قُرآن اور عذابِ CoviD -19 !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب ((( سُورَہِ یُونس ، اٰیت 53 تا 56 ))) قُرآن اور عذابِ CoviD -19 !! ازقلم.... اختر کاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیت !!
و
یستنبئونک
احق ھو قل ای وربی
انہ لحق وماانتم بمعجزین 53 ولو
ان لکل نفس ظلمت مافی الارض لافتدت بہ
واسرواالندامة لما راواالعذاب وقضی بینھم بالقسط
وھم لایظلمون 54 الٓا ان للہ ما فی السمٰوٰت والارض الٓا ان وعد
اللہ حق ولٰکن اکثرھم لا یعلمون 55 ھو یُحیٖ ویمیت والیہ ترجعون 56
اے ھمارے رسول ! قُرآن نے انسان کو عذابِ دُنیا و عذاب آخرت کی جو خبر دی ھے اور آپ کے عھد کے جن انسانوں نے اُس خبر کی تکذیب کی ھے اَب وہی لوگ قُرآن کی دی ہوئ اُسی خبر کی تصدیق چاہتے ہیں ، آپ اُن لوگوں کو اپنے رَب کی قسم کھا کر یقین دلادیں کہ یہ اللہ کی سَچی کتاب کی ایک سَچی خبر ھے کیونکہ اللہ نے دُنیا و عُقبٰی میں اپنے قانونِ انصاف کے مطابق جس چیز کا جو فیصلہ کرنا ھے وہ کرنا ہی کرنا ھے اور جو فیصلہ کرنا ھے زمان و مکان میں اُس کا ظہُور ہونا ہی ہونا ھے ، تُم اُس کی بے بس مخلوق کے بے بس لوگ اپنے انکار دَر انکار سے اُس کو بے بس نہیں کر سکتے اور جس دن اہلِ زمین پر اہلِ زمین کے ظُلم کے بدلے میں اللہ کا کوئ عذاب آۓ گا تو اللہ کی قُوتوں اور اللہ کی قُدرتوں کے یہ سارے مُنکر اپنی اپنی بے خبری اور اپنے اپنے اِنکارِ عذاب کی شرمندگی کے باعث ایک دُوسرے سے مُنہ چُھپاتے پھریں گے حالانکہ اُن کے اَعمال کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہو گا اور کسی کے ساتھ ایک رَتّی برابر ظُلم بھی نہیں کیا جاۓ گا اور جس وقت جس قوم پر اللہ کا کوئ عذاب آجاۓ گا تو اُس وقت اگر اُس قوم کا ہر فرد زمین کے سارے رَقبے اور زمین کے سارے وزن کے برابر ایک بڑے خزانے کا مالک بھی ہوگا اور وہ اپنے اُس سارے خزانے کا فدیہ دے کر اُس عذاب سے جان بچانا چاھے گا تو ہرگز نہیں بچا سکے گا کیونکہ زمین و خلاء کے درمیان جو کُچھ ھے وہ اللہ کی مِلک ھے اور کوئ بھی ظلم کر نے والا انسان اللہ کی مِلک کو اپنی مِلک بنا کر اُس کو اپنے ظلم کے بدلے میں ہدیے یا فدیۓ طور پر دینے کا حق دار نہیں ہوتا اور یاد رکھو کہ اللہ کا ہر ایک وعدہ سَچا ھے لیکن خال خال لوگ ہی یہ بات جانتے ہیں اور خال خال لوگ ہی اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ اللہ جو بے جان کو جان دیتا ھے اور جاندار کو بے جان کر دیتا ھے وہی اِس عالَم کا مُختارِ کُل ھے !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ہر زندہ انسان اپنے کامل شعور کے ساتھ یہ بات جانتا ھے کہ وہ زندگی کی ایک زندہ حقیقت کو اپنے جسم میں لیۓ ہوۓ زمین پر زندہ ھے لیکن کوئ انسان یہ نہیں جانتا کہ وہ اِس زندگی سے پہلے کہاں تھا اور اِس زندگی کے بعد کہاں ہو گا ، انسانی فطرت کا یہی وہ سوال ھے جس کا انسان کو قُرآن بار بار یہ جواب دیتا ھے کہ اللہ انسان کا خالق ھے اور اُس کی قُوت و قُدرت کا یہ عالَم ھے کہ وہ عالَم کی تمام چیزوں کو عدم سے وجُود میں لاتا ھے اور وجُود سے عدم میں لے جاتا ھے ، انسان بھی اللہ کی اُسی قُوت و قُدرت کے تحت عدم سے وجُود میں آیا ھے اور وجُود سے لوٹ کر عدم میں جانے کے لیۓ آیا ھے ، زمین پر انسان کے وجُود کا مقصد یہ ھے کہ وہ اپنے خالق کی اِن قُوتوں اور قُدرتوں پر ایمان لاۓ اور مخلوق کی کسی چھوٹی یا بڑی قوت کو اللہ کی اِن قُوتوں میں شریکِ قُوت اور اللہ کی اِن قُدرتوں میں شریکِ قُدرت نہ بناۓ ، اگر انسان اللہ کے اِس فرمان کو حرزِ ایمان و جان بناۓ گا تو اِس کا موت سے پہلے اِس زندگی میں ایک حسین اور موت کے بعد اُس زندگی میں ایک حسین تَرانعام پاۓ گا لیکن جو انسان اللہ کے اِس حُکم سے سرتابی کرے گا تو وہ دُنیا کی اِس عارضی زندگی میں اللہ کے ایک عارضی عذاب میں آۓ گا اور دُنیا کے بعد ملنے والی اُس دائمی زندگی میں ایک دائمی عذاب سے دوچار کیا جاۓ گا ، انسان سے اللہ کی کہی ہوئ یہ بات ایک آسان بات ھے اور اِس کا سمجھنا بھی بہت آسان ھے لیکن اِس آسان بات کو ہر زمانے کے انسان نے بہت مُشکل سمجھا ھے اور بہت مُشکل سے سمجھا ھے اور یہی وہ آسان یا مُشکل بات تھی جو نزولِ قُرآن کے زمانے میں انسان کو بار بار سمجھائ جاتی تھی اور انسان کی زُود فراموشی اِس آسان بات کو انسان سے بار بار فراموش کرادیتی تھی اور یہی وہ بات ھے جس کا آیاتِ بالا میں ذکر کیا گیا ھے تاکہ جو انسان اِس بات کو اَب تک نہیں سمجھا ھے وہ اَب سمجھ جاۓ ، زبان و لُغت کی رُو سے اٰیاتِ بالا میں آنے والا صرف ایک دو حرفی لِفظ " ای " ہی وہ وضاحت طلب لفظ ھے جو عُلماۓ لُغت کے نزدیک کسی مُتجسس سائل کے کسی مُتجسسانہ سوال کے قسمیہ جواب میں قسم سے پہلے "نعم " کے معنی میں آتا ھے ، قُرآنِ کریم میں یہ دو حرفی مُرکب اسی ایک مقام پر آیا ھے ، اگر قُرآنِ کریم میں آنے والے اِس دو حرفی مُرکب پر اہلِ لُغت کے اِس روایتی مفہوم سے ہَٹ کر بھی کُچب غور کر لیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ قُرآن میں استعمال ہونے والے حروفِ تہجی کی تعداد 28 ھے جن میں پہلا حرف " الف " اور آخری حرف "یا " ہوتا ھے اور اہلِ زبان جب کسی چیز کو اَز ابتداء تا انتہاۓ درست قرار دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ چیز اَلف سے لے کے یے تک درست ھے ، یعنی اِس گُلدستے کی پہلی لَڑی سے آخری لَڑی تک شک کا کوئ کانٹا موجُود نہیں ھے اور اٰیت کے اِس مُتعلقہ مقام پر اِس " ای " کا ایک مُمکنہ مفہوم یہ بھی ہو سکتا ھے کہ خُدا کی قسم جس طرح حروفِ تہجی کی ترتیب کے درست ہونے میں تمہیں کوئ شک نہیں ھے اور اِن حروف پر مُشتمل قُرآن کے آغاز سے لے کر اَنجام تک سَچے ہونے میں مُجھے کوئ شک نہیں ھے اسی طرح قُرآن کے اِس بیان میں بھی مُجھے کوئ شک نہیں ھے کہ اللہ کے مُنکروں کو دُنیا میں بھی عذاب سے دوچار کیا جاتا ھے اور آخرت میں بھی عذاب سے دو چار کیا جاۓ گا بلکہ قُرآنِ کریم کے مُختلف بیانات سے معلوم ہوتا ھے کہ زمان و مکان میں جس طرح حق سے برگشتہ اَقوام کو حق کے سمجھنے اور سَنبھلنے کے لیۓ قُدرت جو مُہلت دیتی ھے وہ مُہلت بسااَوقات صدیوں پر محیط ہوتی ھے اور قُدرت جس قوم کو گرفت میں لے کر اُس پر جو عذاب نازل کرتی ھے اُس قوم کا وہ عذاب بھی ہوا میں ہَوا بنا کر جمع کر دیا جاتا ھے اور ہوا میں کی صُورت میں موجُود وہ عذاب بھی صدیوں تک پلٹ پلٹ کر آنے والی ہَواوؤں کے ساتھ اُن سرکش قوموں پر پَلٹ پلٹ کر آتا رہتا ھے جن قوموں کو ڈرانا اور ڈرا کر شر سے خیر کی طرف لانا مقصود ہوتا ھے ، قُرآن میں قوموں پر ہوا کے ساتھ پلٹ پلٹ کر آنے والے اِس عذاب کی شاید اور مثالیں مل سکیں لیکن ھمارے سامنے اِس وقت دو مثالیں ہیں جن میں سے پہلی مثال سُورةُالاَنبیاء کی اٰیت 46 کا یہ مضمون ھے کہ اگر اِن لوگوں کو ھمارے کسی ہَوائ عذاب کا ایک جھونکا بھی لَگ جاۓ تو یہ پکار اُٹھتے ہیں کہ ہاۓ ہماری بد بختی کہ ھم یقینا ظُلم میں حَد سے بڑھ گۓ تھے جو ھمارا یہ حال ہوا ھے اور زمانے میں ہَوا کے ساتھ پلٹ پلٹ کر آنے والے عذاب کی دُوسری مثال ھمارے زمانے کا coviD - 19 ھے جو قُرآنِ کریم کی تاریخی شھادت کے مطابق سب سے پہلے عھدِ مُوسٰی میں سانڈ پُوجا کرنے اور کرانے والے سامری کے وجُود میں ظاہر ہوا تھا اور اَب ھماری ظالمانہ و مُشرکانہ روش کے بعد ھمارے زمانے میں ھم پر ظاہر ہوا ھے ، قُرآنِ کریم کی سورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 97 کے مطابق جب سامری شرک میں حَد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ " جا دُنیا کی اِس زندگی میں اَب تیری یہی سزا ھے کہ تُو عُمر بھر لوگوں سے یہ کہتا رھے کہ خبردار مُجھے ہر گز نہ چُھونا اور اِس کے علاوہ تیرے لیۓ ایک اور سزا بھی ھے ، اہلِ تفسیر نے اِس اٰیت کی تفسیر میں کہا ھے کہ سامری پر اللہ نے بیماری کی صورت میں ایک ایسا عذاب مُسلط کیا تھا کہ جو شخص بھی سامری کے جسم کے کسی حصے کو چُھوتا تھا تو وہ اُس کو چُھوتے ہی خود بھی بخار میں مُبتلا ہوجاتا تھا اور سامری کو بھی بخار میں مُبتلا کردیتا تھا ، بالآخر سامری انسانی بستیوں سے بھاگ کر جنگل میں چلا گیا اور جنگل ہی میں اللہ کے اِس عذاب سے ہلاک ہوا ، فاعتبروا یا اولی الابصار !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559505 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More