وہ پرانا جاسوس طیارہ جس کا مقابلہ 65 سال بعد بھی ممکن نہیں

image
 
آخرکار سیٹلائیٹس اور ڈرونز نے اس کی جگہ لے لی۔ مگر 65 سال پہلے بنایا گیا لاک ہیڈ مارکن کمپنی کا یو۔2 جاسوس طیارہ جس طرح کے مشنز جن حالات میں سر انجام دے سکتا ہے وہ آج بھی کوئی دوسرا طیارہ نہیں کر سکتا۔
 
لاک ہیڈ یو۔2 خفیہ طیارہ اپنی لمبائی سے دو گنا چوڑا ہے۔ یہ امریکی فضائیہ کا سب سے منفرد طیارہ بھی ہے اور اڑانے کے لیے سب سے مشکل بھی۔ اسے اڑانا اتنا مشکل ہے کہ اسے ’ڈریگن لیڈی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
 
اس طیارے کا ڈیزائن ہی ہے، جس میں 63 فٹ لمبا نہایت ہی پتلا مرکزی حصہ، دو گلائیڈر نما پر اور ایک بہت ہی طاقت ور انجن شامل ہیں، جو اسے 70,000 فٹ کی اونچائی تک پہنچاتا ہے، اور سب سے اہم، اسے اس اونچائی پر برقرار رکھتا ہے۔
 
اس اونچائی پر یو۔2 کی تیز ترین رفتار اور انجن بند کر کے طیارہ اڑانے کی رفتار میں اس قدر کم فرق ہے کہ اسے اڑانے والے پائلٹ اس کروزنگ رفتار کو ’کوفن کارنر‘ یعنی تابوت کا کونا کہتے ہیں۔ اور اس ’کارنر‘ پر یہ مشنز کئی کئی گھنٹوں چلتے ہیں۔
 
اس طیارے کا نازک ڈیزائین کئی دفعہ نظر نہیں آتا کیونکہ اس پر اکثر پاڈس، اینٹینا، اور سینسرز، کیمروں اور مواصلاتی آلات کو چھپانے کے لیے نوزکونز لگے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مختلف آلات اس پر بہت آسانی سے نصب کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی طرح کے ایک پاڈ میں ایک ایسا آلہ ہے جس سے یہ طیارہ ریڈار سے غائب ہو جاتا ہے!
 
70,000 اور اس سے اوپر کی اونچائی پر پرواز کرنے والی یہ ’ڈراگن لیڈی‘ آج بھی اس سطح پر اتنی ہی اکیلی ہے جتنی 65 برس قبل اپنی پہلی پرواز پر تھی۔ اتنی اونچائی پر پائلٹ پائلٹ کم اور خلا باز زیادہ ہوتا ہے۔
 
یو۔2 کے کوکون جیسے کاکپٹ میں، بھاری سے پریشر سوٹ میں ملبوس پائلٹ سو فیصد آکسیجن کا سانس لیتا ہے۔ اس کِٹ کے کچھ عناصر آج کل کے سپیس سوٹس میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
 
جب ہوا اس قدر پتلی ہو تو زندگی اور موت کے درمیان فاصلے بہت کم ہو جاتے ہیں۔ پائلٹ کو ہر لمحہ آکسیجن کی کمی اور ڈیکمپیشن بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔
 
image
 
ہر جہاز کی طرح یو۔2 کو ایک مخصوص رفتار برقرار رکھنی ہوتی ہے۔ اتنی تیز کہ جہاز رک نہ جائے لیکن اتنی تیز نہیں کہ جہاز ٹوٹ ہی جائے۔ یو۔2 کے لیے چیلینج یہ ہے کہ یہ فرق بہت معمولی ہو جاتا ہے۔ اگر غلطی سے بھی آپ کا ہاتھ کنٹرولز پر لگ جائے تو سب کچھ ختم ہو سکتا ہے۔
 
اس طیارے کے میکینیکل کنٹرولز جو اونچائی پر تو آسانی سے کنٹرول ہو جاتے ہیں، زمین کے قریب پہنچتے ہی انہیں چلانے کے لیے بہت زور لگانا پڑتا ہے۔
 
یو۔2 کے نہایت ہی ہلکے ڈیزائین کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ رن وے پر مانو تیرنے لگتا ہے، اور اگر لینڈنگ ذرا سخت ہو جائے تو اچھل کر دوبارہ ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ سائیکل جیسے لینڈنگ گئیر کی وجہ سے رفتار کم کرتے وقت اسے ایک سیدھ میں رکھنا اور پروں کو متوازن رکھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔
 
لینڈ کرتے وقت کاکپِٹ سے باہر کا منظر اس قدر محدود ہوتا ہے کہ کاکپِٹ میں بیٹھے پائلٹ کو گاڑی چلاتے ہوئے ایک دوسرے یو۔2 پائلٹ کی مدد لینی پڑتی ہے جو کہ رن وے پر تیز رفتار سے گاڑی چلا رہا ہوتا ہے۔ یہ گاڑیاں 140 میل فی گھنٹے کی رفتار تک پہنچتی ہیں۔
 
لاک ہیڈ یو۔2 کے ڈپٹی پروگرام مینیجر گریگ برڈسال کہتے ہیں کہ ’یو۔2 کی طرف وہی پائلٹ راغب ہوتے ہیں جو یہ کہیں کہ ’میں دنیا کا مشکل ترین طیارہ اڑانا چاہتا ہوں۔‘ اس طیارے کو اڑانے کے لیے آنے والی عرضیوں میں سے صرف دس سے پندرہ فیصد کو ہی منظور کیا جاتا ہے۔
 
خودکار جہازوں اور آلگورِدِمز کے اس زمانے میں یہ تاثر عام ہو سکتا ہے کہ یہ خفیہ طیارے اور ان کے پائلٹ سرد جنگ کی باقیات ہیں، لیکن یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ دیوار برلن گرنے کے اکتیس سال بعد بھی یو۔2 اپنا کام کر رہا ہے، جس میں باتوں اور پیغامات کو روکنا، الیکٹرانک سگنلز حاصل کرنا، تصویریں کھینچنا اور ایک خاص قسم کے ریڈار کے ذریعے ڈیجیٹل تصاویر حاصل کرنا شامل ہیں۔
 
image
 
اس کے ساتھ ہی یو۔2 کے ان پرانے کاموں میں کچھ نئے کام بھی جڑ گئے ہیں جیسے کہ ڈیٹا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا۔ آسمانوں میں اتنی اونچائی پر پرواز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ طیارہ میدان جنگ سے ہیڈکوارٹرز تک پیغامات پہنچانے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ اس کام میں یو۔2 ان دیگر طیاروں اور نگرانی کرنے والے مصنوعی سیاروں کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے جنہیں اس کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
 
امریکی فضائیہ کے پاس اس وقت اکتیس کارآمد یو۔2 طیارے ہیں اور اب ان کو اپڈیٹ کرنے کے لیے پچاس ملین ڈالر کی رقم لگائی جا رہی ہے جس کے بعد وہ مزید تیس سال کے لیے فعال ہو جائیں گے۔
 
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب یو۔2 طیاروں کا براہ راست مقابلہ اس ڈرون سے ہو جائے جو اتنا خفیہ ہے کہ اب تک سرکاری طور پر اس کے وجود کی تصدیق ہی نہیں کی گئی ہے۔
 
لاک ہیڈ مارٹن یو۔2 پروگرام کی ڈائیریکٹر آئیرین ہیلی کہتی ہیں ’ہمارا پروگرام کہیں نہیں جا رہا، اور ہم یو۔2 کو اس کے نئے مشن کے لیے تیار کرنے کے لیے کافی بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس نئے دور کے اختتام کی ابھی کوئی تاریخ طے نہیں۔‘
 
یو۔2 سرد جنگ کی باقیات نہ صحیح لیکن اس کا نام اس سے جڑا ضرور ہے۔ 1950 کی دہائی میں امریکی صدر ڈوائٹ آئیزنحاور کی انتظامیہ کو سوویت یونین کی جوہری صلاحیات کے حوالے سے ایک کے بعد ایک کافی خبریں پہنچیں۔ اس کی وجہ امریکہ کی خفیہ معلومات میں موجود سقم تھے۔ سوویت یونین کے اندر کی معلومات تک رسائی حاصل کرنا امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے کافی مشکل تھا۔ صحیح مقامات پر جاسوسوں کی کمی کا مطلب یہ تھا کہ سوویت یونین میں کہاں کیا ہو رہا ہے اس کی معلومات صرف ایک اونچائی پر اڑنے والے خفیہ طیارے کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی تھیں۔ اور ایسے طیارے کی فوری ضرورت تھی۔
 
کیلی جانسن ایک نہایت ہی قابل انجینئیر تھے۔ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے ’سکنک ورکس‘ میں یہی حاصل کیا۔ ’سکنک ورکس‘ کے ارد گرد اس وقت کہانیاں گڑھنا شروع ہوئیں جب جانسن اور ان کی ٹیم نے 1943 میں امریکی فضائیہ کا پہلا جیٹ صرف 143 دن میں تیار کر دیا۔ اور پھر 1954 کے اواخر میں اسی ٹیم نے اس خفیہ جاسوسی طیارے پر کام شروع کیا۔
 
image
 
ایک ایسا طیارہ جو 70,000 فٹ کی اونچائی پر اڑ سکے، جس کی رینج 3,000 میل ہو، اور جو 212 کلو وزن اٹھا سکے۔ اس طیارے نے اپنی پہلی اڑان امریکی ریاست نیواڈا کے ایک دور دراز علاقے میں صرف آٹھ ماہ بعد یکم اگست 1955کو بھری۔ اس علاقے کو اب ایرئیا 51 کہا جاتا ہے۔ یہ بات واضح تھی کہ جانسن اور ان کی ٹیم نے نے ایک بہت ہی خاص کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
 
ہٹنگٹن ۔ یو ایس سی انسٹیٹیوٹ میں ایروسپیس ہسٹری پروجیکٹ کے ڈائیریکٹر پیٹر جے ویسٹوِک کہتے ہیں ’یو۔2 کے ساتھ ہی خفیہ معلومات حاصل کرنے کے طریقے میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔ انٹیلیجنس سے متعلق مسائل کا حل جاسوسوں کے ذریعے نہیں بلکہ اعلی تکنیکی ذرائع سے۔ اور یو۔2 اس سمت میں پہلا بڑا قدم تھا۔‘
 
یو۔2 کی کہانی کافی مختلف ہو سکتی تھی۔ 1966 میں اس کا مستقبل کافی مخدوش نظر آ رہا تھا۔ پچپن میں سے صرف پندرہ طیارے فعال تھے۔ لیکن اسی کی دہائی میں اسے دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ آسان نہیں تھی کیونکہ اس پروجیکٹ میں شامل کئی انجینئر ریٹائیر ہو چکے تھے۔ نئے طیارے دکھنے میں تو اصل یو۔2 جیسے ہی تھے لیکن وہ پرانے طیاروں ے مقابلے میں چالیس فیصد زیادہ بڑے تھے اور زیادہ اور زیادہ وزنی آلات اٹھانے کے غرض سے ان کا ڈیزائین بھی مختلف تھا۔
 
اس وقت جو یو۔2 طیارے کام کر رہے ہیں وہ تین گنا زیادہ وزن اٹھا سکتے ہیں اور دو گنا زیادہ دوری پار کر سکتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں انہیں ایک بار پھر اپ ڈیٹ کیا گیا، اور ان میں جدت لانے کا یہ عمل آج تک جاری ہے۔
 
یو۔2 اب تک کم سے کم پانچ متبادل طیاروں کو ہرا چکا ہے۔ سب سے پہلے 1970 کی دہائی میں بننے والے یو اے ویز، یعنی پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیارے۔ اور حال ہی میں نارتھرپ گرمن آر کیو۔4 گلوبل ہاک، جو کہ اونچائی پر اڑنے والا ایسا خفیہ طیارہ ہے جسے دوری سے پائلٹ کیا جا سکتا ہے۔ اور اب یو۔2 کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 24 گلوبل ہاک طیاروں کو ضائع کرنا پڑے گا۔
 
image
 
اس اپ ڈیٹ کے بعد یو۔2 اپنی ارتقا میں اگلا قدم اٹھا سکے گا۔
 
کرس پوکوک یو۔2 کے بارے میں کتابیں لکھ چکے ہیں اور سابق ایوئیشن صحافی بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ مصنوعی سیارے یو۔2 کا کام کیوں نہیں کر سکتے؟ موجودہ مصنوعی سیاروں کی صلاحیات بہت وسیع ہیں، لیکن وہ ایک طے شدہ راستے پر ہی چلتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سیارے کسی بھی علاقے کے اوپر کافی دیر تک نہیں رہتے، جبکہ یو۔2 ایک ہی جگہ پر کافی عرصے تک منڈلا سکتا ہے۔‘
 
اس کے ساتھ ساتھ سیاروں کے خلاف بھی اقدامات کیے جا سکتے ہیں جیسے کہ لیزر کئی ذریعے انہیں نشانہ بنانا، سگنل جام کرنا یہاں تک کہ انہیں میزائیلوں سے بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
 
یو۔2 کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اوپر موجود سیارے کے ساتھ مل کر ایک ڈیٹا لنک کو کئی ہزار میل دور بھیج سکتا۔ اب یہ صلاحیت امریکی فضائیہ کے لیے اور بھی اہم ہو جائے گی۔
 
یو۔2 کا ایک مسئلہ ضرور ہے، یہ اتنا بھی خفیہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوسرے ممالک کی فضائی حدود کے اوپر بنا انہیں پتا لگے نہیں اڑ سکتا۔ حال ہی میں چین کی فوج نے ساوتھ چائینا سمندر میں فوجی مشقوں کے دوران ایک یو۔2 طیارے کو دیکھ لیا تھا۔
 
اور اب بظاہر نارتھپ گرمن نامی امریکی دفاعی کانٹریکٹر نے اسی مقصد کے لیے انتہائی خفیہ ڈرونز کا ایک چھوٹا سا فلیٹ بنایا ہے جو اس کے بی۔2 بامبر جیسے دکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یو۔2 کا متبادل ہو سکتے ہیں۔
 
ان ڈرونز کو عام زبان میں آر کیو۔180 کہا جاتا ہے اور ان کے بارے میں خیال ہے کہ ان پر ’کلوکنگ ڈیوائیس‘ نصب ہے یعنی ان میں ریڈار کو دھوکہ دینے کی صلاحیت ہے۔ جس کی وجہ سے اب تک ان کے بارے میں یہ بھی نہیں پتا کہ یہ دیکھتے کیسے ہیں۔
 
ویسے تو ’کلوکنگ ڈیوائیس‘ یہ افسانوی خفیہ ٹیکنالوجی ہے جس سے طیارے غائب ہو سکتے ہیں، لیکن ان انتہائی خفیہ ڈرونز کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا ہلکہ رنگ ان کے نظر آنے کو انتہائی مشکل بناتا ہے۔ اس وجہ سے انہیں ’گریٹ وائیٹ بیٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
 
پوکوک کہتے ہیں ’ظاہر ہے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر یہ ممنوعہ حدود میں داخل ہو کر وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو یو۔2 دوست ممالک کی فضائی حدود میں کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ انتہائی خفیہ ہوں گے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ یو۔2 کی جگہ لے سکیں گے، کیونکہ یہ بظاہر بہت مہنگے ہیں، اور انہیں بڑی تعداد میں نہیں بنایا جا رہا (صرف سات)، اور شاید انہیں استعمال کرنے کی اجازت بھی نہ ملے۔‘
 
یو۔2 کے مستقبل کو مائیکرو سیاروں سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ 10 سے 100 کلوگرام وزن تک کے یہ سیارے اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں بوئینگ X-37 جیسے خلائی جہازوں سے لانچ کیا جا سکے۔
 
پوکوک کہتے ہیں کہ ’ان مائیکرو سیاروں کو ایک راکٹ لانچ سے اتنی بڑی تعداد میں لانچ کیا جا سکتا ہے کہ یہ خفیہ سیاروں کی کمزوریوں کو عبورکر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس دس یا اس سے زیادہ ایسے سیارے ہیں جو ایک زنجیر کی طرح زمین کا چکر لگا رہے ہیں تو پھر آپ ایک ہی جگہ کا ہر کچھ گھنٹوں بعد بار بار چکر لگا رہے ہیں۔‘
 
تاہم ہیلی پُراعتماد ہیں کہ یو۔2 مستقبل میں بھی اپنا مقام بنائے رکھے گا۔ وہ کہتی ہیں ’یو۔2 جن حالات اور ماحول میں کام کرتا ہے اور کون کر سکتا ہے؟ یہ بہت ہی مشکل ماحول ہے۔ اس کا متبادل تیار کرنا نہ تو آسان ہوگا اور نہ ہی سستا، اور اس میں وقت بھی بہت لگے گا۔ اور جب آپ کے پاس پہلے سے صلاحیت موجود ہے تو ایسا کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: