی
اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے کی طرف توجہ
دینی چاہئے۔۔۔پاکستان میں میڈیا، جلسے جلوس اور اخبارات وجرائد سے شائع ہو
والی خبروں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم کرپش کی کن حدود کو چھو چکے ہیں
محکمہ انسدادرشوت ستانی نے اپنے دائرہ کار کے مطابق بدعنوانی کو ختم کرنے
کی بھرپور کوشش کی ہے اور لالچ اور حوس نے پاکستانیوں کو امیر اور پاکستان
کو غریب کر دیا ہے فلک بوس عمارات، قیمتی ترین گاڑیاں، ان کے پس منظر میں
بد عنوانی کے حاصل کرد مال کار فرما ہے یہ ہی وجہ ہے کہ غربت پھیلتی جا رہی
ہے میڈیا کی وہ ٹیمیں جو بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے برسر عمل ہیں انھیں
مختلف اندا سے دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن میڈیا تمام تر رکاوٹوں کے باوجود
سچائی سامنے لانے کے لئے کوشاں ہے۔اس کے علاوہ اساتذہ قومی ترقی کے ہیرو
ہیں نسل نو کو سچا مسلمان اور کھرا پاکستانی بنانے کے لیئے اساتذہ کی
کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اساتذہ کرام کے علاوہ علمائے کرام اور
میڈیا کا فرض عین ہے کہ وہ معاشرے سے بے اعتدالی کے خاتمہ کے لئے اپنا فرض
قومی ذمہ داری سمجھ کر ادا کریں تاکہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو اورملک
امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
|