غربت،مہنگائی، لگاتار بیروزگاری، ناانصافی، بدامنی اور اس
جیسی کئی اور مشکلات انسان کو گدا گری پر مجبور کر دیتی ہیں اور ان کی
کارکردگی دن بدن بڑھتی جارہی ہے ان میں سے اکثر بھکاری نشے کے عادی ہو تے
ہیں یا بھکاری بننے کے بعد نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے
مطابق آج ستر لاکھ افراد نشہ آور شربت، پاؤڈرز، گولیاں، انجیکشنز، ہیروئن
کا استعمال کرتے ہیں اور نشے کے عادی افراد سسک سسک کر ذلت کی موت مرنے پر
مجبور ہو جاتے ہیں نشے کے عادی افراد میں زیادہ لوگ گدا گری کی لعنت میں
بھی مبتلا نظر آتے ہیں گھر، گلی،محلے، بازار، گاڑی، دفتر،دکان،پر ہر سننے
والے کو یہ الفاظ ملتے ہیں خیر ہووے، اﷲ تجھے زیادہ دے اس کے علاوہ مانگتے
والے ان لوگوں کے پاس بھی جا کر ہاتھ پھیلاتے ہیں جو کہ سفید پوش ہوتے ہیں
اور بہت مشکل سے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔گدا گر تو پھر بھی شام تک کچھ
نہ کچھ کما لیتے ہیں لیکن سفید پوش لوگ بعض اوقات شام کو خالی ہاتھ ہی
لوٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن وہ صرف اﷲ تعالی سے مانگ کرہی خوش ہوتے
ہیں۔ہمارے ملک میں اس وقت گدا گری بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے ہمارے ہاں گدا
گری اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر قدم پر ایک دو بھکاری مرد،عورتیں، بچے، اور
خواجہ سراپائے جاتے ہیں۔سفید پوش طبقہ مجبور وتنگ دست ہونے کے باوجود بھی
بھیک نہیں مانگ سکتا آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ہر وقت
پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جہاں
جہاں انسان بستے ہیں وہاں خوشحالی کے ساتھ ساتھ پریشانی کا بھی دور دورہ ہے
کیونکہ انسان نے اﷲ تعالی کی ذات پر بھروسہ کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا
چھوڑ دیا ہے اس وجہ سے غریب تو غریب، امیر طبقہ بھی پریشان حال ہی نظر آتا
ہے۔اس پر کیا خوب بات کی گئی ہے کہ۔کوئی تو تمنائے زر،و،مال میں خوش ہے اور
کوئی تماشائے خدوخال میں خوش ہے۔پر ہم سے پوچھو تو نہیں کوئی بھی خوش حال ۔خوشحال
وہی ہے جو ہر حال میں خوش ہے۔حکومت پاکستان سے درد مندانہ اپیل ہے کہ
منشیات فروشوں اور گداگروں کیخلاف سخت کاروائی کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے
کیونکہ منشیات کی عادت انسان کی جان لے لیتی ہے اور گدا گری اور بھیک
مانگنے کی عادت انسان کو بہت سی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا کر
کے تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔اﷲ تعالی ہمارے ملک کو تباہی اور
بربادی سے محفوظ رکھے آمین
|