لوحِ ادب‘ کراچی /حیدرآباد: جنوری۔جون 2020,مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شکیل احمد خان

لوحِ ادب‘ کراچی /حیدرآباد: جنوری۔جون 2020,مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شکیل احمد خان
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
2020ء اس اعتبار سے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ سال رواں کے ابتدائی مہینے میں ہی عالمی وبا کوڈ19نے چین کے شہر ووہان سے انسانی جانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ باوجود اس کے کہ پاکستان میں صورت حال کنٹرول میں رہی اور ہلاکتیں بعض ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہوئیں لیکن کسی ایک جان کا بھی جدا ہوجانا افسوس ناک ہوتا ہے۔ کورونا کو ادیبو ں اور شاعروں نے بھی اپنا موضوع بنایاخاص طور پر ان احباب کو خراج تحسین پیش کیاگیا جنہوں نے کورونا کے باعث سال رواں میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ اخبارات میں مضامین، جرائد نے خاص نمبر، بعض نے خصوصی گوشے اور بعض نے مضامین بھی شائع کیے۔ لوحِ ادب نے بھی جنوری تا جون 2020ء کا شمارہ اس سال رخصت ہوجانے والے شاعروں اور ادیبوں کی یاد میں خصوصی گوشہ ’مرحوم اہل علم و ادب‘ کا اہتمام کیا۔ مرحومینِ علم و ادب پر خصوصی شمارہ کا یہ خوبصورت گلدستہ ہمیشہ ان کی یاد دلا تا رہے گا۔ لوحِ ادب کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شکیل احمد خان اور نائب مدیر محمد صابر نے محنت اور عرق ریزی سے یہ خصوصی شمارہ ترتیب دیا ہے۔ لوحِ ادب ڈاکٹر الیاس عشقی مرحوم کی یاد گار کے طور پرجولائی 1998ء سے شائع ہورہا ہے۔
پیش نظر شمارہ رواں سال وفات پاجانے والی علمی، ادبی اورشعری و سخن سے تعلق رکھنے والی شخصیات پر مضامین کا مجموعہ ہے۔یہ مضامین اہل علم مصنفین کے لکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ مجلہ مرحومین کو خراج عقیدت ہی نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ حمد و نعت رسول مقبول ﷺ سے آغاز ہوا ہے اس کے بعد خصوصی گوشے ہیں پہلا گوشہ اردو کے معروف استاد اور شاعر پروفیسر منظر ایوبی مرحوم کا ہے۔پروفیسر صفدر علی خان انشاء، ڈاکٹر نزہت عباسی، اعجاز بابو خان نے مرحوم کی شخصیت اور شاعری پر اظہار خیال کیا ہے۔ منظر ایوبی کی شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر نزہت عباسی کا لکھنا ہے کہ ”ان کی شاعری زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہے، اپنے عہد کی سچی گواہی ہے، وہ مشاعروں کے بہترین شاعر تھے ان کا کلام لوگوں کے دلوں میں اتر جاتا تھا، خاص طور پر وہ اپنی بلند آہنگی اور ترنم کی بدولت مشاعرہ لوٹ لیتے تھے“۔استاد اور شاعر پروفیسر عنایت علی خان کے گوشہ کو مشتاق احمد قمرؔاور طارق رئیس فروغ نے پروفیسر صاحب سے لیے گئے انٹر ویو سے سجایا ہے۔ ڈاکٹر مظہر محمد شیرانی پر محمد راشد شیخ کا مضمون شیرانی صاحب مرحوم کی شخصیت اور ان کی خاکہ نگاری کو احسن انداز سے متعارف کراتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم مرحوم کے گوشے میں ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے مرحوم کی افسانہ نگاری پر تفصیلی رائے کا اظہار کیا ہے۔ براڈ کاسٹر طارق عزیرمرحوم کے گوشہ کو عقیل عباس جعفری نے اپنی تحریر سے طارق عزیز سے جڑی کچھ یادیں اور کچھ باتوں سے مزین کیا ہے۔ علامہ طالب جوھری کے گوشے میں پروفیسر شاہد کمال، ڈاکٹر ذکیہ رانی اور پروفیسر محمد رضی رضوی صاحب کے مضامین ہیں۔ ایک گوشہ احمد زین الدین کا ہے جس میں ابن عظیم فاطمی نے مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ صحافی احفاظ الرحمان پر اقبال خورشید کی تحریر ہے۔اطہر شاہ خان سے کون واقف نہیں وہ جیدی کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ ابو الفرح ہمایوں نے جیدی پر اختصار سے لکھا ہے۔
پروفیسر انوار احمد زئی حیدر آباد کے بعد کراچی کی علمی، ادبی اور شعری محفلوں اور ماہر تعلیم اور منتظم کی حیثیت سے اہم مقام رکھتے تھے۔ لوح قلم کے اس شمارہ کاا یک گوشہ پروفیسر انوار احمد زئی پر بھی ہے جس میں محمود صدیقی، ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش، ڈاکٹر عرفان شاہ، پروفیسر فرزانہ خان اور ڈاکٹر شکیل احمد خان کے مضامین ہیں۔ڈاکٹر شکیل کا پروفیسر انوار احمد زئی سے خاندانی تعلق بھی ہے یعنی پروفیسر زئی کی بھتیجی شمشاد اختر زئی ڈاکٹر شکیل کی زوجہ ہیں۔ ڈاکٹر شکیل نے پروفیسر صاحب کی نجی زندگی کے حوالے سے اہم اور بنیادی معلومات فراہم کیں، جن سے معلوم ہوا انوار احمد زئی بنیادی طور پر راجستھانی تھے، وہ ریاست جے پور میں 18 ستمبر 1944 ء کو پیدا ہوئے۔ پھر حیدر آباد سندھ کے علاقے لطیف آباد کے مکین بھی رہے۔ اتفاق ہے کہ میں بھی بنیادی طور پر راجستھانی ہوں اور لطیف آباد نمبر ۱۱سے تعلق اس طرح سے ہے کہ میری سسرال غزالی گورنمنٹ کالج کے سامنے تھی۔ پروفیسر انوار احمد زئی کا حیدر آباد سے تعلق کا تو مجھے علم تھا البتہ وہ راجستھانی تھے یہ مجھے ڈاکٹر شکیل کی معلومات سے علم ہوا۔ پروفیسر زئی پر تفصیلی معلومات اس مضمون میں ملتی ہیں۔وہ استاد، ماہر تعلیم، منتظم، ادیب، شاعر، مصنف اور ایک دینی سوچ و فکر کے مالک تھے۔کراچی میں کئی علمی ادبی پروگراموں میں مجھے ان کی صدارت میں ہونے والی تقریبات میں نہ صرف شریک ہونے بلکہ ان کی صدارت میں گفتگو کرنے کا موقع میسر آیا۔ وہ بہت اچھے مقرراورعمدہ لکھاری بھی تھے۔
اقبال حیدر مرحوم پر سہیل صدیقی کا مضمون ہے اور پروفیسر حبیب ارشد مرحوم کے گوشے میں پروفیسر ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی، عشرت علی خان، ارشاد قریشی اور جنید ابن سیف کے مضامین ہیں۔ سرور جاوید کراچی کے شعرا میں معتبر مقام رکھتے تھے۔ کراچی کی ادبی تقریبات میں بھر پور حصہ لیا کرتے۔ ان پر سلمان صدیقی نے عمدہ معلومات فراہم کی ہیں۔اسی طرح ناصر زیدی پرمسعود قریشی کا مضمون مرحوم پر عمدہ تحریر ہے۔ ڈاکٹر آصف فرخی کے گوشہ میں محمد شاہد حمید، پروفیسر نوید سروش اور محمد صابر کے مضامین ہیں۔ راقم نے ڈاکٹر آصف فرخی پر لکھا اس سے قبل مرحوم کے
والد پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی کے ”سفر آخر“کو قلم بند کیا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی جامعہ کراچی سے قبل گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، نا ظم آباد میں اردو کے استاد رہے۔ مجھے بھی اس کالج میں 12خدمات انجام دینے کا موقع ملا اور اسی کالج سے ریٹائر بھی ہوا۔ یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر اسلم فرخی کی طرح کالج کے مجلے’راویت‘ کا مدیر اعلیٰ ہونے اور طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کا سربراہ رہنے کا موقع بھی میسر آیا۔ پروفیسر صدیقہ انور مسعود پر مرحومہ کے بیٹے عمار مسعود کا درد بھرا مضمون ہے۔ پروفیسر صدیقہ کا انتقال رمضان المبارک میں ہوا تھا۔
مندرجہ بالا گوشوں کے بعد تحقیقی، تنقیدی، تاثراتی مضامین ہیں جن میں صبا اکرام کا ’روشن خیالی اور اور سندھ میں افسانہ‘، پروفیسر غازی علم الدین کا ’فالتو لفظوں کی جھوٹی چمک‘، پروفیسر مسکین احمد منصور کا’پٹھا ن کون...؟ ایک طائرانہ نظر‘اور محمد صابر کا ’آج کا افسانہ نگار محمد علی پٹھان کا مضمون شامل ہے۔ افسانوں میں رشید امجد کا افسانہ ”ٹڈی دل“ اور شاکر انور کا ”ممتا“ شامل ہے۔چند غزلیں اور دو نظمیں جن میں ناصر زیدی مرحوم کی ’بہ فیض قائد اعظم، اور مسکین احمد منصوری کی”تاج محل“ پر شمارہ کا اختتام ہوتا ہے۔ لوحِ ادب ایک پبلشنگ ادارہ بھی ہے اور کئی تصانیف بھی شائع کرچکا ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹر شکیل احمد خان کی ’صاد ق دہلوی کی شخصیت و فن‘،’شاکس آفٹر شاکس‘، ’مطالعہ عشقی‘،’خواب اور طرح کے‘ شامل ہیں۔ مجموعی طور پر لوحِ ادب کا پیش نظر شمارہ مرحوم شاعروں اورادیبوں کے حوالے سے بھر پور معلومات کا خزانہ ہے۔ رواں سال میں اور بھی ادیب و شاعر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ منتظمین ِ لوح ِ ادب مناسب خیال کریں تو آئندہ شمارہ ان مرحومین کے حوالے سے ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ یہ علم و ادب کی بڑی خدمت ہوگی۔ چند شاعر و ادیب جو رواں سال میں ہی زندگی کی بازی ہار چکے کے نام درج ہیں:
ڈاکٹر علی یاسر،کبیر انجم،آل عمران جواں سال شاعر، شاعرنسیم صدیقی،نواز مسکین (خوشاب)، سرائیکی و پنجابی کے شاعرنجیب پروانہ، پشتو کے شاعرسید کاظم عباس زیدی، شاعرسلیم فاروقی، قلم کارعزیز ظفر آزاد،مرزا خورشید بیگ میلسوی، قومی سیر ت ایوارڈ یافتہ شاعرو نعت خواہ ناصر زیدی، پروفیسر مظفر حنفی، شاعر، ادیب، افسانہ نگار، دانشورمولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی،بھارت کے شاعر راحت اندوری،سید اطہر علی ہاشمی صحافی، نصرت ظہیر ادیب، مزاح نگار صحافی،امیر حسین چمن افسا نہ نگار، رشید مصباح دانشور، سیدنصرت زیدی،ظفر اکبر آبادی،خواجہ محمد اسلام، موت کا منظر کے مصنف، مسلم اسکولوں کے روح رواں آزاد بن حیدر، میر جاوید الرحمن، روزنامہ جنگ کے پبلشر،پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد،امان اللہ،نعمت اللہ سابق ناظم کراچی،پروفیسر شمیم اختر، سینئر صحافی شکیل حسنین،صحافی سلیم عاصمی۔اردو ڈائجسٹ کے روح رواں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز قریشی کاتعلق میرے خاندان سے ہے۔ وہ تحریک پاکستان کے رکن، اردو ڈائجسٹ کے بانی، ادارہ کاروان علم فاؤندیشن کے بانی بھی تھے۔ پروفیسردیوان آفتاب احمد خان، پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، شاعر ادیب علامہ عادل فاروقی، صحافی سعود ساحر، اردو نثر نگارمسعود مفتی،سرائیکی دانشور و شاعر سردار صوفی تاج محمد خان گوپنگ، قاضی جاوید، سید اختر علی، صحافی ارشد چودھری، شاعرہ ڈاکٹر مینا نقوی،مفتی جمیل احمد نعیمی، ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانشور اشفاق سلیم مرزا،ادیب، کہانی کار اور محقق ناقد پروفیسر مختار شمیم، شاہ جی عبد القدوس فائق، پروفیسر اقبال بخت، کالم نگار و دانشور عبدالقادر حسن، سندھ کے معروف ماہر تعلیم بختاور کیڈٹ کالج فار گرلزکے پرنسپل پروفیسر شیخ محمد یوسف،جامعہ کراچی کے سابق رجسٹرار، سابق چیف ایکزیکیٹو ہمدرد یونیورسٹی، سٹی کیمپس، پروفیسر کرنل (ر) محمد ولی خان درانی اورعالم دین مولانا زر ولی خان دار بقا کی طرف کوچ کر گئے۔للہ تعالیٰ تما م ہی مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔(11دسمبر2020 ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278272 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More