|
|
پریوں کی طلسماتی کہانیاں، بادشاہوں کے دریا دلی کے قصے اور تاریخی
داستانیں زبانی سنانے کا فن داستان گوئی جدید ٹیکنالوجی کے سائے میں
غائب ہو چکا ہے۔ پاکستان میں چند آخری داستان گو اس قدیم فن کو زندہ
رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ |
|
برف سے لپٹی ہمالیہ کی پہاڑیوں کے درمیان موجود ایک خوبصورت جھیل سے منسلک
داستانیں سناتے ہوئے داستان گو محمد نسیم کی آنکھوں میں ایک خاص چمک
دکھائی دیتی ہے۔ نسیم وادی شوگر ان میں کچھ لوگوں کو سیف الملوک شہزادے اور
پری کے درمیان محبت کی داستان سنا رہا ہے۔ 65 سالہ دکاندار محمد نسیم کا
کہنا ہے کہ طویل بیانیے کی داستانیں سنانے میں ان کو کہیں دن لگ جاتے ہیں۔ |
|
نسیم کو اپنے والد سے ایسی پچاس قصے کہانیاں ورثے میں ملی ہیں۔ لیکن نسیم
کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے چھ بچوں کو بھی یہ کہانیاں نہیں سنائیں۔ ان کے
بقول، ''بچوں اور دوستوں کو یہ داستانیں سننے میں دلچسپی نہیں کیونکہ سوشل
میڈیا، ویڈیو گیمز اور ڈرامہ سیریل نے اس قدیم فن کو گرہن لگا دیا ہے۔‘‘ |
|
|
|
پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے تفریح کا بہترین ذریعہ
ویڈیو پلیٹ فارم ٹک ٹاک خیال کیا جاتا ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں ہر شخص کی
اس موبائل ایپلیکیشن تک رسائی ہے۔ برف سے ڈھکی ہوئی وادی شوگران میں ایک
چھوٹی سی دکان پر بیٹھے نسیم کا کہنا تھا کہ ان کی یہ داستانیں ان کے ساتھ
ہی ختم ہوجائیں گی۔ |
|
پشاور کا قصہ خوانی بازار |
خیبر پختون خواہ کا دارالحکومت پشاور ایک طویل عرصے سے قصہ خوانی کا مرکز
رہا ہے۔ اس بات کی ایک مثال پشاور کے وسط میں واقع مشہور قصہ خوانی بازار
ہے، جہاں داستان گوئی کی ایک قدیم روایت موجود ہے۔ |
|
کہا جاتا ہے کہ شاہراہ ریشم کے راستہ مغربی اور وسط ایشیا کے تاجر اور فوجی
دستے اس بازار میں مختصر قیام کرتے رہے تھے اور شام میں وہ مقامی داستان گو
سے قصے سننے کے لیے اکٹھا ہوتے تھے۔ |
|
|
|
اسلام آباد میں لوک ورثے سے وابستہ ایک انسٹی ٹیوٹ کے کوآرڈینیٹر نعیم
سافی کا کہنا ہے کہ عمدہ داستان گوئی کی وجہ سے پشاور کا یہ بازار قصہ
خوانی کا مرکز تھا۔ سافی کے بقول، ’’یہاں خط و کتابت سے زیادہ معلومات کا
تبادلہ زبانی کلامی ہوتا تھا۔ داستان گوئی بنیادی بات تھی، لوگ اگر زیادہ
کہانیاں سن لیں تو وہ خود کو تعلیم یافتہ سمجھتے تھے۔‘‘ |
|
پشاور یونیورسٹی میں تاریخ و ادب کے محقق اویس قرنی کہتے ہیں کہ ماضی کے
اُس دور میں قصہ گو معلومات کی فراہمی کا ذریعہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قصہ
خوانی بازار میں قہوہ خانے اور حجام کی دکانیں بھری رہتی تھیں اور لوگ کئی
دنوں تک جاری رہنے والی داستانیں سنتے تھے۔ اویس کے بقول، ''اب شاید صرف
کچھ داستان گو باقی رہ گئے ہیں لیکن داستان گوئی کی روایت تقریباﹰ ختم
ہوچکی ہے۔‘‘ |
|
Partner Content: DW |