پروفیسر محمد عبداللہ طاہر
(گل زیب انجم, سیری آزاد کشمیر)
پروفیسر محمد عبداللہ طاہر اخلاقی و سماجی شخصیت |
|
گھٹی یوں تو ہماری زبان میں اس شہد بھری
چٹکی کو کہا جاتا ہے جو نومولود کو پیدائش کے فوراً بعد چٹائی جاتی ہے۔
لیکن یہ ایک انگلی شہد چٹانے کے لئے ایسے مرد یا عورت کا انتخاب کیا جاتا
ہے جو ہر طرح سے تزک و احتشام ہو۔
گھٹی کا استعمال اردو محاورات میں بھی ملتا ہے لیکن اصل اس کی یہ ہے کہ یہ
لفظ فطرت سے منسوب ہے جیسے پھولوں کی فطرت میں خوش بو دینا ہے پانی پیاس
بجھاتا ہے آگ آنچ بخشتی ہے اسی طرح انسانیت کی فطرت میں اخلاق احساسِ اور
خیر سگالی کا عنصر لازم ہوتا ہے جسے ہم یوں کہہ لیتے ہیں کہ ایسا کرنا فلاں
کی گھٹی (فطرت) میں شامل ہے۔
پھول جس طرح اپنی خوشبو چھپا نہیں سکتے اس طرح چاہنے کے باوجود فطرت بدلی
نہیں جا سکتی کیوں کہ فطرت ایسی خوش بو ہے جو اپنے پھولوں (نسلوں) کا پتا
دیتی ہے۔
الارض للہ اسٹیج ہے اور حضرت انسان اس اسٹیج کا سوانگی ہے اور اس کا عمل
کریکٹر کہلاتا ہے۔
ہر سوانگی اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے اور اس کا یہ کرنا کسی نہ کسی
کو پسند آ جاتا ہے۔ یوں تو ہماری لکھی ہوئی علاقائی کہانیاں جو عہد رفتہ سے
منسوب ہیں بہت سے قارئین کی نظر سے گزرتی رہی ہیں اور گزر رہی ہیں ہر قاری
کا اپنا اپنا ذوقِ نظر رہا کئی نے ہماری تحریروں کو صرف پڑھنے کی حد تک
رکھا تو بہت سوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف پسند کیا بلکہ
سراہا بھی کچھ بندہ پروری میں اتنے مہان نکلے کہ سامان ضیافت کر بیٹھے۔
عزت اور دولت قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں لیکن انہیں جو امتیازی حیثیت حاصل
ہے وہ یہ کہ دولت دینے سے کم اور عزتِ دینے سے بڑھتی ہے ۔ اللہ اقبال بلند
فرمائے پروفیسر محمد عبداللہ طاہر کا کہ ان کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا
ہے جنھیں دوسروں کو عزت دینے میں آر محسوس نہیں ہوتی۔ پروفیسر عبداللہ ایسی
عہد ساز شخصیت ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہمیں ان کی شناسائی تب سے ہے
جب ہم اسکولوں کی تقریبات میں مدعو ہونے لگے لیکن اس سے بھی پہلے ہم انہیں
مختلف تقریبات میں دیکھا اور سنا کرتے تھے۔ ہمیں آپ کا وہ زمانہ بھی یاد ہے
جب آپ پروفیسر انوار چشتی کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوا کرتے تھے ۔ دونوں
دوست وادی بناہ و آزاد کشمیر کی ہر مذہبی کانفرنس میں شامل ہوتے اور یوں
ہوتے کہ محفل آپ کے نام یو جاتی۔ دونوں عہد شباب سے ہی مذہبی رحجانات رکھتے
تھے اس لیے بہت جلد وہ نام پایا کہ پھر کوئی ہم پلہ نہ ہو سکا۔
پروفیسر عبداللہ طاہر نے ایسے خاندان میں جنم لیا جو نور علم سے منور تھا
آپ کے پدر گرامی نہ صرف نام کے اعظم تھے بلکہ آپ وادی میں خطیب اعظم کے نام
سے جانے پہچانے جاتے تھے دین اور اخلاق کا درس یوں سمجھ لیجئے کہ گھٹی میں
ملا تھا اور پھر آپ نے اپنے تمام اوصاف کو بروئے کار لاتے ہوئے محکمہ تعلیم
کو اپنایا۔ آپ کے بڑے بھائی محمد شفیع جوش جو کہ عرصہ دراز سے علماء کونسل
کے ایم ایل اے رہے اور اب اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں۔
پروفیسر عبداللہ کا شمار معززین علاقہ میں ہوتا ہے باریش نورانی چہرہ جس پر
ہمہ وقت تسلئے خاط کا گمان ہوتا ہے۔ یوں تو آپ پر احسانات قدرت بیش بہا ہیں
انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اس وقت ڈگری کالج کھوئی رٹہ کے سرپرست
اعلیٰ یعنی پرنسپل ہیں۔ نصف صدی حیات کا مشاہدہ ہے کہ رب ذوالجلال حضرت
انسان کو وہی ذمہ داری سونپتا ہے جس کے وہ قابل ہوتا ہے۔ بلا شک و شبہ
پروفیسر عبداللہ اس مسند کے قابل ہیں جس سے رب کائنات نے نواز رکھا ہے۔
ہماری شناسائی آپ سے بس اِتنی سی تھی کہ مذہبی تہواروں کے حوالے سے کہیں ہم
ان کو سن لیا کرتے تھے لیکن وہ مثل قمر اس سے بے خبر تھے کہ انہیں کون
دیکھتا ہے۔ وہ بس ایک مبلغ کی حیثیت سے آتے منتخب موضوعات پر جم کر کھڑے
ہوتے اور کھل کر بولتے مجمع کے شرکاء پر اپنے پرجوش خطاب کا اثر چھوڑتے اور
چلے جاتے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ سعادتِ بھی حاصل رہی کے ہم نے اسکول تقریبات
میں بھی انہیں سنا۔ کیا غضب کا بولتے کہ طالبات کے ساتھ ساتھ مہمان بھی
مسرور ہو جاتے۔
ہماری محبت ناکام عاشق سی رہی ہم مانند چکور ملاقات کی سعی کرتے اور ناکامی
کو بکل میں لیے رہ جاتے۔ پہاڑی زبان میں ایک کہاوت زبان زد عام رہتی ہے کہ
ملاں ٹاکے گھچے نہ ریچھ مستی ہچھے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ رہا کہ ہم کالج نہ
جاسکے اور وہ فراغت کے لمحات میں ہمیں نہ مل سکے۔
جیسا کہ سطور بالا میں بیان ہو چکا ہے کہ وہ کسی کو عزت دیتے ہوئے عار
محسوس نہیں کرتے بالکل ایسے ہی انہوں نے فراخ دلی کے مظاہرے میں بندے خاکم
کو عزت بخشتے ہوئے ظہرانے پر مدعو کر لیا جسے بخوشی قبول کرتے ہوئے ہم
مقررہ وقت پر ڈگری کالج آفس پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر خوشی دیدنی تھی کہ ہم
سے پہلے ریٹائرڈ پرنسپل محترم خلیل انجم اور پروفیسر شہاپال سلطانی براجمان
تھے۔ دونوں صاحبان کو پا کر بہت خوشی ہوئی۔ عبداللہ طاہر صاحب تمام کووڈ
ناینٹین ایس او پیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں گلے ملے۔ ہمارے ساتھ
ہمارے برادر عزیز از جان نعمان بھی تھے انہیں بھی ہماری سی محبتیں ملی ۔
پرنسپل عبداللہ طاہر کو مسند اعلیٰ پرستی پر دیکھ کر یوں لگا جیسے یہ بنی
ہی انہی کے لئے تھی۔ انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال عبداللہ طاہر نے کالج کی
توسیع اور فصیل بندی کا کام اتنی دلچسپی سے کروایا کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔
کبھی اڑوس پڑوس کے باسی کالج گراؤنڈ کو کچرا کنڈی کے طور پر استعمال کیا
کرتے تھے لیکن آپ کے اس کارنامے سے کالج کالج نظر آنے لگا ۔ کالج میں نئے
سرے سے پینٹ اور پینٹنگ ہو رہی تھی اس دن بھی عین صدر دروازے کو پینٹ کیا
جا رہا تھا جو منتظمین کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہم نے آپ کی
کارکردگی پر کچھ کہنا چاہا تو کہنے لگے جی اے کج اساں نی زمہ داری اچ ہشنا
اے
کسر نفسی کا یہ عالم کہ جب اس بورڈ کا تذکرہ چھڑا جس پر پرنسپل لوگوں کے
نام لکھے ہوئے تھے کہنے لگے یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ ہمارا نام بھی ان
اعلیٰ مرتب لوگوں کی فہرست میں لکھا گیا ورنہ کہاں ہم اور کہاں یہ ذی وقار
لوگ۔
ان کے دوست پروفیسر انوار چشتی کا بھی ذکر چھڑا جس پر ایک لمبی سی آہ بھرتے
ہوئے کہنے لگے بس یوں سمجھ لیں کہ ان کے بعد میں ادھورا سا ہو گیا ہوں۔ یہ
بات کہتے ہوئے نگاہ ٹیبل پر رکھے گلاس پر مرکوز کی اور کچھ توقف فرمایا،
شاید توقف کے بعد کوئی بات چھیڑتے مگر اسی اثنا قاصد کے آ جانے سے قصہ یار
ادھورا رہ گیا۔
قاصد کے چلے جانے کے بعد آپ نے جگ سے گلاس میں پانی انڈلتے ہوئے مہمانوں پر
اس انداز سے نظر ڈالی جیسے پس لب کسی کی پیاس کا جائزہ لے رہے ہوں ۔ نظر کو
دوبارہ گلاس پر لا کر ٹھہرایا اور وہ گلاس اٹھا کر مجھے تھماتے ہوئے کہنے
لگے پانی پیو پیاس کے نہ ہونے کے باوجود بھی آپ کے اخلاص کی قدر کرتے ہوئے
گلاس تھام لیا۔ ابھی ہم نے ایک گھونٹ ہی لیا تھا کہ سوچیں ماضی قریب کی اس
تصویر پر چلی گئی جس پر رقیب ہم پیشہ نے جی بھر کر تنقید کی تھی۔ ہوا یوں
تھا کہ ایک وزیر سے مصافحہ کرتے ہوئے آپ کی کمر میں کچھ احتراماً اور کچھ
عادتاً خم سا آ گیا تھا جو کسی نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے پھر اسے
وہ ہوا دی کہ خدا پناہ۔ ہمیں بھی اس ملاقات سے پہلے تک ابہام سا تھا لیکن
آپ کے عادت شریفہ کو پا کر وہ جاتا رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سب افواہیں
بے پر کی تھیں۔
شرافت اور اخلاق مانندِ گھٹی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں اور یہ بلا
امتیاز سبھی پر نچھاور ہوتے ہیں ۔ ہماری بھلے بانفس نفیس پہلی ملاقات تھی
لیکن آپ کے اوصاف سے ہم بخوبی واقف تھے آپ کی دینی و دنیاوی خدمات کا شہرہ
ہم نے برسوں پہلے سن رکھا تھا۔ اللہ عزت دے تو کون چھین سکتا ہے بس قدرت
مہربان ہے اور پل پل عزت میں بڑھوتی ہو رہی ہے۔ ہر وقت فطری طور پر مسکراتا
چہرہ کالی چٹی داڑھی جیسے نور سے دھلی ہوئی ہو دانتوں میں قدرتی خلا جسے
ہمارے ہاں دانتوں کی بلکنی یا ویتھ کہتے ہیں چہرے کی خوب صورتی میں اضافے
کا سبب بنتا ہے۔ بالوں میں رت شباب والا تناؤ مدبرانہ گفتگو مدلل رائے
مشفقانہ انداز المختصر ہر پہلو سے طاہرانہ اوصاف دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد کہنے لگے اچھو جی بازار جولہنے آں ان کے کہنے پر
ہم پانچوں اٹھے اور ان کی اقتداء میں ہو لیے۔ باہر لان میں آئے تو کچھ اور
اصلاحات دیکھنے کو ملی جن میں فی میل اور میل سٹاف و طلباء کی الگ الگ
کینٹن اور ریفریشمنٹ رومز بھی تھے کار پارکنگ میں بھی درجہ بندی تھی جو ایک
منظم ادارے کے ڈسپلن کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
خلیل انجم صاحب چوں کہ بائیک پر تھے اس لئے ان کو لوکیشن دیتے ہوئے عبداللہ
طاہر صاحب نے الحرم ریسٹورنٹ کا کہا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہم سب وہاں تھے الحرم
کی لوکیشن بھی زبردست تھی کھانے کا آرڈر ہوا تو ساتھ ہی شہاپال سلطانی صاحب
نے ہوٹل کے اونر کا تعارف عبداللہ طاہر صاحب کو کراتے ہوئے ایسا ایک قصہ
سنایا کہ ایمان تازہ ہو گیا۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ ان کے گاؤں میں ایک مسجد
تعمیر ہو رہی تھی جسے توسیع کے لیے کچھ جگہ درکار تھی جب اس(ریسٹورنٹ کے
مالک)سے بات کی گی تو اس نے کہا اگر میری ساری زمین مسجد کے کام آ سکتی ہے
تو ساری لے لیں ۔ اتنی بات کرنے کے بعد شہاپال سلطانی صاحب نے کچھ وقفہ
کرنا چاہا لیکن ہمارے تجسس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پھر سے سلسلہ کلام وہی
سے جوڑنا چاہا لیکن زے نصیب کہ اسی سمے وہ شخص یعنی ریسٹورنٹ کا مالک آ گیا
اور سلسلہ کچھ دیر کے لیے تعطل کا شکار ہو گیا۔ اس بھائی نے السلام کرنے کے
بعد ہماری ہی خیریت دریافت کی اور اپنے تعارف میں صرف اتنا کہا کہ میں آپ
کا فیس بک فرینڈ ہوں ہزاروں مصروفیات کے باوجود آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا
ہوں ابھی وہ بھائی اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ خلیل انجم صاحب نے ہنستے ہوئے
کہا لو جی گل زیب صاحب تساں نیاں تحریراں ناں اک ہور عاشق آئی گیا ۔ شہاپال
سلطانی صاحب کی گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اب اس میں اس بھائی کی
شمولیت بھی تھی اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ دس گنا بڑھا کر لوٹا
دیا ہم سب کی زبان سے نکلا وہ کیسے؟ کہنے لگا کہ ہماری ایک سو پچاس کنال
زمین جو کسی دوسرے کے قبضے میں تھی وہ مجھے مل گئی ہے ۔ اس کی زبان سے تشکر
بھرے الفاظ نکل رہے تھے اور ہم سب کی زبان سے سبحان اللہ سبحان اللہ جاری
تھا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ قرض کو قرض حسنہ کی صورت میں قبول کر چکا تھا اور
پھر وعدے کے مطابق لٹا بھی چکا تھا "اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ
الْمِیْعَادَ۠"
وہ بھائی جس کا نام شوکت تھا بڑا مسرور تھا اور کھوئی رٹہ شہر کے بڑے ہوٹل
اینڈ ریسٹورنٹ "الحرم" کا مالک تھا اس کو ملازم نے کوئی اطلاع دی جس کی بنا
پر اسے کاؤنٹر پر جانا پڑا اس کے جانے کے بعد نہ جانے باقی کن خیالوں میں
گم تھے البتہ میرے دماغ میں مدینہ منورہ کے یتیموں سہل و سہیل کے نام گھوم
رہے تھے۔
کھانا چنا جا چکا تھا عبداللہ طاہر اپنے دست سے ضیافت فرما رہے تھے شفقت کا
یہ عالم تھا کہ ڈونگا اٹھا اٹھا کر کبھی ملائی بوٹی شہاپال صاحب کو ڈالتے
تو کبھی ہمارے سامنے ریتہ رکھتے۔ خلیل انجم صاحب کو جب بھی تکہ بوٹی دیتے
تو ساتھ کہتے الا اسکی چھکو آں۔
ہمیں روغنائی منع تھی جس کے باعث وہ ہمیں چکن تکہ دے کر کہتے تساں اے کینو
۔ پیار تھا محبت تھی بڑوں والی وڈھیائی تھی کہ مہمان نوازی میں سگھڑ خواتین
کو مات دے رہے تھے۔ ہمارا تو کھانے کا ٹائم تھا دبا کر کھا رہے تھے البتہ
شہاپال صاحب نے ہمارے مصطنع اسنان کی لاج نہ رکھتے ہوئے اعلان برخاستگی کر
چکے تھے تاہم خلیل صاحب ہمارے خلیل ہی رہے۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا ریسٹورنٹ کی چائے میں عبداللہ طاہر صاحب کی
چاہ سی نفاست تھی بیرا اچھی سروس دے رہا تھا سب کچھ ختم ہو رہا جس کا مطلب
تھا کہ آخر اس وقت نے بھی ختم ہو جانا ہے خیر یونہی ہوا اور وہ لمحہ ان
پہنچا جب شہاپال سلطانی صاحب نے ٹشو پیپر سے چائے کی چاہت کو پونچھتے ہوئے
گویا ہوئے عبداللہ صاحب فیر جولہیے ۔
ٹائم واقعی اتنا ہو چکا تھا کہ مزید گنجائش نبود۔ کھڑے ہونے میں پہل ہمارے
بھائی نے کی جو دو تین گھنٹے سے ایسے بیٹھا تھا جیسا کہ منہ میں زبان نہیں۔
عبداللہ صاحب نے شکریہ کے ساتھ خیر باد کیا اور یوں ہم مشفق انسان سے جدا
ہو گئے۔ ہمیں راستے بھر عبداللہ صاحب کا انداز گل افشانی گفتار رہ رہ کر
یاد آنے لگا سوچنے لگے کتنی حسین گھڑیاں کتنی جلدی گزر گئی ہیں۔ کاش ایسے
لوگوں کی رفاقت سدا کے لئے مقدر میں لکھ دی جاتی۔ عبداللہ صاحب کا اخلاق
دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ واقعی اچھائی کچھ لوگوں کی گھٹی میں
شامل ہوتی ہے جس کے برعکس وہ چل نہیں سکتے۔
|
|