“کماری والا“ میں مزاحمت کے رنگ

کماری والا علی اکبر ناطق کا نیا ناول ہے جس کو بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے ۔مضمون میں ناول میں مزاحمتی رنگ کو دکھایا گیا ہے

علی اکبر ناطق ، شاعری ، افسانے اور ناول کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ ’’نولکھی کوٹھی‘‘ لکھ کر کافی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ اب ان کا نیا ناول ’’کماری والا‘‘ بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے ۔ ناول کثیر الموضوعات ہے تاہم میں نے ناول میں مزاحمت کے رنگ تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ ناول کا ابتدائی باب مرکزی کردار ’’ضامن علی‘‘ کے گرد گھومتا ہے جو کسی کی تلاش میں اسلام آباد سے بہت دور ضلع پاک پتن کے گاؤں ’’کماری والا‘‘ میں جا پہنچا ہے۔ ناول کاآغاز زمانہ حال سے کیا گیا ہے لیکن بعد ازاں مصنف مرکزی کردار کی پوری زندگی کو آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک کی ذریعے اور اس سے جڑے متعدد کردار ہمارے سامنے لاتاہے۔

ناول میں مزاحمت کا پہلا رنگ اس وقت سامنے آتا ہے ،جب ناول کے نسوانی مرکزی کرداروںمیں سے ایک عدیلہ کا بیٹا عماد سکول سے گھر واپس نہیں آتا تو سکول کے ماسٹر سے علم ہوتا ہے کہ مولوی عبدالحئی اسے جہاد کے لئے لے گیا ہے۔ چونکہ وہ سکول سے غائب ہوتا ہے اس لیے عدیلہ اس کے گم ہونے میں ہیڈ ماسٹر کو بھی ملوث سمجھتی ہے، جو سچ ہوتا ہے ۔ یہاں بیٹے کی بازیابی کے لئے عدیلہ سے جو بن پڑا علی اکبر ناطق نے اس کی عکاسی خوبی سے کی ہے۔ ناول میں جا بجا علی اکبر ناطق نے جو مناظر تخلیق کیے ہیں وہ لاجواب ہیں اور ان لاجواب مناظر میں ایک منظر مزاحمتی رنگ کا یہ بھی ہے:
’’اُس نے ہیڈماسٹر پر دوسرا حملہ کر دیا اور بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس کا گربیاں کھینچ کر کپڑے تار تار کرنے لگی۔ایک استاد آگے بڑھ کر اسےچھڑانے ہی لگا تھا کہ اس نے ایسے غیظ کے عالم میں اس کا ہاتھ جھٹکا کہ وہ سہم کر رہ گیا اور عدیلہ دھڑ ادھڑ دونوں ہاتھوں سے ہیڈ ماسٹر کو پیٹنے لگی۔" علی اکبر ناطق ،کماری والا، بک کارنر ، جہلم،2020،ص:62

یہ ایک زندہ منظر ہے اور ایک ماں کی نفسیات کو ددلدوزی سے اجاگر کرتا ہے جس کا اکلوتا بیٹا مولوی نام نہاد جہاد میں استعمال کرنے کے لیے لے گیا ہے۔ جب ہیڈ ماسٹر کی جان عذاب میں آتی ہے تو وہ مولوی عبدالحئی کا کچا چھٹا کھولتا ہے۔ یہیں سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ مولوی بہت سی اخلاقی برائیوں میں بھی مبتلا ہے جن میں سے ایک لواطت بھی ہے۔ چنانچہ جن بچوں کو وہ جہاد کے نام پر لے کر جاتا ہے ان میں سے خوبصورت لڑکے لواطت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ عدیلہ بیٹے کی بازیابی کے لیے مولوی سے بھی جا لڑتی ہے۔یہ منظر دیکھیے جب مولوی عدیلہ کو کہتا ہے کہ حیرت ہے یہ عورت اللہ کی راہ میں لڑنے کو کوئی حیثیت نہیں دیتی:
"قاری کی اس بات پر عدیلہ ایک دم جوش میں آگئی ،مولوی صاحب،اللہ کی راہ میں اپنے سارے کنبے کو بھیج دے،مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر میرا بیٹا واپس نہیں آیا تو میں اس جگہ اپنے اآپ کو آگ لگا کر خود بھی مروں گی اور تمھارے مدردے کو بھی راکھ کر دوں گی"ص:66

یہاں مولوی اور عدیلہ کے جو مکالمے ہیں وہ دیہی معاشرت میں ایک نام نہاد مولوی کے قبیح کردار اور غیر ملکی فنڈنگ کے بل بوتے پر غریب ماں باپ کے بچوں کو بطور کھلونا استعمال کرنے کی لرزہ خیز کہانی کو بیان کرتے ہیں۔

ناول میں مزاحمت کا ایک رنگ اس وقت نظر آتا ہے جب عدیلہ کی بیٹی اور ناول کی ہیروئین ’’زینی‘‘ ڈاکٹر فرح کے بیٹے جنید کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو آصف نام کا ایک آدمی ڈاکٹر فرح کو تنگ کرتا ہے اس کے جواب میں ڈاکٹر فرح مزاحمتی رویہ اپناتی ہے۔ یہاں ناطق نے ڈاکٹر فرح کے آصف کو بھرپور جواب دینے کے بعد آصف کی طرف سے آگ بگولہ ہونے اور پھر ضامن علی کے باپ کے فرح کی حمایت کرنے کے مناظر عمدگی سے تخلیق کیے ہیں۔

ناول میں مزاحمت کا عنصر ایک اور رنگ میں اس وقت سامنے آتا ہے جب عدیلہ کا نواسا معیذ گھڑ دوڑ پر بھاری رقم جوئے میں لگاتا ہے چونکہ زینت کے ھوالے سے ضامن کو عدیلہ سے ہمدردی ہے اس لیے وہ معیذ کو شرط لگانے سے روکتا ہے اور نتیجے میں جواریوں سے بری طرح مار کھاتا ہے۔ یہاں ناول میں پیش کئے گئے تمام مناظر کی طرح ناطق کا مشاہدہ عمیق ہے اور تمام واقعات اتنے متحرک ہیں کہ قاری اس فضا میں خود کو سانس لیتامحسوس کرتا ہے۔ یہ منظر دیکھیے:
’’طالی خاں کی اس توہین آمیز گفتگو سے میرا خون کھولنے لگا۔۔۔میں نے اسی احساسِ تفاخر میں ایک زوردار چانٹا اس کے منہ پر دے مارااور اسکے بعداسے لاتوں اور گھونسوں پر رکھ لیا۔۔۔لیکن مجھے اسی وقت پورےمجمعے نے ادھر ادھر سے پکڑ لیا اور وہ زمین سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ایک دم پانچ چھ آدمیوں نے مجھے دبوچ لیا۔اس کے بعد مجھے خبر نہیں کس
طرف سے میرے اوپر مکے اور لاتیں برس رہی تھیں" ص: 191 تا 193

مزاحمت کا ایک اور منظر یہ ہے کہ معیذاپنی نانی کو فائر مارتا ہے توبھاگتے ہوئے مرکزی کردار ضامن علی اسے روکتا ہے۔ یہاں ناطق نے قاتل کی قتل کے بعد فرار ہونے اور ضامن کی طرف سے روکنے پر اسے بھی مارنے کی کوشش کرنے کی کہانی بیان کی ہے۔ ضامن کی وجہ سے معیذ بھاگ نہیں سکا اور پکڑا گیا۔

جنید ڈاکٹر فرح کا بیٹا تھا جو عدیلہ کی بیٹی کو لے کر بھاگ گیا۔ وہ سیدھا اپنے باپ کے پاس پہنچا جس نے اس کی ماں کو طلاق دے دی تھی۔ڈاکٹر فرح اپنے باپ کے قاتل اپنے سگے چچا زاد سے بھاگ رہی تھی اور جنید اپنے باپ کے کہنے پر اپنی زمین حاصل کرنے کے لیے اپنی ماں کے کزن پر کیس کرتا ہے تو کزن طلال اسے مروا دیتا ہے۔ جنید کی موت پر اس کی ماں کی جو حالت ہوئی اسے ناطق نے عمدہ پیرائے میں بیان کیا پھر اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے فرح کی کی جانے والی کوششیں اور طلال کو دو فائر مارنے کی کہانی بھی ناول کا حصہ ہے۔

مزاحمت کی ایک اور صورت ہمارے سامنے اس وقت آتی ہے جب شیعہ لوگ زکوٰۃ کے معاملے پر احتجاج کرتے ہیں تو ناول کے ایک اہم متحرک کردار حاجی فطرس کو بھی اس میں شامل ہونے کا کہتے ہیں لیکن حاجی فطرس اس معاملے میں شیعہ کے لیے بچھائے گئے جال کو دیکھ کرمعذرت کر لیتے ہیں اور مزاحمتی رویہ اپناتے ہیں۔ حاجی فطرس کے مکالمے کے یہ جملے دیکھیے:
’’امام اور انبیا کا کام خروج کرنا ہرگز نہیں ان کا کام صرف عدل اور اخلاقی قوانین کی طرف رہنمائی کرنا اور ہدایت دینا ہے۔۔۔ہاں یہ ضرور ہے اس راہ میں کوئی ظالم انھیں ان کے کام سے جبراً روکے تو ظالم کا حکم مان کر خاموش ہوجانا امام کے کے لئے ہرگز جائز نہیں۔پھر اس کے نتیجے میں ان کی جان چلی جائے تو چلی جائے ورنہ امام پر طاغوت کی اطاعت کا الزام آئے گا اور طاغوت کی اطاعت امام کےلیے کفر ہے۔ اسے آپ لوگوں نے امام کا خروج سمجھ لیا۔ ‘‘ص :335،336

مزاحمت کی ایک اور شکل اس وقت ناول میں سامنے آتی ہے جب بہت خاص قسم کے خطوط بائیسویں گریڈ کے سیکریٹری کی بیٹی اپنے امریکن دوست کو دیتی ہے تو ضامن اس کی خبر اپنے اخبار نویس دوست کو دیتا ہے جس کی پاداش میں اس اخبار نویس کی نوکری چلی جاتی ہے اور ضامن پر تشدد کے ہولناک عذاب اترتے ہیں۔ یہاں ناطق کے لاجواب مشاہدے کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی جس نے طبقہ اشرافیہ کی زندگی کی ایک ایسی جھلک ناول میں پیش کی جس کے بارے میں جانتے تو بہت سے لوگ ہیں لیکن ان کے بارے میں بات کرنے کی ہمت کوئی کوئی کرتا ہے۔

بعد میں کافی عرصے بعد اس سیکریٹری سے ضامن کی ملاقات ہوتی ہے جس نے ضامن کی زندگی کو عذاب ناک بنوایا تھا تو ضامن اس کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کرتا ہے۔

ناول مین پیش کیے گئے مزاحمت کے جتنے رخ ہیں اور جتنی صورتیں ہیں وہ سب کی سب حقیقی ہیں۔ تمام مناظر متحرک ہیں اور قاری ایک بار ناول پڑھنا شروع ہو جائے تو پھر اس کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اسے ختم کیے بنا رک جائے۔ یہی ایک کامیاب ناول نگار کے فنی و فکری کمال کی دلیل ہے اور یقیناً ناطق نے اردو ودب کو ایک بڑا ناول دان کیا ہے۔

Muhammad .Kamran Shahzad
About the Author: Muhammad .Kamran Shahzad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.