گاؤں کا ایک ہنستا مسکراتا ,لمبا قد, سیدھی مانگ
نکالتا,گورا چٹا رنگ, لمبی ناک پر دائیں جانب تل کا نشان, خوش اخلاق والا
اپنے گھر کا بڑا لڑکا جو اپنی زندگی خوش باش گزرا رہا تھا, میڑک پاس کرکے
شہر کالج میں داخلہ لے چکا تھا, متوسط گھرانے کا چشم ؤ چراغ تھا جس سے گھر
والوں کو امیدیں تھی کہ ہمارا نام روش کرے گا, ہر ضرورت پوری ہوتی تھی وہ
نہیں جانتا کہ وفا, بے وفائی, اعتبار ؤ بے اعتباری ,خاموشی, اداسی, خوشی,
عشق, پیار, محبت, دکھ بھی کسی چیز کا نام ہے ,
وہ اپنی زندگی سے اپنی ذات میں خوش رہنے والا تھا,
میڑک کے بعد کالج تک کا تعلیمی سفر جاری تھا,
کالج کے نئے دوستوں کے ساتھ مل جل کے زندگی کے رنگ انجواۓ کر رہا تھا, گھر
سے کالج, کالج سے گھر ,شام کو گاؤں کے سکول میں فٹ بال کھیلتا زندگی کے تلخ
غموں کے مفہوم تک سے بھی ناواقف زندگی بسر کر رہا تھا,
گھریلو حالات ایسے کہ کبھی نہ کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی اور نہ پریشانی کہ
یہ نہیں ملا ,وہ نہیں ملا,اسکا زمیندار باپ اپنے بچوں کی تمام تر ضروریات
کا خاص خیال بھی رکھتا تھااور بچوں کی خواہش کے اعتبار سے ہر سہولت دینے کی
کوشش کرتا تھا لہذا وہ نوجوان بے خبر تھا کہ زندگی میں کبھی دکھ بھی ملتے
ہیں,کبھی خوشی دل کے دروازے پر دستک دے کر لوٹ جاتی ہے, جو انسان کو خاموش
کر جاتے ہیں ,اداس کر جاتے ہیں, وہ ہنستا مسکراتا , چھوٹے ,بڑوں کے ساتھ
کھیلتا زندگی کے مقصد کی جانب گامزن تھا۔
کالج کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوتے ہی پنجاب یونیورسٹی کا رخ کیا لیکن کیا
خبر تھی کہ اب کیا ہونے والا ہے, اسے کیا معلوم کہ تعلیم کے نئے میدان میں
,نئے ہم راہی ملے گۓ , نئے دوست ملے گۓ ,نئے ستم گر ملے گۓ ,وفادار نظر آنے
والے بے وفائی کرجانے والے ملے گۓ جو اسکی ہنستی مسکراتی زندگی کو داغ دار
کر دیں گۓ,
پھر اس کی زندگی میں خزاں کا جھونکا آیا جو اسکو بہار کا جھونکا لگتا تھا ۔
وہ ہواؤں میں اڑنے لگا ۔ نئے ماحول کے رنگ نرالے نظر آنے لگے , دوستوں سے
بے نیاز ہونے لگا, بہت سارے خواب آنکھوں میں سجا کر خوش تھا لیکن خوف کا
سایہ ہر پل اسکے سر پر چھاؤں کیے ہوۓ تھا کہ اس کے گھر والے یا دوست اس راز
سے آشنا نہ ہو جاۓ ,دل کے بھید سے واقف نہ ہو جائیں, اس دل میں بسے مہمان
کو نہ دیکھ لیں, اسکی آنکھوں میں محبت کا عکس نہ دیکھ لیں,
لیکن اس کی یہ خوشی زیادہ دن قائم نہ رہی,
اسکو کیا معلوم تھا " تعلقات کے آغاز میں ، احساسات ظاہر ہوتے ہیں ، لوگ
ملتے ہیں, اعتبار بنتے ہیں, اور ان کے آخر میں ، اخلاق ظاہر ہوتے ہیں۔"
وہ اپنی ہر چھوٹی بڑی خوشی ہو یا غمی, اس کے ساتھ شئیر کرتا۔ وہ اٹھتا کب
ہے, ببھٹا کب ہے ,کھایا کیا ہے, لیا کیا ہے, دیا کیا ہے, پسند کیا ہے,
ناپسند کیا ہے غرض ہر بات بتانا فرض سمجھتا ۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ آغاز محبت میں سب اچھا لگتا ہے, وہ بھی پہلے اس کی
ذات میں دلچسپی لیتی تھی, ہر بات پوچھتی تھی, بات بات پے تعریف کرنا,مشورہ
کرنا, داد دینا عام تھا, تم میرے لیے بہت خاص ہو, میرے دل کی دھڑکن ہو تم,
میرے خوابوں کے راجہ ہو,
لیکن گھر کا راجہ, ماں,باپ کا شہزادہ کب عشق کی منزل کا مسافر ہوا اس کو
پتہ ہی نہ چلا,
وہ بھول گیا کہ سب اس کی مثال دیتے ہیں کہ خاندان میں اس جیسا دوسرا نہیں۔
خاندان کی لڑکیاں ,لڑکے اس کو دیکھ کہ رشک کرتے ہیں ۔استاد ,خوش, والدین
مطمین۔ لیکن کبھی کبھی وہ سوچتا کہ وہ دھوکہ تو نہیں کر رہا گھر والوں
سے۔مگر پھر محبت کے خیالوں میں کھو جاتا۔ یہ محبت کی نہ ملنے والی جنت
انسان کو جکڑ ہی لیتی ہے, وہ ہمیشہ اسکو ساتھ رکھتا,کبھی ملاقات نہ ہوتی تو
بے تاب ہوجاتا,دل ؤ روح بے چین ہو جاتے, یہ راز اپنے سینے میں رکھ لیا کسی
کو کچھ نہ بتاتے ہوۓ جیتے جا رہا تھا ,
لیکن یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سوچ لو .........
جسے وہ سب کچھ سمجھتا تھا وقت کی رفتار جیسے اسکا رویہ بدل گیا, مسیج کرنا
,کال کرنا ,حال چال پوچھنا بند ہو گیا,
مجازی عشق انسان کی عقل مار دیتا ہے اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا لیکن
وہ کیا جانے کہ یکطرفہ محبت صرف اللہ کر سکتا ہے ,انسانوں میں اتنا ظرف
نہیں ہوتا کہ یکطرفہ محبت تمام عمر نبھاتے چلے جائیں,
وہ بہت پریشان ہوا اس کی روح جیسے نکل رہی ہو,اب وہ اس سے بھیک مانگتا کہ
چند لمحے بات کر لیا کرو ۔ لیکن وہ توجہ نہ دیتا,اسکے ہر سوال کو بے جواب
ٹال دیتا, وہ یہ بے مروتی برداشت نہیں کر سکتا تھا,
وقت نے ایک اور کروٹ لی اور پھر ایک دن اس نے بتا دیا کہ وہ کسی اور کو
پسند کرتی ہے اور اس سے تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ وہ اسے صرف دوست مانتی تھی,
اسکے علاوہ کچھ نہیں سمجھتی, اس نے بتایا, سمجھایا بہت کہ وہ اسکی دوستی کو
پیار ؤ عشق بنا چکا اب خدا کے لیے مجھ پر یہ ستم نہ کرو, مگر وہ بضد تھی کہ
تم بھول جاؤ۔
دوستی سے پیار, پیار سے عشق کی منازل کا سفر کیسے ہوگیا اسے خبر تک نہ ہوئی
,وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ بے خبر عشق وہ مقام ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے ۔
اس کے ساتھ دھوکہ ہوا یا بے وفائی, وہ ناسمجھ پایا عدم برداشت صدمے نے اس
کو بیڈ سے لگا گیا۔
وقت گزرتا گیا, زندگی کا سورج طلوع و غروب ہوتا گیا چند مخلص دوستوں نے
اسکے راز کو راز رکھتے ہوۓ مشورہ دیا کہ وہ خود کو سنبھال لیں ورنہ اپنی
فیملی کے لیے بربادی کا یہ جھونکا بن جاۓ گا,
اس کا دل اسکے اختیار میں نہ تھا, اب نہ پڑھائی پہلے والی , نہ طبیعت ہنسی
مسکراتی غرض سب یک دم بدل گیا, وہ جو خزاں کا جھونکا آیا تھا جسکو بہار کا
جھونکا سمجھا تھا وہ خزاں بن کے چل چکا تھا, اسکی ہنستی مسکراتی زندگی خزاں
بنا چکی تھی ۔
وہ ہر وقت مسکرانے والا لڑکا جو بات بات پے ہنستا تھا۔ اب چپ سی لگ گئ اس
کو۔ وہ نہ ہنستا, نہ بولتا,بلکہ ایک عجیب سی چپ سی کیفیت میں قید تھا,
وہ بھول گیا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا مزاج اور پسند نا پسند
تبدیل ہوتی رہتی ہے ,-" سالوں کا تعلق ہو، غضب کی محبت ہو یا بلا کا عشق
ھو جن لوگوں کیلئے آپ بیکار ہو جائیں وہ لاتعلقی ظاہر کرنے میں ایک لمحہ
بھی نہیں لگاتے"
جو اسے سمجھانے کی کوشش کرتا وہ عجیب نظروں سے اسے دیکھتا۔ وہ زندہ لاش بن
چکا تھا, ایسا محسوس ہوتا جیسے احساسات مر گۓ ہیں۔ زندگی کے سب رنگ ماند پڑ
گۓ ہیں, ساری خوشیاں دفن ہو چکی ہیں, گھنٹوں ایک جگہ بیٹھ کے سوچوں میں گم
ہو ,موبائل میں مسیج لکھ کہ مٹا دیتا۔ لیکن سینڈ کرنے کی ہمت نہ تھی۔
وہ اپنے بے خبر عشق سے بے خبر تھا اسے کیا پتہ عاشق کا دل آگ کی طرح جلتا
ہے۔جب محبت کسی دل میں جگہ بناتی ہے تو وہ ہر چیز کو، بلکہ خود کو بھی جلا
ڈالتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب محبوب ہو یا عاشق دونوں کو فنا کر سکتی ہے
۔
سچا عاشق یا محبوب ہی جان سکتا ہے کہ اس وقت دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے جب اس
کا محبوب کسی اور سے محبت کرنے لگتا ہے__
اسے اب سمجھ آئی کہ جس طرح ادھوری چیزیں، ادھوری یادیں اور ادھوری محبت
اچھی نہیں لگتی اسی طرح ادھورا اعتماد بھی اچھا نہیں لگتا انسان اپنی ہی
نظروں میں گِر جاتا ہے__
وہ سوچتا تھا کہ اسکا قصوار کیا تھا جس کی سزا وہ کاٹ رہا تھا, جانے والا
تو جا چکا تھا,اب اسے سمجھ آچکی تھی کہ عقل کامل ہو تو کلام نرم ہو جاتا ہے
اور چوٹ دل کھانے کے بعد عقل کامل ہو ہی جاتی ہے,
زندگی کا سکون خاموش محبت میں ہے, قدر میں ہے.
اللہ کے سوا غیروں سے امید اور سہاروں کی آس درحقیقت کمزور سے کمزور تر
کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ تماشائیوں کی دلچسپی کا سامان بن جاتے ہیں۔
وہ جان چکا تھا جب ہم آہستہ آہستہ زندگی کو سمجھنا شروع کرتے ہیں تو سوچ
کے پنچھی ہمارے چہروں پہ عیاں ہونے لگتے ہیں ہم کب ہنسی مزاق سے سنجیدگی کی
جانب بڑھ جاتے ہیں پتا ہی نہیں چلتا تب تک ہم وقت کے دھکے کھا کر بہت مضبوط
ہو چکے ہوتے ہیں__
اور سوچوں کی لکیریں چہرے پہ عیاں ہونے لگتی ہیں!
اور سوچتاکہ کاش جانے والا اپنا غم بھی ساتھ لے جاتا
وہ جو زندگی عشقی رنگوں سے ناآشنا تھا اب وہ اداس شاموں میں بیٹھا رہتا اور
سوچتا کہ اس کا قصور کیا تھا۔ شاید کوئی نہیں ,زور دار قہقہہ مارتے ہوئے اس
نے کہا کہ یہ صرف میرے خواب دیکھنے کا قصور تھا,
وہ اکثر ڈھلتے سورج کو دیکھ کہ سوچتا کہ اس کی خوشیوں کا سورج بھی اسی طرح
ڈھل گیا ہے۔۔۔
وہ واپس اپنے گھر لوٹ چکا تھا اسکی روزانہ کی بے تابی کو محسوس کرتے ہوئے
اسکی والدہ نے پوچھا لیا بیٹا کیا درد ہے تیرے سینے میں جو فراخ ہوتا جا
رہا ہے اور تیری بہار جیسی جوانی خزاں کا لباس نظر آتی ہے مجھے میرے گھر کے
روشن چراغ مجھے بتا کیا دکھ ہے, کل تیرے ابا مجھ سے تیری خاموشی کا سبب
پوچھ رہے تھے,
ماں کی گود میں سر رکھتے ہی اندر سے ریزہ ریزہ اور باہر سے مضبوط بیٹا موم
کی طرح بہنے لگا,
لیکن اسکی بے خبر محبت یہ پیغام دے گئ ہے کہ
رشتوں میں توازن رکھنا بے حد ضروری ہے ہر چیز اپنی حد میں اچھی لگتی ہے
پھر چاھے وہ محبت ہو یا نفرت زیادہ کی ہمیشہ ناقدری کی جاتی ہے__
یہ لوگ ربّ کے بنائے ہوئے دلوں کو توڑ کر کہتے ہیں کہ سکون نہیں,سکون ہوگا
بھی کیسے ,سکون چھیننے والوں کے حصوں میں کبھی سکون نہیں آتے جلد یا بدیر
خٌدا کی لاٹھی آواز مار کر رہتی ہے -
وہ خود سنھبلا تو سمجھا گیا دل نہ توڑیں, تلخی نہ بکھیریں 'ان شاءاللہ'
دائمی سکون میسر ھوگا__
کبھی کبھی زندگی کی حقیقتوں کو قبول کرنے کے لیے مضبوط نہیں بے حس ہونا
پڑتا ہے,آپ زندگی سے بھلے خوش نا ہوں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ
جیسی زندگی جینے کو ترستے ہیں__
زندگی میں ایک کلیہ بنا لیں ، کچھ بھی بن جائیں مگر بے فیض انسان نہ بنیں۔
درخت جب بے فیض ہو جائے تو چولہے میں جھونک دیا جاتا ہے۔
رشتے اور شیشے دونوں انسانی غفلت سے ٹوٹتے ہیں مگر شیشے کا متبادل مل جاتا
ہے،رشتے کا نہیں۔
تعلقات کو نبھانے کے لیےالجھنوں میں خاموشی کا اختیار کر لینا دراصل دلوں
کی جیت ہوتی ہے
|