تحریر حنظلہ عابد
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دور کسی جنگل میں ایک شیر کا بچہ اپنے خاندان سے
بچھڑ کر کسی بکریوں کے گزرتے ریوڑ میں شامل ہو گیا اور انہی کے ساتھ رہنے
لگا۔
دن بھر بکریوں کے بچوں کے ساتھ سبزے کی تلاش میں گھومتا پھرتا اور شام کا
اندھیرا پھیلتے ہی کہیں درختوں کی اوٹ میں جا سوتا۔
بکریوں کے ساتھ مانوسیت اس قدر بڑھ گئی کہ گوشت خور سبزہ خور بن گیا اور بے
چارہ اپنی حقیقت ہی بھلا بیٹھا۔وہ دن کے اجالے میں بھیڑئے کی آہٹ پر بکری
کے بچے کی طرح جھاڑیوں میں دبک بیٹھتا اور رات کے اندھیرے میں گیدڑ کی چیخ
سے سہم جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز وہ بکریوں کا ریوڑ شیر کے بچے سمیت کسی ندی سے پانی پی رہا تھا کہ
شیر کے بچے نے جیسے ہی اپنا منہ پانی کے قریب کیا تو اس کی آنکھیں پانی کی
سطح پر اپنے ہی عکس پر ٹک گئیں اور حقیقت اپنے چہرے سے نقاب ہٹا کر ایک دم
سامنے آ گئی۔۔
اسے احساس ہوا کہ میں سہمی ہوئی خاموش بکریوں کی نسل میں سے نہیں ،بلکہ
کچھار میں رہنے والا دھاڑتا ہوا جنگل کا بادشاہ ہوں اور دفعتا اس احساس سے
اس کے بدن میں ایک بجلی سی کوندی اور پھر وہ گرجتا دھاڑتا ہوا بکریوں پر
حملہ آور ہو گیا۔۔۔۔
آج مسلمان قوم اس شیر کے بچے کی مانند اپنے اسلاف سے بچھڑ کر اپنی شناخت
مٹا چکی ہے ،اپنی شاندار روشن تاریخ سے کٹ کر مغربی اقوام سے مرعوب ہے۔۔۔
مغربی اقوام کی تقلید کے نشے نے اس قدر مخمور کیا کہ وہاں کے ہر عیب کو
فیشن کہ کر اپنا لیا اور اپنے اسلاف کی ہر خوبی کو دقیانوسیت کہ کر دربدر
کر دیا۔مغرب کو سرتاپا خیر ہی خیر سمجھ کر اس کی قدم بقدم پیروی کو اپنی
ترقی اور روشن خیالی سمجھنے لگے۔۔۔۔۔
ذہنی بگاڑ کی اس سے زیادہ کیا مثال دیں کہ ایک مغرب زدہ مسلمان ان اقوام کو
ترقی یافتہ کہنے لگا جنہوں نے اس دنیا کو منڈی اور جواخانہ سمجھ لیا اور
چند ملک مل کر پوری دنیا کے انسانوں کی نیلامی کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا دوسروں کے گھروں کو لوٹ کر اپنے گھروں کو بھرنے والے روشن خیال ہوتے
ہیں ؟؟؟؟
کیا دوسروں کو ذلیل اور غلام بنا کر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے والے انصاف
پسند اور اس دنیا کے خیرخواہ کہلاسکتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
جن قوموں کی تقلید کو ترقی کی علامت سمجھتے ہیں انہوں نے دنیا کو کیا دیا
؟؟؟؟
چلو مان لیا کہ ہوا میں اڑے ،پانی پر چلے اور چاند پر چڑھے مگر بذات خود
انسان نے کتنی ترقی کی ؟ انسانیت نے کتنی ترقی کی ؟ دنیا میں امن کتنا
پھیلا ؟ محبت وبھاء چارہ کتنا عام ہوا؟ انسان نے انسان کو کتنا پہچانا ؟ دل
کتنے روشن ہوئے ؟ انسان کو اپنی منزل کا کتنا پتا چلا؟ جس دنیا میں فلسطین
و کشمیر جیسے واقعات پیش آجائیں اور بار باردنیا کے ضمیر سے حق و انصاف کی
اپیل کے باوجود دنیا کی عدالت سے انصاف نہ ہو سکے کیا پھر اس کے بعد بھی یہ
دنیا ترقی یافتہ کہلاء جاسکتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
حقیقت تو یہ ہے کہ اس دنیا کی قیادت کا حق مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم کو
دیا ہی نہیں جا سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دنیا میں بسنے والے انسانوں
کی کشتی منجدھار میں پھنسی ہے تو مسلمانوں نے ہی اسے ساحل دکھایا ہے اور جب
بھی اس دنیا کی لگام مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم کو تھماء گء ہے تو یہ دنیا
تاریک راتوں میں ٹھوکریں کھاتی رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔آج بھی ایک طویل مدت سے اس
دنیا کی قیادت مغربی اقوام نے سنبھال رکھی ہے اور دنیا کو انتہاء خطرناک
موڑ پر لا کھڑا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ساری دنیا ایک جنگل کا نمونہ پیش
کر رہی ہے اور اس جنگل کا حقیقی بادشاہ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ اپنے آپ کو
بکری سمجھ کر سہما ہوا ہے اور جنگل میں بھیڑیے اور لومڑی نما انسانوں
نیاپنی ملی بھگت سے پوری دنیا پر راج کر کے معصوم انسانیت کا گلا گھونٹ
رکھا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا میں بستی قوموں کے ریوڑ میں شیر کے بچے کو
آئینہ دکھایا جائے تاکہ وہ اپنی حیثیت پہچانے اور شاگرد بننے کے بجائے
استاد ،مقتدی بننے کے بجائے امام بن کر دکھائے اور بکری بننے کے بجائے شیر
بن کر دکھائے۔۔۔۔۔
خدارا اس بے رحم اور ہمدردی سے خالی دل رکھنے والی قیادت کے پنجوں سے زخمی
انسانیت کو آزاد کرائیں تاکہ یہ ظلم سے دبی دنیا کچھ سکھ کا سانس لے سکے
اور یہ ہواؤں میں اڑنے والا پانی میں تیرنے والا انسان اپنی زمین پر بھی
انسانیت اور شرافت سے چلنا سیکھ سکے۔
٭٭٭٭
|