میں بچپن میں جب جب اس دیو کا قصہ سنتی جو شہزادی سے شادی
کرنا چاہتا تھا تو حیران ہوتی کہ بھلا دیو بھی کسی اعلی انسانی اقدار کے
قائل ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں -
یہ کہاں کی شرافت ہے آدم زادوں میں سے کسی حسین عورت کو اغوا کر لو مگر اسے
زور زبردستی سے شادی پر مجبور کرو کہ وہ ہاں کر دے -
جبکہ وہ شہزادی کسی آدم زاد کی منتظر ہوتی کہ کوئی شہزادہ آئے گا اور اسے
اس سنہرے پنجرے کی قید سے آزادی دلائے گا اور اس کا باپ اس خوشی میں اسے
اپنا داماد اور جانشین بنا لے گا -
ارے یہ اہم بات تو میں بتانا بھول ہی گئی کہ جب یہ شہزادہ منزلیں مارتا
شہزادی کے پاس پہنچتا ہے تو اسے دیکھ کر پہلے تو وہ خوب ہنستی ہے اور پھر
اچانک رونے لگ جاتی ہے -
شہزادہ حیرت سے اس کا سبب پوچھتا ہے تو وہ بتاتی ہے کہ ہنسی وہ اس لیے تھی
کہ بہت دنوں بعد ایک کسی آدم زاد کی شکل دیکھی اور روئی وہ اس لیے تھی کہ
ابھی دیو آئے گا اور تمھیں کھا جائے گا -
وہ آج خود بھی کسی دیو کی قید میں تھی -
اسی ان پرانی کہانیوں پر اپنے بچپن میں بھی کبھی یقین نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
لیکن عجیب بات تھی کہ آج یہی فرضی کہانی اس کا واحد سہارا بنی ہوئی تھی وہ
اسی آس پر مسلسل انکار کر رہی تھی کہ کسی روز اس کا شہزادہ اسیمے اس قید سے
چھڑانے ادھر آن نکلے گا -
|