پاکستانی ڈرامہ انڈسڑی

 ماضی میں ہم نے اپنی ڈرامہ انڈسٹری کے بل بوتے پر دنیا کی فلم انڈسٹری کا مقابلہ کیا ہم نے ڈرامے میں کہانی اور اپنی ثقافت کی بنیاد پر ایک خاص مقام حاصل کرلیا لیکن جب ایک کمپنی کے ایکس سی او نے پی ٹی وی کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے ڈرامہ انڈسٹری کو بھی بزنس انڈسٹری کے طور پر ڈیل کیا انہوں نے بجائے ڈرامہ خود بنانے کے ڈرامے خریدنے شروع کر دیے ہیں جس میں سفارش اور شخصیت پسندی کو ترجیح دی جاتی تھی۔ جس سے ڈرامے کا معیار بری طرح متاثر ہوا رہی سہی کسر بعد میں پرائیویٹ چینلز نے نکال دی۔ کچھ عرصہ قبل امریکہ میں ایک بحث چلی جس کا موضوع یہ تھا کہ عوام کو کیا دکھانا چاہیے اس کے دو جواب تھے.۱۔کیا عوام کو وہ دکھایا جائے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں ۲۔یا پھر عوام کو وہ دکھایا جائے جو کہ ٹھیک ہے تو کافی تحقیق اور بحث کے بعد اس بات کا جواب یہ ملا کہ عوام کو وہ دکھائیں جو درست ہے جس سے معاشرے کی تصیح ہو۔ معاشرہ مختلف لوگوں کے مجموعہ کا نام ہے لوگوں کے رویوں سے معاشرے کا اخلاق مرتب ہوتا ہے لوگ جو کچھ دیکھیں گے وہ ان کے ذہنوں میں محفوظ ہو گا اور وہ دانستہ اور غیر دانستہ ہی کریں گے جو ان کے لاشعور میں محفوظ ہو گا اب یہ فیصلہ آپ خود کریں کہ جو کچھ آج ہمیں ٹی وی ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے کیا اس کو دیکھ کر ہم اپنے اخلاق کو بہتر بنا سکتے ہیں یہ سب دیکھ کر معاشرے میں بے حیائی اورفحاشی فروغ پاتی ہے جس نے ہماری اقدار اور روایات کا جنازہ نکال دیا ہے.جس ملک میں آ بادی کا آدھے سے بھی زیادہ

تناسب غریب عوام پر مشتمل ہے وہاں پر بجائے یہ کہ ان کے مسائل کھائے جائیں ان کا معیار زندگی اور بچوں کے لیے ان کی دی گئی قربانیاں دکھائی جائیں وہاں پر ہمیں اپر کلاس کی پر تعیش زندگی دکھائی جاتی ہے جس کو دیکھ کر ایک غریب آدمی کوئی سبق تو کیا ہی حاصل کرے گا بلکہ مزید حساس کمتری اور مایوسی کا شکار ہوگا ۔اور دوسری بات ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں اس معاشرے میں کچھ رشتے ہیں مثلا بھابھی بہو، سالی وغیرہ ان رشتوں کا ہماری نظر میں ایک تقدس ہے لیکن آج کل کے ڈرامہ رائٹر صرف اپنی ریٹنگ کے چکر میں نہ جانے ہمیں کیا کچھ دکھا رہے ہیں جن کا آج کل کی نوجوان نسل کے ذہنوں پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے آج کل کے ڈرامہ نگاروں سے میری دست بستہ درخواست ہے کہ رب تعالٰی نے آپ کو قلم کی طاقت دی ہے اس نے آپ کو ایک تخلیقی ذہن عطا فرمایا ہے آپ کے حروف لوگوں کے دلوں پر اثر رکھتے ہیں تو خدارا اپنی صلاحیتوں کو درست سمت میں استعمال کریں۔ دوسرے عناصر کیا کم ہیں جو ہماری ذہنی سوچ اور افکار کو غلط سمت پر لے جا رہے ہیں تو یہی وہ وقت ہے جب بانو قدسیہ، اشفاق احمد،منو بھائی اصغر ندیم سید، ہاشم ندیم اور حسینہ معین جیسا کوئی لکھاری معاشرے کی اصلاح کا علمبردار بنے اور اپنی خدا داد صلاحیت کو صحیح راہ میں استعمال کرتے ہوئے رب تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت کا حق ادا کرے

 

Malik Yasir Awan
About the Author: Malik Yasir Awan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.