بقاء کے خطرے سے دوچار قدرتی خزانے

ایمازون سے بحیرہ مردار تک، کئی انوکھے اور غیرمعمولی قدرتی مناظر کو سیاحت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بقاء کا خطرہ لاحق ہے۔
 
ایمازون کے جنگلات، زمین کے پھیپڑے
جنوبی امریکا کے نو ممالک کا حصہ یہ جنگلات فقط ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ لاکھوں پودوں اور جنگلی جانوروں کی آماجگاہ بھی ہیں۔ تاہم 2020 ان جنگلات کی کٹائی کے اعتبار سے پچھلے بارہ برس کا بدترین سال رہا۔ ان جنگلات کو شدید خشک سالی کا بھی سامنا ہے۔
image
 
دی گریٹ بیریئر ریف، اسی برس باقی ہیں
چار سو اقسام کی کورل، پانچ سو انواع کی مچھلیوں اور پانچ ہزار قسموں کی دیگر آبی حیات کا مسکن گریٹ بیریئر ریف آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحلی حصے کے ساتھ واقع ہے۔ تاہم پانی کے بلند ہوتے درجہ حرارت کی وجہ سے یہاں الجی کی بقاء خطرے میں ہے۔ نصف ریف اب تک ختم ہو چکی ہے۔ 2100 تک اگر ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ بھی درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو یہ کورل ریف ختم ہو سکتی ہے۔
image
 
ڈارون کی جنت خطرے میں
ایکواڈور کے گالاپاگوس جزائر جنوبی امریکی مغربی ساحلوں سے ایک ہزار کلومیٹر دور ہیں اور عالمی ورثہ کہلاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں پایا جانے والا متنوع فاؤنا اور فلورا ہے، جو آتش فشانی زمین پر پھلتا پھولتا ہے۔ یہاں کے حیاتیاتی تنوع اور ارتقا ہی نے ڈارون کو متاثر کیا تھا۔ یہ انوکھی قدرتی جنت لیکن اب سیاحت، آلودگی اور دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔
image
 
ہمالیہ، پگھلتے گلیشیئر اور کچرے کے پہاڑ
انیس سو اسی میں پہلی مرتبہ رائن ہولڈ میسنر نے بغیر اضافی اکسیجن لگائے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا تھا۔ تب سے اب تک دنیا کا یہ بلند ترین پہاڑ دس ہزار سے زائد مرتبہ سر کیا جا چکا ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں سیاح پہنچتے ہیں اور یہاں کچرے کے انبار چھوڑ جاتے ہیں۔ ہمالیہ کو زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا سامنا بھی ہے۔
image
 
یسوعا ٹری نیشنل پارک
کیلی فورنیا کا نیشنل پارک یشوعا درخت کے نام پر ہے، تاہم یہ درخت شاید رواں صدی کے اختتام پر مکمل طور پر غائب ہو جائے اور وجہ ہے بلند ہوتا درجہ حرارت۔ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے صحرائی یوکا کا پودا بھی مشکلات کا شکار ہے۔ نسبتاﹰ بلند سطح پر اور قدرے ٹھنڈے ماحول میں موجود یوکا کے پودے بھی بارآوری کے اعتبار سے جیسے بانجھ ہوتے جا رہے ہیں۔
image
 
کِلیمانجارومیں برف نہیں
یہ افریقہ کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے،جہاں تین آتش فشاں موجود ہیں۔ کیبو کہلانے والا یہ سلسلہ سطح سمندر سے پانچ ہزار آٹھ سو پچانوے تک بلند ہے۔ اس کی سفید چوٹی، سن 1912 تا 2009 تک 85 فیصد برف کھو چکی ہے۔ محققین کے مطابق تنزانیہ کی نشانی کہلانے والی یہ برفانی چوٹی زمینی حدت میں اضافے سے متاثر ہو رہی ہے۔
image
 
ماچو پیچو، سیاحت کے نشانات
پیرو کا یہ تاریخی مقام ہر برس ڈیڑھ ملین سیاح دیکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ثقافت یونیسکو تاہم کہتا ہے کہ یہاں کم سیاح جائیں، کیوں کہ لوگوں کے پیروں کے نشانات اس تاریخی ڈھانچے کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔ سیاحت نے اس علاقے کے ماحول کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
image
 
مالدیپ، سمندر میں کھوتا ہوا
اگر کوئی کہے کہ مالدیپ کو دیکھ آئیے، جب تک وہ نظر آ رہا ہے، تو سمجھ لیجیے کہ آپ اس ملک کو گم ہو جانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہوائی سفر ماحول کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا مطلب ہے سمندری سطح میں اضافہ۔ سمندری سطح ہر سال تین اعشاریہ سات سینٹی میٹر بلند ہو رہی ہے۔ مالدیپ سمندر سے فقط ڈیڑھ میٹر بلند ہے۔
image
 
نکاراگوا کی جھیل
مستقبل میں چھوٹی کشتیوں کی بجائے وسطی امریکا کی سب سے بڑی جھیل میں بڑے بڑے جہاز چلیں گے۔ وجہ ہے وہ نکوراگوا نہر کا منصوبہ۔ اس نہر کے ذریعے بحیرہء کیریبیئن کو بحرالکاہل سے جوڑا جائے گا۔ ماحولیات کے ماہرین خطرات ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سے جھیل کے میٹھے پانی سے جڑے پورے ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
image
 
بحیرہ مردار کی موت
سطح سمندر سے ساڑھے چار سو میٹر نیچے اور چاروں جانب سے خشکی میں گھرے بحیرہ مردار کو بھی دھیرے دھیرے موت کا سامنا ہے۔ یہ انوکھی نمکین جھیل ختم ہو سکتی ہے۔ اسرائیل اور اردن دریائے اردن کا پانی استعمال کر رہے ہیں اور اس سے بحیرہء مردار کی سطح ہر برس قریب ایک میٹر نیچے جا رہی ہے۔
image
 
Partner Content: DW
YOU MAY ALSO LIKE: