اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں ہمارے کام آجائے یا
ہمیں ہماری ضرورت پوری کرنے کے لئے قرضہ دے دے تو ہم اس کا شکر ادا کرتے
نہیں تھکتے۔ اور اظہار تشکر سے اس کے سامنے ہماری آنکھیں نہیں اٹھتیں اور
وقت پڑنے پر ہم اس کیلئے ہر قسم کی قربانی دے دیتے ہیں۔ مگر کیا ہم نے کبھی
سوچا کہ ہمارے رب کے ہم پر کتنے احسانات ہیں ، اس ذات باری تعالیٰ کی ہم پر
بے شمارعنایات ہیں، اتنی کہ ان کا ہم شمار بھی نہیں کرسکتے۔سب سے عظیم
احسان تو یہی ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا۔
یہ پوری کائنات، دنیا اور اس کی بے شمار نعمتیں اور خود ہمارا وجود ۔ اگر
اس کی تفصیلات بیان کی جائیں تو کئی ضخیم کتابیں تیار ہوجائیں گی۔ صرف
اشاروں سے کام لے رہا ہوں، اگر آپ غور کریں تو حیران رہ جائیں گے۔ پھر اس
زندگی میں ہماری پیدائش سے لے کر موت تک ہر ہر موقع پر اس نے ہمارا کتنا
خیال رکھا۔ ہماری ہر ضرورت کو پورا کیا ، اس امر کا خیال کئے بغیر کہ ہم نے
اس کے کتنے احکام مانے۔ اس کی بخشش اور عنایتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اگر آپ کا کوئی محسن آپ پر اپنی عنایتوں کی بارش کردے ، مثلاً بہترین
ملازمت، کار، بنگلہ اور بہت سی دولت دے دے اور آپ اس کی کوئی ایک بات نہ
مانیں تو وہ فوری طور پر آپ سے اپنی تمام چیزیں چھین لے گا اور آپ سڑک پر
آجائیں گے۔لیکن اگر کوئی بدبخت اپنے رب ذوالجلال والاکرام کی بندگی نہ کرے
اور تمام عمر اس کی نافرمانی میں گزارتا رہے تو وہ کوئی دنیاوی نعمت ا س سے
نہیں چھینتا۔
ایسے پیارے، رحیم، کریم اور اپنے بندوں سے ستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے
والے رب کی بندگی نہ کرنا اور اگر کرنا بھی تو ناپ تول کر۔ مثلاً بہت سے
لوگ اگر اپنے رب کی بندگی کرتے بھی ہیں تو ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ
فلاں کا م تو فرض ہے، لیکن فلاں سنت یا نفل۔ اگر میں سنت یا نفل نہ بھی
کروں تو گناہگار نہیں ہوں گا۔ ان کا طرزعمل تاجرانہ ہوتا ہے، ہر کام ناپ
تول کر۔ لیکن وہ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ ان کے رب نے ان پر اپنی نعمتیں
ناپ تول کر نہیں دیں۔ جب وہ کسی مشکل یا پریشانی میں ہوتے ہیں اور اپنے ربّ
کو دل کی گہرائیوں سے یاد کرتے ہیں تو وہ ان کو اس میں سے ایسے نکال دیتا
ہے کہ وہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔ مگر پھر بھی ان کی جبینِ نیاز نہیں جھکتی۔
اپنے ربّ کے حوالے سے بہت سے لوگوں کا طرزعمل ناقابل فہم ہوتا ہے، اس امر
کا ادراک ہوتے ہوئے کہ ان کے ربّ نے ہرہر قدم پر ان کے لئے اپنی نعمتوں کی
بارش کردی ہے۔ وہ نماز ، روزے اور دیگر عبادات کو اداکر کے یہ سمجھ لیتے
ہیں کہ انہوں نے بندگی کا حق ادا کردیا ہے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ
جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اپنے ربّ کی بے پایاں عنایات اور لامحدود نعمتوں اور اس کی کرم نوازیوں کا
لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے ربّ سے ٹو ٹ کر عشق کرنے لگیں۔ ان
باتوں کی فکر نہ کریں کہ کون سے کام فرض ہیں ، کون سے سنت اور کون سے نوافل
؟ بس یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں کام میرے ربّ نے کہا ہے اور اس پر عمل شروع
کردیں۔ چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے یا معاشرت سے۔ نمازیں
اور دیگر فرض عبادات، نوافل اور تہجدکا سلسلہ جاری رہے، جبینِ نیاز اس کے
سجدے میں رہے اور زبان ہروقت اُس کے ذکر سے تر رہے۔ اسلئے کہ دلوں کو سکون
اﷲ سبحانہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے ملتا ہے۔ اپنے رب کا ذکر اتنی کثرت اور اتنے
وجد سے کیا جائے کہ دیکھنے والے دیوانہ سمجھنے لگیں۔ اس کا نتیجہ لازمی طور
پر یہ نکلے گا کہ ایسے شخص کوخودبخود عشق رسول ﷺ ہوجائے گا ۔ اپنے پیارے
نبی ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ اور اُن کے فرمودات عالیہ (احادیث) کا مطالعہ
اس کی زندگی کا مقصد۔ وہ ہر شے کو عشق رسولﷺ کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اپنے
آقاﷺ کی تعلیمات پر عمل کرے گا اور اسے ہر لمحے یہ فکر رہے گی کہ کون سا
ایسا کام کروں، جو ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہو۔
ایسا شخص جس کے رگ وپے میں عشق رسول ﷺ سرایت کرچکا ہو اور وہ اپنے ربّ کا
سچا عاشق ہو، اس کی زندگی ہی بدل جائے گی۔ اپنے خاندان کے لئے رزق حلال ،
پاکیزہ اور طیب زندگی۔ اپنے رشتے
داروں، پڑوسیوں کے حقوق اور دیگر معاملات ایسے ہوجائیں گے کہ وہ معاشرے
کیلئے ایک مثال بن جائے گا۔ کیونکہ وہ قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کررہا
ہوگا۔ آئیے ہم ایسے مثالی شخص بننے کی دل وجان سے کوشش کریں۔ میرا دعویٰ ہے
کہ کوشش ضرور کامیاب ہوگی۔ اس طرح ہم دنیا اور آخرت میں سرخروئی حاصل
کرسکیں گے۔ لیکن اس کی بنیاد محبت ہے، اپنے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے سچاعشق۔
رگ وپے میں سرایت کرتا سچا عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!!!!
|