پاکستان میں کیا آئندہ سال کاروں کی قیمت میں کمی اور معیار میں بہتری آسکتی ہے؟

image
 
'متوسط طبقہ اور ورکنگ کلاس لوگ اب نئی گاڑیاں نہیں خرید رہے بلکہ وہ اب اپنی استعمال شدہ گاڑیاں بیچ رہے ہیں تاکہ فوری طور پر کچھ پیسوں کا بندوبست کر سکیں۔'
 
حرا نذیر پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ کار فرسٹ کی پراڈکٹ ہیڈ ہیں۔ ان کے مطابق عالمی وبا کے دوران پاکستان میں نئی گاڑیوں کے ساتھ پرانی گاڑیوں کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
 
ملک میں رواں سال گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے اور متوسط طبقے کے لیے بظاہر کوئی نئی کار خریدنے کا تصور صرف کسی اشتہار کی حد تک محدود ہو گیا ہے۔
 
وزارتِ صنعت و پیداوار کے ماتحت ادارے انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز کے مطابق پاکستانی حکومت گاڑیوں کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر سکتی کیونکہ قیمت کا تعین مارکیٹ کے عوامل پر ہوتا ہے، جیسے ڈالر کی قیمت، ٹیکس، ڈیوٹی اور لوکلائزیشن۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں نئی گاڑیوں کی ریٹیل پرائس (پرچون نرخ) میں قریب ایک تہائی حصہ ٹیکس کا ہوتا ہے اور کمپنیاں اس حساب سے اپنی گاڑیوں کی قیمت کا تعین خود کرتی ہیں۔‘
 
پاکستان میں متوسط طبقے کی پہنچ میں کوئی گاڑی ہے بھی؟
گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے مطابق رواں سال جولائی تا اکتوبر 1000 سی سی اور اس سے بڑی گاڑیوں کی فروخت گذشتہ سال کے مقابلے بڑھی ہے جبکہ نئی چھوٹی گاڑیوں کی فروخت اسی دوران کم ہوئی ہے۔
 
اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقہ یعنی مڈل کلاس لوگوں کے لیے اپنی 'فیملی کار' خریدنے کا خواب بس خواب ہی رہ گیا ہے۔
 
image
 
اس وقت پاکستان میں 10 لاکھ کے اندر کوئی نئی گاڑی خریدنا ممکن نہیں۔
 
مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیوں کی بات کی جائے تو شاید تین گاڑیاں سوزروکی آلٹو، پرنس پرل اور یونائیٹڈ براوو ہی 15 لاکھ کے اندر دستیاب ہیں۔
 
عاصم کے مطابق کاروں کی قیمتیں 'بِگ تھری' (یعنی پاکستان میں بڑی کارساز کمپنیاں سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا) اور نئی کمپنیوں کے درمیان مقابلے سے کم ہوسکتی ہیں۔ وہ یونائیٹڈ کی مثال دیتے ہیں جو حالیہ تاریخ میں شاید وہ واحد کمپنی ہے جس نے ڈالر کی قیمت میں کمی پر اپنی کار براوو کی قیمت بھی کم کی۔
 
وہ مزید کہتے ہیں کہ انڈیا میں، مثلاً ماروتی کی، گاڑیاں اس لیے سستی ہیں کیونکہ وہاں لوکلائزیشن (گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری) کی شرح اور مانگ زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں اکثر پرزے درآمد کیے جاتے ہیں۔
 
حتی کہ بعض کاروباری تنظیمیں یہاں کی بڑی کارساز کمپنیوں کو 'کار مافیا' قرار دے کر انھیں مینوفیچکررز کے بجائے 'اسمبلر' کے نام سے پکارتی ہیں۔
 
'لوگ اپنی پرانی گاڑیاں بیچنے پر اُتر آئے'
گاڑیوں کی آن لائن کمپنی کار فرسٹ سے منسلک حرا کے مطابق استعمال شدہ کاروں کا کاروبار لاک ڈاؤن میں بند رہا۔ لیکن بعد ازاں جب نئی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھیں تو اکثر لوگوں نے استعمال شدہ گاڑیوں کی طرف پہلے سے زیادہ تعداد میں رُخ کیا۔
 
وہ کہتی ہیں کہ پچھلے سال کے مقابلے اس سال پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کا کاروبار کافی بڑھا ہے۔ ان کی کمپنی کے کاروبار میں ہر ماہ کے ساتھ 25 فیصد پیداوار ہوئی ہے۔
 
زیادہ تر پاکستانی پُرانی گاڑیاں بیچنے یا خریدنے کے لیے روایتی شو رومز کا راستہ اپناتے ہیں لیکن اس عمل کے لیے اب کئی آن لائن طریقے بھی متعارف ہوچکے ہیں۔ کار فرسٹ ان میں سے ایک کمپنی ہے جو پاکستان میں 2016 سے قائم ہے لیکن کووڈ 19 کے دوران عائد پابندیوں کی وجہ سے نسبتاً زیادہ لوگوں نے ان کے ذریعے پرانی گاڑیاں خریدنے یا بیچنے کا انتخاب کیا۔
 
حرا کہتی ہیں کہ 'پاکستان میں جون کے بعد سے استعمال شدہ گاڑیوں کے کاروبار میں اضافہ ہوا۔' یہ وہی وقت تھا جب لاک ڈاؤن کے بعد معاشی بحالی کی طرف جانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔
 
image
 
ان کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے رواں سال اگست کے بعد سے ان کی کمپنی نے زیادہ استعمال شدہ گاڑیاں خریدیں اور بیچیں، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ لوگ نئی گاڑیاں لینے کے بجائے استعمال شدہ گاڑیوں تک محدود ہو رہے ہیں۔
 
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے مطابق ایسا کیوں ہوا، تو ان کا جواب تھا کہ ممکنہ طور پر معاشی مشکلات کے پیش نظر بہت سے لوگوں کو فوراً پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے اپنی گاڑیاں فروخت کیں۔
 
'جو لوگ پہلے نئی گاڑی لیتے تھے، اب استعمال شدہ گاڑیاں لے رہے ہیں کیونکہ قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
 
'خصوصاً مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس کے لوگ اب نئی گاڑیاں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔۔۔ بلکہ وہ اب اپنی استعمال شدہ گاڑیاں بیچ رہے ہیں تاکہ فوری طور پر کچھ پیسوں کا انتظام ہو سکے۔'
 
ان کے مطابق بعض لوگ مشکل حالات میں آسان متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی وہ نئی گاڑی خریدنے کے بڑے خرچے سے بچنا چاہتے تھے یا فوری طور پر اپنی پُرانی بیچ کر پیسے بنانا چاہتے تھے۔
 
پاکستان میں آئندہ سال گاڑیوں کی قیمتیں کم اور معیار بہتر ہوگا؟
چھوٹی بڑی آٹو مارکیٹوں میں اکثر گاہک اور مکینک اس بات پر شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی قیمت معیار کے اعتبار سے بہت زیادہ ہیں۔ کئی موٹر مکینکس کے مطابق ماضی کے مقابلے اب گاڑیوں میں استعمال ہونے والی چادر پتلی، پینٹ ناقص اور انجن اتنا پائیدار نہیں۔
 
سوشل میڈیا پر بھی گذشتہ دنوں 'کار مافیا' کے نام سے ایک ٹرینڈ وائرل ہوا جس میں بظاہر 'بگ تھری' کو ہدف بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں کارسازی کی صنعت محض کچھ منافع خوروں کے ہاتھ میں ہے۔
 
image
 
اس بارے میں پاما سے بذریعہ ای میل رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔
 
عاصم ایاز اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک میں نئی کارساز کمپنیاں متحرک ہو چکی ہیں جس کا ثبوت نئی گاڑیوں کی صورت میں عوام کو ملا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب مقابلہ قیمت اور معیار پر ہی ہوگا۔
 
انھوں نے تسلیم کیا کہ ماضی میں گاڑیوں کے معیار کے حوالے سے قوانین موجود نہیں تھے، جیسے روذ سیفٹی کے لیے ایئر بیگز کی شرط، جن کی تصحیح آئندہ آٹو پالیسی میں بھی زیر غور ہوگی۔ ان کے مطابق جدید ٹیکنالوجی میں گاڑیوں کا وزن کم رکھا جاتا ہے تاکہ ان کا مائلیج اور کارکردگی بہتر ہوسکے۔
 
یاد رہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے گذشتہ اگست میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے لیے لازم معیارات تیار کر لیے گئے ہیں۔ پاکستان میں گاڑیوں کے معیار کی نگرانی ان کی وزارت کا ماتحت ادارہ پاکستان سٹینڈرز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے ذمے ہے۔
 
انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان کے مطابق اب پاکستان میں بننے والی نئی گاڑیاں بنیادی طور پر کچھ معیارات پر پورا اتر رہی ہیں تاہم دیگر ممالک کے مقابلے ان کی خصوصیات مختلف ہوسکتی ہیں۔
 
ایک سوال پر عاصم ایاز کا کہنا تھا کہ آئندہ سال ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں صرف اس صورت کم ہوسکیں گی اگر معیشت مستحکم ہوتی ہے، ڈالر کی قیمت میں واضح کمی، کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد ملکی صنعت میں لوکلائزیشن کو فروغ ملتا ہے اور مزید گاڑیاں متعارف کروائی جاتی ہیں۔
 
تاہم موجودہ حالات میں کاروں کے ڈیلر اتنے پُرامید نہیں۔ وہ ٹیکسوں میں کمی کے عالاوہ درآمد شدہ گاڑیوں کی آسان دستیابی پر زور دیتے ہیں۔
 
اگلے سال ماسٹر موٹرز کی 1300 سی سی اور 1500 سی سی کی ایک بڑی گاڑی السون بھی متعارف ہونے جا رہی ہے جس کی قیمت 20 سے 25 لاکھ ہونے کا اندازا لگایا جا رہا ہے۔ کمپنی کے مطابق وہ اس مقامی کار کو ملک میں ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش کریں گے۔
 
انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے عاصم ایاز کا کہنا ہے کہ آئندہ سال الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ای وی پالیسی بھی منظور کر لی جائے گی۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: