ایک شخص کے حالات خراب ہوگئے کاروبار جاتارہا دیوالیہ
ہواسو ہوا اس پر لاکھوں کاقرض چڑھ گیا وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں
سوچنے لگا ان برے حالات میں کون میری مددکرسکتاہے سوچتے سوچتے اسے اپنے ایک
بچپن کے دوست کا خیال آیا جو اب ایک بڑا بزنس مین بن چکا تھا وہ بادل
نخواستہ اس کے گھر چلاگیا بزنس مین بڑے تپاک سے ملا دونوں نے مل کر کھانا
کھایا ایک دوسرے کے حالات دریافت کئے اس شخص نے سارا ماجرہ کہہ سنایا اس نے
افسوس کااظہارکیا پھربزنس مین اٹھ کر گھرکے اندرگیا اور پھولا ہوا لفافہ
اپنے دوست کو پکڑا دیا اور زور زور سے روناشروع کردیا اس شخص نے تعجب
کااظہارکرتے ہوئے کہا یار اگر تم نے میری مدد کرہی دی ہے تو اب رو کیوں رہے
ہو؟ اگرکوئی مسئلہ ہے تو یہ پیسے واپس لے لو۔بزنس مین نے آنسو رومال سے صاف
کرتے ہوئے کہا میں تو رو اس لئے رہاہوں کہ میرا دوست اتنی مشکل میں تھا اور
میں اس کی حالت سے بے خبررہا ۔
کبھی آپ نے سوچاہے مخلص کون ہوتاہے ذرا تنہائی میں اس سوال کا جواب جاننے
کی کوشش کریں جو رشتے آپ کو بنے بنائے مل گئے ان کی اکثرکو قدرنہیں ہوتی
زندگی کی دوڑ میں جہاں ماں، باپ، بہن اور بھائی جیسے خوبصورت رشتے آپ کی ہر
مشکل گھڑی میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں، وہیں پر ایک لطیف رشتہ ‘‘دوست’’ کی
صورت میں بھی موجود ہے جس سے ہم ہر بات شیئر کر سکتے ہیں حتی ٰ کہ دل کا
حال بتاسکتے ہیں۔ جو آپ کے ہر اچھے اور برے کام میں آپ کی حوصلہ افزائی
کرتے ہیں آپ کو مایوس نہیں ہونے دیتے اور قدم قدم پر ساتھ رہتے ہیں۔وہی
دوست آپ کے نت نئے تفریحی پروگرام میں آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔آپ کو اداس نہیں
ہونے دیتے اور آپ کے ساتھ خوشیاں بانٹتے ہیں۔ آپ کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں کے
حصہ دار ہوتے ہیں اکثر دوست تو نبھا جاتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو
زیادہ قریب ہونے سے ہمارا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ بہرحال یہی زندگی ہے لیکن
یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ رشتے ماں، باپ، بہن اور بھائی یا پھر دوست آپ
کے لئے اﷲ تعالیٰ کا خوب صورت انتخاب ہوتاہے ان کی قدرکرنی چاہیے اچھے دوست
اکثر ہم کبھی بہت بڑی یا کبھی بہت چھوٹی وجوہات یا پھر غلط فہمی پر کھو
دیتے ہیں۔اور اس کا پتہ تب چلتا ہے جب وقت گزر جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ
دوستی قائم کیسے رہے؟ تو اس کا جواب سمجھا سب کے لیے آسان نہیں ہے سب سے
پہلے تو جس سے دوستی کریں اس میں اپنی خوبیاں تلاش کرنے کی بجائے اسکی
خوبیوں کو پہچانیں کیوں کہ دوستی وہیں سے خراب ہوتی ہے جہاں سے آپ اس کی
خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ دنیامیں کوئی شخص بھی غلطیوں سے
مبرانہیں ہوتا بس کسی کو دوست بنانے سے بیشتراس بات کا خیال رکھیں کہ اس کی
شہرت بری نہ ہو وہ حاسد،کینہ پرور،لالچی بھی نہ ہو دوستی وہاں چلتی ہے جہاں
دونوں فریق ایک دوسرے کی غلطیوں،کوتاہیوں سے درگذرکریں اور مجبوریوں
کااحساس دوستی کو ہمیشہ تروتازہ رکھتاہے اپنے سے اپرکلاس سے دوستی کے فائدے
بھی ہیں لیکن یہ زیادہ تر مسائل پیداکرتی ہے کیونکہ سیانے کہتے ہیں دوستی
اس سے اچھی نبھائی جاسکتی ہے جسے مل کر آپ کو احساس ِ کمتری کااحساس نہ ہو
۔کبھی آپ نے سوچاہے مخلص کون ہوتاہے مخلص دوست ہمیشہ آپ کی خیرخواہی
چاہتاہے زندگی کی دوڑمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتاہے کبھی اچھے مشوروں سے ،
کبھی برے حالات میں بھرپورساتھ دے کر اور کبھی بری سوسائٹی سے بچاکر۔یہ بات
یاددرکھنے کی ہے کہ کبھی دوست کاامتحان نہ لیں ہوسکتاہے جب آپ اس کا امتحان
لے رہے ہوں وہ خود مجبورہو۔دوست کو پرکھنے کے اور بھی کئی انداز ہوتے ہیں
یعنی کہ اگر آپ ہر ایک کو اچھا سمجھتے ہیں تو آپ کے پاس اچھے دوستوں کی کمی
نہیں ہوگی۔اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان میں
تبدیلیاں آتی جاتی ہیں۔اس لئے لوگوں کو ان کے ماضی کی بنیاد پر پرکھنا بھی
اچھی بات نہیں۔انھیں ہمیشہ ایک موقع اور دیجئے اس طرح ہر بار دوستی کا ایک
نیا رشتہ قائم ہوگا۔اور اس کا دارومدار آپ پر ہوگا کہ آپ اس نئے رشتے کو
کیسے نبھاتے ہیں۔ کسی کے بارے میں پہلے سے رائے نہ قائم کریں جو رشتے اﷲ
تعالیٰ نے آپ کو عطا کئے ہیں ان میں سے کمی نہیں کی جاسکتی لیکن دوستوں کے
انتخاب میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے یہ آپ کی شخصیت کی پہچان ہے
اسی سے سوسائٹی آپ کے کردار کا اندازہ لگاتی ہے ایک اچھا دوست اﷲ تبارک
تعالیٰ کا بہت بڑااتعام سمجھا جاتاہے برصغیر میں تو دوستی کو بہت اہمیت دی
جاتی ہے دوست اپنے دوست کیلئے جان قربان کرنے ے بھی دریغ نہیں کرتے کیونکہ
دوستی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں دوستوں کاایک دوسرے پرحق مسلمہ ہے ۔۔اپنی
دوستی کے معیار کا اندازہ اس سلسلے میں ہونے والے تجربات سے کریں۔دوستی کا
رشتہ چاہے بہت سچا، پکا یا عام سا ہو جہاں دونوں دوست ہم خیال ہوں اگر آپ
اس کے بارے میں مستقل اچھی رائے ہی قائم نہیں رکھیں گے تویہ رشتہ خوب پھلے
پھولے گا۔کسی بھی رشتے میں خاص طور پر دوستی میں ضروری ہے کہ ہر بات صاف
صاف کی جائے۔جو کچھ آپ محسوس کرتے ہیں اسے بیان کردیں۔اس سے آپ کا دوست آپ
کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکے گا۔اس طرح ایک بھروسے کا رشتہ قائم ہو
جائے گا۔ جتنا کسی کو دل سے قبول کریں گے اتنی ہی اعتماد کی فضا قائم
ہوگی۔اور رشتے کی مضبوطی اعتماد سے ہی بڑھتی ہے۔جس کے لئے ضروری ہے کہ آپ
کی ہر بات سچائی پر مبنی ہو۔ شاید اسی لئے عبدالحمیدعدم نے کہا تھا
اے عدم سب گناہ کر لیکن
دوستوں سے ریا کی بات نہ کر |