تعلیماتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں
دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو، عوام کو نظم وضبط کا پابند بنانے کے دوہی
طریقے ہیں، جزا او ر سزا۔ یعنی اچھے کاموں کی ترغیب دلانے کے لئے انعامات ،
چاہے وہ اچھی ملازمت کی صورت میں ہوں، نقد رقم کی صورت میں یا کوئی باعزت
مقام کی تعیناتی اور بُرے کاموں پر سزا، چاہے وہ سزا قید ہو، جرمانہ ہو یا
کوئی اور صورت۔ اس اصول کا اطلاق زندگی کے ہرشعبے میں کیا جاسکتا ہے اور
عوام کو نظم وضبط کا پابند بنانے کے لئے بھی۔ اس حوالے سے نہ صرف رسول اکرم
ﷺ کی تعلیمات ِ عالیہ موجود ہیں، بلکہ انہوں نے آج سے چودہ سو سال پہلے
عملاً یہ کام کرکے دکھایا اور مدینہ کی اسلامی ریاست میں نظم وضبط کا ایسا
مثالی نمونہ پیش کیا، جس سے تاریخ کے صفحات ماضی میں بھی خالی تھے اور
قیامت تک ایسا نمونہ پیش کرنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ لیکن حضور اکرم ﷺ کی
تعلیمات عالیہ پرعمل کرکے ہم کم از کم ایسے معاشرے کی بنیاد ضرور رکھ سکتے
ہیں ، جس نظم وضبط، خلوص، دیانتداری، باہمی محبت واخوت، احساس ذمہ داری اور
خوفِ خدا سمیت تمام خصوصیات موجود ہوں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد
ڈالنے کے بعد دیگر امور کے علاوہ عوام کو نظم وضبط کا پابند بنانے پر بھی
توجہ دی۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام کی تمام تعلیمات اہلِ ایمان کو نظم وضبط
کا پابند بنانے پر زور دیتی ہیں۔ چاہے وہ نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو یا زکوٰۃ
یا جہاد ہو یا دیگر سماجی ، معاشرتی یا معاشی معاملات ہوں۔
مکہ مکرمہ میں واقعہ معراج کے بعد جب پنج وقتہ نماز فرض ہوئی تو لوگوں کو
ڈسپلن کا پابند بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوئی ، اس وقت بھی اور آج
بھی ۔ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد جب قبا میں اسلام کی سب سے پہلی مسجد تعمیر
ہوئی اور پھر مسجد نبوی ﷺ اور اس کے بعد جب
۲ ھ میں اذان کا سلسلہ شروع ہوا تو لوگوں میں پابندیٔ وقت کی عادت پڑنے
لگی۔کیونکہ نماز کی مقررہ وقت پر ادائیگی لازمی ہے۔ رسول پاک ﷺ کے دور میں
جب مسجد نبوی ﷺ سے حضرت بلال حبشی ؓ کی خوبصورت آواز میں اذان کی دلکش
صدائیں بلند ہوتیں اور جب لوگ حئی الصلوۃ سنتے تو اپنے سارے کام چھوڑ کر
مسجد کا رخ کرتے، حتیٰ کہ خواتین کا بیان ہے کہ ان کے اذان سنتے ہی ان کے
شوہر بیگانے بن جاتے اور مسجد کی جانب چل پڑتے۔ اس کے علاوہ بھی جب رسول اﷲ
ﷺ نماز کے اوقات کے علاوہ کسی اہم معاملے پر مشورہ کرنے یا کوئی حکم الٰہی
سنانے کی غرض سے مدینے میں منادی کراتے تو صحابہ کرام ؓ فوری طور پر مسجدِ
نبوی ﷺ کا رخ کرتے اور کسی بھی کام کی پرواہ نہ کرتے اور اپنی ہر مصروفیت
چھوڑ کر بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوجاتے۔
اسلام کی دعوت محض منطقی اور نظریاتی دعوت نہ تھی اور نہ ہی وہ عالمانہ
بحثیں لے کر آئی تھی۔ وہ سراسر عمل کا پیغام اور انسانوں کو بدلنے کا دوسرا
نام تھی، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ایک خاص طرز کے انسان
بنانے کا نام۔ اور یہ کام اس نے روزِ اول ہی سے
(۲)
شروع کردیا تھا۔ اس انسان کا طرزِ فکر ، اس کے اخلاقی اوصاف اور اس کا دلوں
کو چھو لینے والا کردار تھا، جو دلائل کو حقیقی وزن، اس کی اپیلوں کو سچی
جاذبیت اور اس کی تنقیدوں کو گہر ا اثر دینے والا تھا۔ وہ نیا انسان اپنی
ذات میں خود ایک بھرپور دلیل اور مؤثر اپیل تھا اور اس کا سارا وجود پرانے
نظام ، حیوانی ساخت کے انسان ، فاسد جاہلی ماحول، جامد سماج اور ان کی
نااہل قیادت پر ایک بھرپور تنقید تھا۔ جاہلیت کے پاس اس زندہ دلیل کا کوئی
جواب نہ تھا، کوئی توڑ نہ تھا اور وہ اس کے مقابلے میں بالکل بے بس تھی۔ وہ
نیا انسان ،جس کا انتہائی معیاری نمونہ رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس میں دنیا
کے سامنے موجود تھا اور جس کے بے شمار پیکر اپنی سیرتوں کے چراغ اُس عظیم
روشن چاند کی شعاعوں سے روشن کررہے تھے۔ اُن ؐ کا انکار کرنے، جھٹلانے والے
اور استہزاء کرنے والے بھی اپنے رویے سے اس کی شانِ عظمت کا اعتراف کررہے
تھے ۔ مکہ مکرمہ میں اس عظیم نورانی انسان ؐ نے اپنی انفرادیت کی شان کی
جلوہ گری کی اور مدینہ ہجرت کے بعد انہوں نے اپنی اجتماعیت کا جلوہ دکھایا۔
صحابہ کرامؓ نے رسول اﷲ ﷺ کی رہنمائی میں دوسروں کی اصلاح کے جذبے میں اپنی
کردار سازی کے کام سے کبھی غفلت نہیں برتی اور نہ اسے فراموش کیا۔اس معاشرے
میں دوسروں کی اصلاح سے مقدّم اپنی اصلاح تھی۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے
زیادہ اہم کام اپنے اوپر تنقید کرنا اور باہر تبدیلی رونما کرنے پہلے اپنے
اندر مطلوبہ تغیرات لانا ضروری تھا۔
عرب کے ایک ایسے معاشرے میں جس کی نگاہوں میں کمانے اور کھانے سے زیادہ
کوئی اہم کام نہ تھا (آج بھی بدقسمتی سے اسی کام کو اہمیت دی جاتی ہے)، جس
کی ہر محفل میں شراب، حسین اور خوبصورت عورتوں کے عریاں ونیم عریاں رقص
لازمی طور پر ہوا کرتے تھے اور زنا کو بُرائی نہیں، بلکہ لذت اور تفریح تصو
ر کیا جاتا تھا اور اس طرح کی دیگر بے شرمی کی حرکات عام تھیں۔ جہاں شجاعت
کا استعمال دنگے فساد، قتل ، انتقام در انتقام اور لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہ
تھا۔ اور جہاں تمدن ایک ایسے جنگل میں بدل گیا تھا ، جس کی تاریکیوں میں
انسانی درندے دھاڑتے پھنکارتے رہتے تھے۔ اور شریف مسکین لوگ ان کے لئے آسان
شکار بنے ہوئے تھے۔ ایسے ماحول میں حضرت محمد مصطفے ٰ ﷺ جب انسانوں کے
بہترین گروہ کو لئے نمودار ہوئے تو اس کا وجود روزِ اوّل ہی سے ماحول میں
انتہائی نمایاں تھا۔ لوگ انسانیت کے اس نئے نمونے کو بڑی حیرت سے دیکھتے
اور اسے ہر پہلو سے مختلف اور ممتاز پاتے۔ پھر اس کی پوری نشوونما ان کے
سامنے ہوئی اور انہوں نے اس عظیم گروہ کو نہ صرف پروان چڑھتے ہوئے دیکھا،
بلکہ اسے غلبہ پاتے اور اپنے اعلیٰ کردار سے پورے عرب کو زیرِ نگین کرتے
دیکھا۔
مکہ کے کفار ہر صبح اور ہر شام دیکھتے کہ کلمہ ٔ اسلام ایک ایک کرکے اچھے
اچھے افراد کو کھینچتا چلا جاتا ہے۔ یکایک دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر لوگ
اٹھتے ہیں اور اس عظیم انسان ؐ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کرلیتے ہیں۔
وہی جو پہلے محمد ﷺ کے خلاف دانتوں اور ناخنوں تک کا زور صرف کرکے لڑ رہے
تھے ، اچانک ان کی جبینِ نیاز جھک جاتی ہے ، جیسے ان پر جادو کردیا گیا ہو۔
پھر جوکوئی بھی کلمہ ٔ حق قبول کرتا ہے ، اچانک اس کے اخلاق وکردار میں
حیرت انگیز تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ اس کی دوستیاں اور دشمنیاں بدل جاتی
ہیں۔ اس کی عادات اور ذوق میں انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے مشاغل نئے رنگ میں
ڈھل جاتے ہیں، اس میں ایک نئی طاقت ابھر آتی ہے ، اس کی سوئی ہوئی صلاحیتیں
(۳)
جاگ اٹھتی ہیں ، اس کے ضمیر کا چراغ پوری لو دینے لگتا ہے ۔ اس کا احساس
انگڑائی لینے لگتا ہے ، اس کے تخیل کو نئے بال وپر مل جاتے ہیں ۔ اس کے
سینے میں حسنِ خلق کی کلیاں ایک ایک کرکے چٹکنے لگتی ہیں اور ان کی خوشبو
فضا میں پھیلنے لگتی ہے۔ جو شخص کافر سے مسلمان بنتا ، اس کے اندر سے گویا
بالکل ایک دوسرا آدمی نمودار ہوجاتا۔ وہ خود بھی محسوس کرتا کہ میں اپنے
ماحول سے مختلف اور بالکل نئی چیز ہوں اور وہ سوچتا کہ میں اب ویسا نہیں
رہا ، جیسا پہلے تھا۔ قاتل آتے اور انسانی جان کے محافظ بن جاتے ۔ چور آتے
اور امین بن جاتے ، زانی آتے اور عفت وحیا کے پیکر بن جاتے ۔ ڈاکو آتے اور
صلح وآشتی کے معلم بن جاتے ۔ کج خلق آتے اور حلیم اور متواضع بن جاتے ۔ سود
خوار آتے اور انفاق کرنے والے بن جاتے ۔ کُند ذہن آتے اور ان کے اندر سے
اعلیٰ قابلیتوں کے سوتے ابل پڑتے ۔ ادنیٰ سماجی مرتبوں سے اٹھتے اور شرف کی
بلندیوں کو چھو لیتے ۔ جیسے یہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق بن گئے ہوں۔ جیسے
یہ مٹی کے پُتلے نہ ہوں، بلکہ نورہی نور ہوں۔
یہ اﷲ ذوالجلال والاکرام کے پرستار، رسول اﷲ ﷺ کے دیوانے ، شمع رسالتﷺ کے
پروانے ، نیکی کے نقیب ، بھلائی کے داعی ، بدی کے دشمن ، ظلم کے مخالف ۔۔۔۔
یہ رکوع وسجود میں رہنے والے، یہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے گریۂ بے تاب میں
کھو جانے والے، یہ دنوں کو مقصد کی دوڑ دھوپ کرنے والے اور راتوں کو اﷲ سے
لو لگانے والے، مسکینوں کو کھانا کھلانے والے، مسافروں کی خبرگیری کرنے
والے، یتیموں اور بیواؤں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والے، لہو ولعب سے
بے تعلق، تعیشات سے دور بھاگنے والے، فضول بحثوں سے بے زار، سنجیدگی اور
وقار کے پیکر ، شائستگی وسلیقہ کے مجسمے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کس طرح ممکن تھا
کہ تمام عرب کی نظریں ان پر مرکوز نہ ہوجائیں اور لوگ ان کے اس اعلیٰ کردار
اور اخلاق سے مسحور ہوکر اسلام کے دائرے میں داخل نہ ہوتے چلے جائیں۔
اسلام کے وہ سابقون الاولون پورے خلوص ، بے غرضی اور اﷲ اور اس کے رسول ﷺ
کی محبت میں دین کی خاطر مرمٹنے کو تیار تھے۔ اپنے مال، وقت ، اور جان غرض
اس کام کے لئے انہوں نے سب کچھ قربان کرنے کا عزم کررکھا تھا اور مختلف
مواقع پر اس کا عملی مظاہرہ بھی پیش کیا۔ اس کی بہت سی مثالیں تاریخ کے
صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔ غزوہ تبوک میں اس کے عظیم عملی مظاہر دیکھنے میں
آئے۔ معجم طبرانی میں عمران بن حصین سے مروی ہے کہ عرب کے عیسائیوں نے ہرقل
شاہ روم کو یہ خط لکھا کہ (نعوذ باﷲ) حضرت محمد ﷺ کا انتقال ہوگیا ہے اور
لوگ قحط اور فاقوں سے بھوکے مررہے ہیں۔ عرب پر حملہ کیلئے یہ موقع نہایت
مناسب ہے۔یہ رجب ۹ ھ کی بات ہے، ہرقل نے فوری تیاری کا حکم دیا اور چالیس
ہزار رومیوں کا لشکر جرار آپ کے مقابلے کیلئے تیار ہوگیا۔شام کے نبطی
سوداگر زیتون کا تیل فروخت کرنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ان کے ذریعے یہ خبر
معلوم ہوئی کہ ہرقل نے ایک عظیم الشان لشکر آپؐ کے مقابلے کے لئے تیار کیا
ہے ، جس کا مقدمۃ الجیش بلقاء تک پہنچ گیا ہے اور ہر قل نے تمام فوج کو سال
بھر کی تنخواہیں بھی تقسیم کردی ہیں۔
اس پر حضور اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ فوری طور پر سفر کی تیاری کی جائے تاکہ
دشمنوں کی سرحد (تبوک)پر پہنچ کر ان کا مقابلہ کیا جائے۔ اس وقت عرب کی
گرمی خوب زوروں پر تھی، کھجوروں کی فصل تیاری پر تھی اور بے سروسامانی تھی۔
حضور اکرم ﷺ نے اس موقع پرلوگوں کو جہاد کی ترغیب بھی دی اور اس کے ساتھ
آپؐؐ نے صدقہ وخیرات کی فضیلت بیان کی اور اﷲ کی راہ میں اپنا نفیس مال خرچ
کرنے کی رغبت دلائی۔
(۴)
صحابہ کرام ؓ نے جوں ہی رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد سنا کہ آپؐ رومیوں سے جنگ کی
دعوت دے رہے ہیں، فوری اس کی تعمیل کیلئے دوڑ پڑے اور انتہائی تیزرفتاری سے
لڑائی کی تیاری شروع کردی۔
رسول اﷲ ﷺ نے غزوہ تبو ک کے لئے صدقہ وخیرات کی اپیل کی تو صحابہ کرام ؓ نے
اس میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کی۔ حضرت عمر فاروق اعظم ؓ نے
اپنے تمام مال ومنال اور نقد وجنس کو دوبرابر حصوں میں تقسیم کیا اور ایک
حصہ اﷲ کی راہ میں دے دیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے گھر کا تمام مال
واسباب لاکر پیش کردیا ، جس کی مالیت چار ہزار درہم تھی، حضور ؐ نے دریافت
فرمایا کہ اپنے اہل وعیال کیلئے کچھ چھوڑا ہے ؟؟ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے
فرمایا کہ صر ف اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کو ۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ملک شام کے لئے ایک قافلہ تیار کیا
تھا جس میں پالان اور کجاوے سمیت دوسو اونٹ تھے اور دوسو اوقیہ (تقریباً
ساڑھے انتیس کلو) چاندی تھی۔ آپؓ نے یہ سب صدقہ کردیا۔ اس کے بعد پھر ایک
سو اونٹ پالان اور کجاوے سمیت صدقہ کئے۔ اس کے بعد ایک ہزار دینار (تقریباً
ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے) لے آئے اور انہیں رسول اﷲ ﷺ کی آغوش میں بکھیر
دیا۔ حضور اکرمﷺ ان کے اس طرزعمل سے بہت مسرور ہوئے ، باربار ان کو پلٹتے
تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ اس عمل صالح کے بعد عثمان ؓ کوکوئی عمل ضرر
نہ پہنچا سکے گا۔ اے اﷲ ! میں عثمان ؓ سے راضی ہوا ، تو بھی ان سے راضی
ہو۔اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے پھر صدقہ کیا، اور صدقہ کیا، یہاں تک کہ ان
کے صدقے کی مقدار نقدی کے علاوہ نو سو اونٹ اور ایک سوگھوڑے تک جاپہنچی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے چالیس ہزار درہم دئیے۔
حضرت عباس ؓ بہت سامال لائے حضرت طلحہ ؓ ، سعد بن عبادہ ؓ اور محمد بن
مسلمہ ؓ بھی کافی مال لائے ۔ حضرت عاصم بن عدی ؓ نوے وسق(یعنی ساڑھے تیرہ
ہزارکلو) کھجور پیش کیں۔ حضرت ابو عقیل انصاری ؓ نے رات بھر محنت کرکے کل
چار سیر کھجوریں کمائیں، دوسیر اپنے بیوی بچوں کو دین اور دوسیر رسول اﷲ ﷺ
کی خدمت اقدس میں پیش کردیں۔خواتین نے اپنے سونے چاندی کے زیورات صدقات کئے
غرض جس سے جو ہوسکتا تھا، اس نے دل وجان سے کیا۔
اکثر صحابہ نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس مہم میں امداد کی مگر پھر بھی
سواری اور زادراہ کا پورا سامان نہ ہوسکا۔ چند صحابہ آپؐ کی خدمت میں حاضر
ہوئے اور عرض کی یا رسول اﷲ ! ہم بالکل نادار ہیں ، اگر سواری کا کچھ تھوڑا
بہت ہم کو سہارا ہوجائے تو ہم اس سعادت سے محروم نہ رہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ
میرے پاس کوئی سواری نہیں ۔ اس پر وہ حضرات روتے ہوئے واپس ہوئے ۔
حضور اکرم ﷺ تیس (۳۰) ہزار کی جمعیت کے ساتھ ہجوم آتش بار کے طوفانوں میں
مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ سواریاں اس قدرکم تھیں کہ اٹھارہ اٹھارہ افراد
کے حصے میں ایک ایک اونٹ آیا۔ سامان رسد اس قدر کم تھا کہ مسلمان درختوں کے
پتے کھاتے تھے اور قیصرروم کے مقابلے کیلئے منزل بہ منزل چلے جارہے تھے۔
تبوک پہنچ کر آپؐ نے بیس روز قیام فرمایا ، مگر کوئی مقابلے پر نہیں آیا ۔
لیکن آپؐ کا آنا بے کار نہیں گیا۔ دشمن مرعوب ہوگئے اور آس پاس کے
(۵)
قبائل نے حاضر ہوکر سرتسلیم خم کیا۔ اہل جربہ، ادرح اور ایلہ کے فرمانروا
نے حاضر خدمت ہوکر صلح کی اور جزیہ دینا منظور کیا ۔ آپؐ نے ان کو صلح نامہ
لکھوا کر عطا فرمایا۔
غزوہ تبوک سے واپسی پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ، جو مسلم معاشرے کے نظم
وضبط کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ غزوہ میں تمام مومنین صادقین نے شرکت کی اور
منافقین مختلف بہانے بنا کر مدینے میں رہ گئے۔ جب رسول اﷲ ﷺ اپنے لشکر کے
ساتھ مدینہ واپس تشریف لائے تو حسبِ روایت پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے گئے
اور وہاں دو رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد منافقین نے بارگاہ رسالت ﷺ میں آکر
عذر پیش کرنا شروع کردئیے اور قسمیں کھانے لگے ، آپؐان کے عذر قبول کرتے
رہے۔ جبکہ تین صحابہ کرام حضرت کعب بن مالک ؓ ، حضر ت مرارہ بن ربیع ؓ اور
حضرت ہلال ؓ بن امیہ نے سچائی اختیار کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ہم نے کسی
مجبوری کے بغیر غزوے میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس پر حضوراکرم ﷺ نے صحابہ ؓ کو
حکم دیا کہ ان تینوں حضرات سے بات چیت کا سلسلہ بند کردیا جائے۔ چنانچہ ان
کے خلاف سخت بائیکاٹ شروع ہوگیا ۔ لوگ بدل گئے،حتیٰ کہ اُن کے سلام کا جواب
تک نہ دیا جاتا، بقول ان کے زمین اپنی تمام کشادگی کے باوجود ان پرتنگ
ہوگئی تھی۔ خود اُن کی اپنی جان پر بن آئی۔ سختی یہاں تک بڑھی کہ چالیس روز
گزرنے کے بعد حکم دیا گیا کہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں ، جب بائیکاٹ کے
پچاس روز پورے ہوگئے تو اﷲ نے اُن کی توبہ قبول کئے جانے کا مژدہ سنایا :
َ وعلی الثلثۃ الذین خلفوا حتی اذا ضاقت علیہم الارض بما رحبت وضاقت علیھم
انفسھم وظنوا ان لا ملجا من اﷲ الا الیہ ثم تاب علیہم لیتوبوا ان اﷲ ہو
التواب الرحیم O (۹: ۱۱۸)
(ترجمہ: اور اﷲ نے اُن تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول کی جن کا معاملہ مؤخّر
کردیا گیاتھا۔ یہاں تک کہ جب زمین
اپنی کشادگی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی
اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اﷲ سے
(بھاگ کر ) کوئی جائے پناہ نہیں ہے مگر اسی کی طرف۔ پھر اﷲ ان پر رجوع
ہواتاکہ وہ توبہ کریں یقینا اﷲ توبہ قبول
کرنے والا رحیم ہے۔)
اس فیصلے کے نزول پر مسلمان عموماً اور یہ تینوں صحابہ کرام ؓ خصوصاً بے حد
خوش ہوئے۔ لوگوں نے دوڑ دوڑ کر مبارکباد دی۔ خوشی سے چہرے کھل اٹھے اور
انعامات اور صدقات دئیے گئے۔ درحقیقت یہ ان کی زندگی کا سب سے باسعادت دن
تھا۔ اور یہ مسلم معاشرے میں نظم وضبط کی درخشندہ مثال تھی کہ حضور اکرم ﷺ
کے حکم کی تعمیل اس اند از میں ہوئی کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ بائیکاٹ کے
زمانے میں ان تینوں صحابہ ؓ سے کوئی بھی بات نہ کرتا اور نہ ہی ان کے سلام
کا جواب دیتا تھا۔ اور نہ ہی چھپ کر ۔ اور نہ ہی ان کی بیویاں گھر کے اندر
ان سے گفتگو کرتی تھیں۔ اس سے اعلیٰ کوئی مثال نہیں ہوسکتی ۔
رسول اﷲ ﷺ مسلمانوں کا تزکیہ نفس فرماتے ، ان کی تربیت اور تلقین کا سلسلہ
روزِ اول سے جاری تھا ۔ جس کی بدولت مسلم کردار ترقی کرتا
(۶)
چلا گیا۔ دوسری طرف جاہلی کردار کشمکش میں پڑ کر مسلسل پستی کی طرف لڑھکتا
چلا گیا اور آخرکا بالکل غارت ہوگیا۔ مسلمانوں کو باربار صبر کا درس دیا
گیا ، اُن میں برداشت کی قوت اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی صلاحیت پیدا کی
گئی ۔ کبھی تاکید کی گئی کہ اشتعال میں نہ آؤ، کبھی نصیت کی گئی کہ
فرزندانِ جہالت سے نہ الجھو، کبھی ہمت بندھائی گئی کہ ڈھیلے نہ پڑو ،
مایوسی کا شکار مت ہو، کبھی سرکارِ عالی مقام ﷺ نے سکھایا کہ بُرائی کا
جواب بھلائی سے دو اور زیادتیوں پر عفو ودرگزر سے کام لو۔ کبھی تعلیم دی
گئی کہ کسی گروہ کی دشمنی کے جذبے میں آکر انصاف کی راہ سے نہ ہٹو ۔ کبھی
فرمایا گیا کہ مخالفین میں اہلِ جاہ وحشمت کو دیکھ کر ان کے ٹھاٹھ باٹھ سے
ذرا بھی مرعوب نہ ہو اور کبھی سبق دیا گیا کہ نتائج تک پہنچنے کے لئے
عاجلانہ ذہن سے کام نہ لو۔ان کے ہر نفسیاتی اتار چڑھاؤ پر نگاہ رکھی گئی
اور ساتھ ساتھ ان کو فلاح کی راہ سمجھائی جاتی رہی۔ خود سرور کائنات ﷺ نے
اپنے ہر صحابی پر پوری توجہ دی، بہترین موقع پر کبھی نصیحت سے ، کبھی گرفت
سے، کبھی زجر وتوبیخ سے کبھی ناراضگی سے ، کبھی اظہارِ خوشنودی سے کام لے
لے کر مسلمانوں میں نظم وضبط کو پختہ سے پختہ تر کیا۔ جس میں جیسی صلاحیتیں
دیکھیں اور مزاج کی جیسی ساخت پائی اس کو اسی کی ضروریات کے مطابق مشورے
دئیے اور جس میں جس نوعیت کی کمزوری دیکھی ، اس کے سامنے دینِ حق کا ویسا
ہی اخلاقی تقاضا بیان کیا۔ پھر اجتماعی عمل واقدام کے دائرے میں مسلم جماعت
نے جو کچھ طرز عمل دکھایا ، اس پر ہر اہم واقعہ کے بعد سخت تنقید فرمائی۔
بدر واحد کے معرکے ہوں۔ یا صلح حدیبیہ کا معاملہ۔ تحویل قبلہ ہو یا
افسوسناک واقعۂ افک ، ہر اہم تاریخی واقعہ کے بعد ایک طرف مخالفین کا
طرزعمل عوام کے سامنے رکھ دیا۔
مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد رسول اکرم ﷺنے ایک ایسا کام کیا ، جسے پڑھ کر
تاریخ کے طالبعلم حیران رہ جاتے ہیں۔ یعنی انصار اور مہاجرین میں مواخات
(یعنی بھائی چارہ) ۔ اس کے پیچھے یہ بنیادی فلسفہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے
غم خوار ہوں ، مددگار ہوں۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ اس بھائی چارے کا
مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں ، حمیت وغیرت جو کچھ ہو وہ
اسلام کے لئے ہو۔ نسل ، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں ۔ بلندی وپستی کا
معیار انسانیت وتقویٰ کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔
رسول اﷲ ﷺ نے اس بھائی چارے کو ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قرار دیا
تھا جو خون اور مال سے مربوط تھا۔ اس کے ساتھ ایثار وغمگساری اور مُوانست
کے جذبات بھی مخلوط تھے اور اسی لئے اُس نے اس نئے معاشرے کو بڑے ناروا اور
تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔
چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اﷲ
ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی
چارہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت سعد ؓ نے حضرت عبدالرحمن ؓ سے کہا کہ انصار
میں میں سب سے زیادہ مال دار ہوں ، آپ میرا مال دوحصوں میں بانٹ کر نصف لے
لیں اور میری دو بیویاں ہیں، آپ دیکھ لیں ، جو زیادہ پسند ہو، مجھے بتادیں
میں اُسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔ حضر ت
عبدالرحمن ؓ نے کہا کہ اﷲ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے ۔ آپ لوگوں کا
بازار کہاں ہے ؟ لوگوں نے انہیں بنو قینقاع کا بازار بتا دیا۔ وہ واپس آئے
تو ان کے پاس کچھ فاضل پنیر اور گھی تھا۔ اس
(۷)
کے بعد وہ روزانہ جاتے ہے۔ پھر ایک دن آئے تو ان پر زردی کا اثر تھا، حضور
اکرمﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے شادی کی ہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ عورت کو مہر کتنا دیا ہے ؟ بولے کہ ایک نواۃ (گٹھلی) کے
ہم وزن (یعنی کوئی سواتولہ ) سونا۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ انصار نے حضور اکرم ﷺ سے
عرض کیا کہ آپؐ ہمارے اور ہمارے (مہاجر) بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے
باغات تقسیم فرما دیں۔ آپؐ نے فرمایا ، نہیں۔ اس پر انصار نے کہا کہ اگر یہ
ممکن نہیں تو ہمارے مہاجر بھائی ہمارے باغوں میں کام کردیا کریں اور ہم
پھلوں کی تقسیم میں انہیں شریک رکھیں گے۔ چنانچہ اس بات کو تسلیم کرلیا
گیا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ ہجرت کے بعد رسول اکرم ﷺ نے مہاجر
اور انصار میں مواخات یا بھائی چارہ کا جو نظام قائم کیا، اس کو انصاریوں
نے مکمل طور پر دلی رضامندی سے قبول کیااور اس پر بہترین انداز میں عمل
درآمد کیا۔ یہ بھی نظم وضبط کی اعلیٰ مثالوں میں سے ایک ہے۔
کیا دنیا اُن کا ایثار دیکھ دیکھ کر مبہوت نہ ہوتی ہوگی کہ انصار نے اپنے
گھر بار اور اپنے مال ودولت میں نصف حصہ اپنے مہاجر بھائی کے سامنے رکھ
دیا۔ حالانکہ ازل سے انسان دولت کی خاطر اپنے سگے بھائیوں اور حتیٰ کہ اپنے
باپ کا خون بہانے سے باز نہیں آیا، لیکن یہ نظم وضبط کی اعلیٰ ترین مثال
تھی کہ انصاریوں نے اپنے پیارے آقا ومولیٰ ﷺ کے حکم پر اپنے مہاجر بھائیوں
کیلئے اپنی دولت و جائیداد تک پیش کردی۔
کیا عوام کے دل اس مساوات کا سماں دیکھ کر کھنچتے نہ ہوں گے کہ ادنیٰ ترین
غلام خاندانی ہستیوں کے ساتھ اور غریب طبقوں کے افراد اہلِ ثروت کے ساتھ
اور گھر وں سے اجڑ کر آنے والے لوگ مدینہ کے مقامی باشندوں کے ساتھ صفِ
واحد میں کھڑے ہیں ۔ ہر ایک کو اہمیت حاصل ہے، ہر ایک کی عزت ہوتی ہے،
ہرایک کی رائے وزن رکھتی ہے اور ہرایک کو ذمہ داریاں اٹھانے اور جوہر
دکھانے کا موقع ملتا ہے۔ یہ ایک برادری ہے ، جس کے سارے افراد اچھے حالات
میں بھی شریک رہتے ہیں اور تکلیف اور مصیبت میں بھی حصہ دار بنتے ہیں۔ ان
کے غم مشترک ، ان کی مسرتیں مشترک، ان کا سو چنا مشترک اور ان کے اقدام
مشترک ، بھوک کا دور ہے تو اس میں سب سے بڑا حصہ دار سوسائٹی کا قائد ہے
اور خوشحالی کا دور آتا ہے تو اس میں سب سے کم حصہ وہ اپنے لئے لے لیتا ہے۔
جاہلی تصورات کے مطابق اونچے اور نیچے خاندانوں کے درمیان شادی بیاہ کے
تعلقات لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہوں گے۔ رسوم ورواج کی بوجھل بیڑیاں کاٹ
کر سادہ معاشرت کا نہج نکالا گیاتھا، اس کی طرف طبائع از خود کھنچتی ہوں
گی۔ کتنی محبت بھری زندگی تھی۔ کتنی ہلکی پھلکی ، کتنی پُرامن اور کتنی
اطمینان بخش ۔۔۔۔۔۔ !!!!!
اسی طرح رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ کی ریاست کی بنیادیں رکھتے وقت ایک اور عہد
وپیمان کرایا جس کے ذریعہ ساری جاہلی کشمکش اور قبائلی رقابتوں کی بنیاد
ڈھادی اور دورِ جاہلیت کے تمام جاہلانہ رسم ورواج مٹادیئے گئے۔ سیرت ابن
ہشام کے مطابق اُس تاریخی عہد وپیمان کی دفعات مندرجہ ذیل تھیں:
(۸)
" یہ تحریر ہے محمدرسول اﷲ ﷺ کی جانب سے قریشی ، یثربی اور اُن کے تابع
ہوکر ان کے ساتھ شامل ہونے اور جہاد کرنے والے
مومنین اور مسلمانوں کے درمیان کہ:
۱۔ یہ سب اپنے ماسوا انسانوں سے الگ ایک امت ہیں۔
۲۔ مہاجرین قریش اپنی سابق حالت کے مطابق باہم دیت کی ادائیگی کریں گے اور
مومنین کے درمیان معروف
اور انصاف کے ساتھ اپنے قیدی کا فدیہ دیں گے اور انصار کے تمام قبیلے اپنی
سابقہ حالت کے مطابق باہم
دیت کی ادائیگی کریں گے اور ان کا ہر گروہ معروف طریقے پر اور اہل ایمان کے
درمیان انصاف کے ساتھ اپنے
قیدی کا فدیہ ادا کرے گا۔
۳۔ اور اہلِ ایمان اپنے درمیان کسی بیکس کو فدیہ یا دیت کے معاملے میں
معروف طریقے کے مطابق عطاء ونوازش
سے محروم نہ رکھیں گے۔
۴۔ سارے راست باز مومنین اس شخص کے خلاف ہوں گے جو ان پر زیادتی کرے گا یا
اہل ایمان کے درمیان ظلم
اور گناہ اور زیادتی اور فساد پھیلانے کا سبب ہوگا۔
۵۔ اور یہ کہ ان سب کے ہاتھ اس شخص کے خلاف ہوں گے خواہ وہ ان میں سے کسی
کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
۶۔ کوئی مومن کسی مومن کو کافر کے بدلے قتل کرے گا اور نہ ہی کسی مومن کے
خلاف کسی کافر کی مدد کرے گا۔
۷۔ اور اﷲ کا ذمہ (عہد) ایک ہوگا، ایک معمولی آدمی کا دیا ہوا ذمہ بھی سارے
مسلمانوں پر لاگو ہوگا۔
۸۔ جو یہود ہمارے پیروکار ہوجائیں، اُن کی مدد کی جائے گی اور وہ دوسرے
مسلمانوں کی طرح ہوں گے، نہ اُن پر ظلم
کیا جائے گا اور نہ ان کے خلاف تعاون کیاجائے گا۔
۹۔ مسلمانوں کی صلح ایک ہوگی۔ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو چھوڑ کر قتال فی
سبیل اﷲ کے سلسلے میں مصالحت نہیں کرے
گا بلکہ سب کے سب برابری اورعدل کی بنیاد پر کوئی عہد وپیمان کریں گے۔
۱۰۔ مسلمان اس خون میں ایک دوسرے کے مساوی ہوں گے جسے کوئی فی سبیل اﷲ
بہائے گا۔
۱۱۔ کوئی مشرک قریش کی کسی جان یا مال کو پناہ نہیں دے سکتا اور نہ کسی
مومن کے آگے اس کی حفاظت کے لئے رکاوٹ
بن سکتا ہے۔
۱۲۔ جو شخص کسی مومن کو قتل کرے گا اور ثبوت موجود ہوگا، اس سے قصاص لیا
جائے گا، سوائے اس صورت کے کہ مقتول کا
ولی راضی ہوجائے۔
۱۳۔ اور یہ کہ سارے مومنین اس کے خلاف ہوں گے ۔ ان کے لئے اس کے سوا کچھ
حلال نہ ہوگا کہ اس کے خلاف اُٹھ (۹)
کھڑے ہوں۔
۱۴۔ کسی مومن کے لئے حلال نہ ہوگا کہ کسی ہنگامہ برپا کرنے والے (یا بدعتی
) کی مدد کرے اور اسے پناہ دے،اور جو
اس کی مدد کرے گا یا اسے پناہ دے گا ، اس پر قیامت کے دن اﷲ کی لعنت اور اس
کا غضب ہوگااور اس کافرض اور
نفل کچھ بھی قبول نہ کیا جائے گا۔
۱۵۔ تمہارے درمیان جو بھی اختلاف رونما ہوگا، اسے اﷲ عزوجل اور محمدﷺ کی
طرف پلٹایا جائے گا۔ "
اس اعلیٰ حکمت اور دوراندیشی سے رسول اکرم ﷺ نے ایک نئے اسلامی معاشرے کی
بنیادیں رکھیں۔لیکن معاشرے کا ظاہری رخ درحقیقت ان معنوی کمالات کا پرتو
تھا جس سے حضورؐ کی صحبت وہم نشینی کی بدولت صحابہ کرام کی عظیم ہستیاں
بہرور ہوچکی تھیں۔ رسول اﷲﷺ ان کی تعلیم وتربیت ، تزکیۂ نفس اور مکارمِ
اخلاق کی ترغیب میں مسلسل کوشاں رہتے تھے اور انہیں محبت وبھائی چارے ، نظم
وضبط، اور عبادات و اطاعت کے آداب مسلسل سکھاتے اور بتاتے رہتے تھے۔
ایک صحابی نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ کون سے اسلام بہتر ہے ؟( یعنی اسلام میں
کون سا عمل بہتر ہے؟) آپؐنے فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ اور شناسا اور غیر
شناسا سب ہی کو سلام کرو۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبداﷲ بن سلام ؓ کا بیان ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو
میں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا، جب میں نے آپؐ کا چہرۂ مبارک دیکھا تو اچھی
طرح سمجھ گیا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا ۔ پھر آپؐ نے پہلی
بات جو ارشاد فرمائی ، وہ یہ تھی کہ اے لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ،
صلۂ رحمی کرواور رات میں جب لوگ سورہے ہوں تو نماز پڑھو۔ جنت میں سلامتی کے
ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، مشکوۃ)
رسول اﷲ ﷺ فرماتے تھے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں جس کا پڑوسی اس کی
شرارتوں اور تباہ کاریوں سے مامون ومحفوظ نہ رہے۔ (صحیح مسلم، مشکوۃ)
اور فرماتے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں ( صحیح بخاری) اور فرماتے تھے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا
یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا
ہے (صحیح بخاری)۔
اور فرماتے تھے کہ سارے مومنین ایک آدمی کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں
تکلیف ہوتو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اگر سرمیں تکلیف ہوتو سارے
جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ (مسلم ، مشکوۃ ۴۲۲/۲)
اور فرماتے کہ مومن مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض بعض کو قوت
پہنچاتا ہے۔ (متفق علیہ)
اور فرماتے کہ آپس میں بغض نہ رکھو، باہم حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ
پھیرو اور اﷲ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لئے حلال
نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رہے۔ (صحیح بخاری ۸۹۶/۲)
(۱۰)
اور فرماتے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے
دشمن کے حوالے کرے، اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت (براری) میں کوشاں ہوگا
اﷲ اس کی حاجت (براری) میں ہوگا۔ اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی غم اور
دُکھ دُور کرے گا اﷲ اس شخص سے روزِ قیامت کے دکھوں میں سے کوئی دکھ دورکرے
گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اﷲ قیامت کے دن اُس کی پردہ
پوشی کرے گا۔ (متفق علیہ ، مشکوۃ ۴۲۲/۲)
اور فرماتے کہ تم لوگ زمین والوں مہربانی کرو ، تم پر آسمان والا مہربانی
کرے گا۔ (سنن ابی داؤد ۳۳۵/۲، جامع ترمذی ۱۴/۲)
اور فرماتے کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کے بازو
میں رہنے والا پڑوسی بھوکا رہے۔ (شعب الایمان للبیہقی مشکوۃ ۴۲۴/۲)
اور فرماتے کہ مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور اس سے مارکاٹ کرنا کفر
ہے۔ (صحیح بخاری ۸۹۳/۲)
اسی طرح آپ ؐ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیتے تھے اور اسے
ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ شمار کرتے تھے۔
(اس مضمون کی حدیث صحیحین میں مروی ہے، مشکوۃ ۱۲/۱، ۱۶۷)
اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ صدقے اور خیرات کی ترغیب دیتے تھے اور اس کے ایسے
ایسے فضائل بیان فرماتے تھے کہ اس کی طرف دل خودبخود کھنچتے چلے جائیں ،
چنانچہ آپؐ فرماتے کہ صدقہ گناہوں کو ایسے ہی بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو
بجھاتا ہے۔ (احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، مشکوۃ ۱۴/۱)
اور آپؐ فرماتے کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنادے اﷲ اُسے جنت
کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلادے اﷲ
اسے جنّت کے پھل کھلائے گا اور جومسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلادے اﷲ
اُسے جنت کی مُہر لگی ہوئی شرابِ طہور پلائے گا۔ (سنن ابی داؤد ، جامع
ترمذی ، مشکوۃ ۱۶۹/۱)
آپؐ فرماتے کہ آگ سے بچو، اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے ، اور اگر
وہ بھی نہ پاؤ تو پاکیزہ بول ہی کے ذریعے ۔ (صحیح بخاری )
اور اسی کے ساتھ ساتھ دوسری جانب آپؐ مانگنے سے پرہیز کی بھی بہت زیادہ
تاکید فرماتے ، صبر وقناعت کی فضیلتیں سناتے اور سوال کرنے کو سائل کے چہرے
کے لئے نوچ، خراش اور زخم قرار دیتے (ابوداؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ،
دارمی، مشکوۃ ۱۶۳/۱) ۔ البتہ اس شخص کو مستثنیٰ قرار دیا جو حد درجہ مجبور
ہوکر سوال کرے۔
اسی طرح رسول اﷲ ﷺ یہ بھی فرماتے کہ کن عبادات کے کیا فضائل ہیں اور اﷲ کے
نزدیک ان کا کیا اجر وثواب ہے ۔ پھر آپؐ پر جو وحی آتی ، آپؐ اس سے لوگوں
کو بڑی پختگی کے ساتھ مربوط رکھتے۔ آپؐ وہ وحی مسلمانوں کو پڑھ کر سناتے
اور مسلمان آپؐ کو پڑھ کر سناتے تاکہ اس عمل سے ان کے اندر فہم و تدبر کے
علاوہ دعوت کے حقوق اور پیغمبرانہ ذمہ داریوں کا شعور بھی بیدار ہو۔
اس طرح حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی اخلاقیات بلند کیں، ان کی خداداد
صلاحیتوں کو عروج بخشااور انہیں بلند ترین اقدار اور کردار کا
(۱۱)
مالک بنایا، یہاں تک کہ وہ انسانی تاریخ میں انبیاء کے بعد فضل وکمال کے سب
سے اعلیٰ و ارفع درجے پر فائز ہوگئے اور انسانی تاریخ میں ایک مثال بنے۔
جنہوں نے اپنے عمل سے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جو اعلیٰ اخلاق، ایک دوسرے
کی مدد کرنے اور محبت واخوت اور نظم وضبط کا ایسا نمونہ بن گئے ، جن سے آنے
والی نسلیں قیامت تک رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ اسی
لئے فرماتے تھے کہ جس شخص کو طریقہ اختیار کرنا ہو، وہ گزرے ہوئے لوگوں کا
طریقہ اختیار کرے کیونکہ زندہ کے بارے میں فتنے کا اندیشہ ہے۔ وہ لوگ رسول
اﷲ ﷺ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کے ساتھی تھے ۔ اس امت میں سب سے افضل ، سب
سے نیک ، سب سے گہرے علم کے مالک اور سب سے زیادہ بے تکلف ، اﷲ نے انہیں
اپنے رسول کی رفاقت اور اپنے دین کی اقامت کے لئے منتخب کیا، لہٰذا ان کا
فضل پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جس قدر ممکن ہو ان کے اخلاق
اور سیرت سے رہنمائی حاصل کرو کیونکہ وہ لوگ ہدایت کے صراط مستقیم پر تھے۔
(مشکوۃ)
کسی جمی جمائی قیادت اور بنے بنائے ماحول کا مقابلہ کرنا کوئی کھیل نہیں
ہوتا۔ یہ کام لمبے کام ہوتے ہیں ان میں بڑی تکلیفیں اور اذیتیں اٹھانی پڑتی
ہیں اور بڑے ٹھنڈے جوش سے ان معرکوں کو سرکیا جاتا ہے۔ ماحول کی قوت آگے
بڑھنے والوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر برابر کھینچتی رہتی ہے۔ اصلاح کرنے والوں
کو ازسرنو بگاڑ دینا چاہتی ہے۔ ان کے دلوں میں نفوذ کے لئے رخنے تلاش
کرکرکے کوشاں رہتی ہے کہ اپنے عقیدوں ، اپنی رسموں اور اپنی عادتوں کو کسی
طرح پھر ان میں گھسا دے اور کوئی راہ ذہنی مصالحت کی نکال کر پیش قدمی کرے
۔ ناسازگار حالات میں بھی کشمکش جب قوتوں کو مضمحل کردیتی ہے اور ہمتوں کو
پست کردیتی ہے تو بڑے بڑے اولوالعزم لوگوں کے قدم بھی ڈگمگا جاتے ہیں ۔
آدمی کچھ انقلابی قدروں کو چھوڑ کر پرانی قدروں کو قبول کرنے پر تیارہوجاتا
ہے۔ اصول واعتقاد میں نہ سہی ثقافتی آداب واطوار، رہن سہن، وضع قطع میں
بیرونی اثرات قبول کرنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ بس اتنا ساراستہ کھل جائے تو
پھر ماحول اسے آہستہ آہستہ فراخ کرتا چلا جاتاہے۔ اور بالآخر اپنے سارے
لوازم اندر گھسا لے جاتا ہے۔ مگر فاران کی چوٹیوں سے بلند ہونے والی دعوت
حق نے ، جس کی رہنمائی خود کائنات کا خالق وحی کے ذریعے کررہا تھا، مسلم
کردار کی تعمیر میں اس خطرے کا پورا پورا خیال رکھا۔ اسے بہت ہی آہنی ساخت
دی۔ اور تحفظ کی پوری تدابیر اختیار کیں۔ ایک طرف تو اُسے اشدآء علی الکفار
(الفتح ۲۹) یعنی مخالفوں کے مقابلے میں ایک مضبوط چٹان بنانے کے لئے "رحمآء
بینھم" ہونے کا درس دیا اور دوسری طرف غیروں کی تقلید، غیروں سے مرعوبیت،
غیروں سے
رازدارانہ تعلقات اور بے تکلفانہ قرابت رکھنے سے بالکل روک دیا ۔ یہی ذہنی
استحکام جماعت میں پیدا کرنے کے لئے نومسلموں کو حکم تھا کہ وہ ہجرت کرکے
مدینہ منورہ آجائیں۔ اور اگر کسی جگہ زیادہ افراد یکجا ہوتے تو ان سے "بیعت
اعرابی" (یعنی ایسی بیعت جس سے ہجرت واجب نہ ہو) لی جاتی تو ان کو بھی یہ
تاکید ضروری تھی کہ "فارقوا المشرکین " یعنی اہل شرک سے برادری، دوستی ،
شادی بیاہ کے تعلقات نہ رکھو بلکہ اپنی سوسائٹی الگ اٹھاؤ۔ غیرمسلم والدین
کی اطاعت کی تاکید کے ساتھ ساتھ یہ کڑا حکم بھی دیا گیا کہ اسلام سے انحراف
کیلئے کہیں تو "فلا تُطعھما" یعنی اسلام کے خلاف کسی کی کوئی اطاعت نہیں کی
جاتی۔ اُس کردار کی شان یہ تھی کہ وہ نہ ایران کی پرشکوہ
(۱۲)
تہذیب سے متاثر ہوا اور نہ روم کے ٹھاٹھ دار تمدن کے سامنے اس کا دل پسیجا۔
وہ بڑے بڑے درباروں میں اپنی بدویانہ شان کے ساتھ
قالینوں کو روندتا ہوا بغیر اپنی گردن جھکائے پہنچا۔ اور کہنے کی بات اس
طرح کہی جیسے وہ بونوں کے درمیان کھڑا بات کررہا ہو، اس کردار کو ذہنی لحاظ
سے اتنا مستحکم بنا دیا گیا اور ہر قسم کے احساس کمتری سے اسے بالاتر
کردیاگیا تو پھر اسے حریفوں نے میدان جنگ میں بھی پکارا تو اس نے شجاعت
واستقامت کی زندہ ٔ جاوید نظیریں قائم کردیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ کردار
قلتِ تعداد اور کوتاہیٔ اسباب کے باوجود نرم چارہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے
آویزش لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔
اس مسلم کردار کے بے شمار کٹر مخالفین ہوں گے۔ جو اس کا استہزاء کرتے ہوئے
دل ہی دل میں محسوس کرتے ہوں گے کہ یہ ہم سے ہزار درجے افضل اور برتر ہے۔
بے شمار حریف ظاہراً مخالفت کرنے کے باوجود باطن میں رشک کرتے ہوں گے کہ
کاش! ہم بھی اس برادری میں شامل ہوتے۔ اس کردار کو گالیاں دینے والے ، اس
کی ہجو کرنے والے اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے، کبھی کبھی لمحۂ
فکریہ میں پڑکر اپنے آپ سے کہتے ہوں گے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنے آپ
کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ چنانچہ بے شمار مواقع پر مخالفین نے زبانوں سے بھی
اپنا دلی اعتراف بیان کردیا۔ معرکہ ٔ احد کے خاتمے پر جب پہاڑی پر کھڑے
ہوکر ابوسُفیان نے حضرت عمر فاروق ؓ سے دریافت کیا کہ کیا محمد ﷺ قتل ہوگئے
ہیں ؟ اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ بخدا وہ زندہ ہیں اور
تمہاری بات سن رہے ہیں۔ تو ابوسفیان نے کہا کہ اگرچہ ابوقمیہ کہتا ہے کہ
میں نے محمد ﷺ کو قتل کردیا مگر ہم تم کو اس سے زیادہ سچا سمجھتے ہیں ۔ اسی
طرح معاہدہ حدیبیہ سے قبل عروہ بن مسعود ، سفیرِ قریش نے مسلم جماعت کا جو
منظر دیکھا، اسے جن لفظوں میں اکابرِ قریش سے بیان کیا ، وہ اس تاثر کے
گواہ ہیں جو اغیارِ قریش پر برابر پڑ رہا تھا۔ اس طرح قیصر کے دربار میں
ابو سفیان نے جو بیان اسلام کا مخالف ہونے کے باوجود رسول اﷲ ﷺ اور ان کے
صحابہ ؓ کے بارے میں دیا ، وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ دشمنی کرنے والے بھی
حضور پرنورﷺ اور اسلام کی عظمت کا اعتراف رکھتے تھے۔ مدینہ کا تحصیل دار
خیبر کے یہودیوں سے وصولی کرنے جاتا ہے تو اس کی تقسیم کی صحت دیکھ کر وہ
گواہی دیتے ہیں کہ یہی عدل ہے جس پر آسمان وزمین قائم ہیں۔
پھر یہ کہ اپنے ربّ کے حکم پر حضرت محمد مصفطےٰ ﷺ لوگوں کو تاریکیوں اور
اندھیروں سے نکال کرروشنی اور نور کی طرف لانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور
اپنے کاندھوں پر روئے زمین کی اس سب سے بڑی امانت کا بارِ گراں اٹھائے
مسلسل کھڑے رہے۔ یعنی ساری انسانیت کا بوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ اور مختلف
میدانوں میں جنگ وجہاد اور تگ وتاز کا بوجھ اٹھائے رہے۔
آپؐ نے جاہلیت کے اندھیروں میں غرق اس معاشرے کے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے
کا بوجھ اٹھایا، جس کی جڑوں میں جاہلیت رچی بسی تھی اور جہاں معمولی معمولی
باتوں پر تلواریں نکل آتی تھیں اور برسوں خون خرابے کا سلسلہ جاری رہتا
تھا۔ ایسا معاشرہ ، جو شباب اور شراب اورعریانی اور فحاشی اوربہت سے دیگر
گناہوں کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ جب محسنِ انسانیت ﷺ نے ایسے جاہلی
معاشرے سے بہت سے گوہر نایاب ، اپنے صحابہ کرام ؓ کی صورت میں تلاش کرلئے
اور ان کو جاہلیت کی بیڑیوں سے آزاد کرالیا تو ایک دوسرے میدان میں ایک
(۱۳)
دوسرا معرکہ ، بلکہ معرکوں پر معرکے شروع کردئیے۔ یعنی دعوت الٰہی کے وہ
دشمن جو دعوت اور اس پر ایمان لانے والوں کے خلاف ٹوٹے پڑ رہے تھے اور اس
پاکیزہ پودے کو پنپنے ، مٹی کے اندر جڑیں پکڑنے ، فضا میں شاخیں لہرانے اور
پھلنے پھولنے سے پہلے اس کی نموگاہ ہی میں مار ڈالنا چاہتے تھے ۔ ان
دشمنانِ اسلام کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ نے پیہم معرکہ آرائیاں شروع کیں اور ابھی
آپؐ جزیرۃ العرب کے معرکوں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ رُوم نے اس نئی امت کو
دبوچنے کے لئے اس کی سرحدوں پر تیاریاں شروع کردیں۔
پھر ان تمام کارروائیوں کے دوران ابھی پہلا معرکہ ۔۔۔۔ یعنی ضمیر کا معرکہ
۔۔۔۔۔ ختم نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ یہ دائمی معرکہ ہے۔ اس میں شیطان سے مقابلہ
ہے اور وہ انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں گھس کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے
اور ایک لحظہ کیلئے ڈھیلا نہیں پڑتا ۔ حضور اکرم ﷺ دعوت الی اﷲ کے کام میں
جمے ہوئے تھے اور متفرق میدان کے پیہم معرکوں سے نبر د آزما تھے۔ دنیا آپؐ
کے قدموں پرڈھیر تھی مگر آپؐ تنگی ترشی سے گزر بسر کررہے تھے ۔ اہلِ ایمان
آپؐ کے گرداگرد امن وراحت کا سایہ پھیلا رہے تھے مگر آپؐ جہد ومشقت اپنائے
ہوئے تھے۔ مسلسل اور کڑی محنت سے سابقہ تھا ،مگر ان سب پر آپؐ نے صبر جمیل
اختیار کررکھا تھا۔ رات میں قیام فرماتے تھے ، اپنے رب کی بندگی کرتے اور
اس عظیم نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے تھے، قرآن کی ٹھیر ٹھیر کر تلاوت
فرماتے تھے اور ساری دنیا سے کٹ کر اسی کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے ، جیسا کہ
آپؐ کو حکم دیا گیا تھا۔
اس طرح آپؐ نے مسلسل اور پیہم معرکہ آرائی میں بیس برس سے زائد گزار دئیے
اور اس دوران آپؐ کوکوئی ایک معاملہ دوسرے معاملے سے غافل نہ کرسکایہاں تک
کہ اسلامی دعوت اتنے بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئی کہ عقلیں حیران رہ گئیں۔
سارا جزیرۃ العرب آپؐ کے تابع فرمان ہوگیا، اُس کے افق سے جاہلیت کا غبار
چھٹ گیا، بیمار عقلیں تندرست ہوگئیں، یہاں تک کہ بتوں کو پاش پاش کردیا
گیا۔ توحید کی صداؤں سے سار ا عالم گونجنے لگا۔ ایمان جدید سے حیات پائے
ہوئے صحرا کا شبستان وجود اذانوں سے لرزنے لگا اور اس کی پہنائیوں کو اﷲ
اکبر کی صدائیں چیرنے لگیں۔ قاری حضرات قرآن حکیم کی تلاوت کرتے اورمومنین
صادقین اس کے پیغام کو لے کر مشرق اور مغرب اور شمال وجنوب میں پھیل گئے۔
بکھری ہوئی قومیں اور قبیلے ایک ہوگئے ۔ انسان بندوں کی بندگی سے نکل کر اﷲ
کی بندگی میں داخل ہوگیا ۔ نہ کوئی قاہر رہا نہ مقہور، نہ مالک نہ مملوک،
نہ حاکم اور نہ محکوم، نہ ظالم اور نہ مظلوم ، بلکہ سارے لوگ اﷲ کے بندے
اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ اس چرخ کہن نے سرزمینِ عرب پر ایسا نظم
وضبط دیکھا ، جس کی مثال نہیں ملتی ۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے
اور اﷲ کے احکام بجالانے لگے۔ اﷲ نے اُن سے جاہلیت کا غرور ونخوت اور باپ
دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا ۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، گورے
کو کالے پر اور کالے کو گورے پرکوئی برتری نہیں رہی۔ برتری کا معیار صرف
اورصرف تقویٰ قرار پایا۔غرض اس دعوت کی بدولت عربی وحدت، انسانی وحدت اور
اجتماعی عدل وجود میں آگیا۔ نوع انسانی کو دنیاوی مسائل اور اخروی معاملات
میں سعادت کی راہ مل گئی۔ بالفاظ دیگر زمانے کی رفتار بدل گئی ، روئے زمین
متغیر ہوگیا، تاریخ کا دھارا موڑ دیا گیا اور سوچنے کے انداز بدل گئے۔
(۱۴)
اس دعوت سے پہلے دنیا پر جاہلیت کی کارفرمائی تھی۔ اس کا ضمیر متعفن تھا
اور روح بدبودار تھی۔ قدریں اور پیمانے مُختل تھے ظلم اور غلامی کا دوردورہ
تھا۔ فاجرانہ خوش حالی اور تباہ کن محرومی کی موج نے دنیا کو تہ وبالا
کررکھا تھا۔ اس پر کفر وگمراہی کے تاریک اور دبیز پردے پڑے ہوئے تھے ۔
حالانکہ آسمانی مذاہب اور ادیان موجود تھے مگر ان میں تحریف نے جگہ پالی
تھی اور ضعف سرایت کرگیا تھا۔ اس کی گرفت ختم ہوچکی تھی اور وہ محض بے جان
و بے روح قسم کے جامد رسم ورواج کا مجموعہ بن کر رہ گئے تھے۔
جب اس دعوت نے انسانی زندگی پر اپنا اثر دکھایا تو انسانی روح کو وہم
وخرافات ، بندگی وغلامی، فسادو تعفن اور گندگی وانارکی سے نجات دلائی اور
معاشرہ ٔ انسانی کو ظلم وستم، پراگندگی وبربادی ، طبقاتی امتیازات ، حکام
کے استبداد اور کاہنوں کے رسواکن تسلط سے چھٹکارا دلایا اور دنیا کو عفّت
ونظافت، ایجادات وتعمیر، آزادی وتجدد ، معرفت ویقین ، وثوق وایمان ، عدالت
وکرامت اور عمل کی بنیادوں پر زندگی کی بالیدگی ، حیات کی ترقی اور حقدار
کی حق رسائی کے لئے تعمیر کیا۔
ان تبدیلیوں کی بدولت جزیرۃ العرب نے ایک ایسی بابرکت اٹھان کا مشاہدہ کیا
جس کی نظیر انسانی وجود کے کسی دور میں نہیں دیکھی گئی اور اس علاقے کی
تاریخ اپنی عمر کے ان یگانۂ روزگار ایام میں اس طرح جگمگائی کہ اس سے پہلے
کبھی نہیں جگمگائی تھی۔
پھر جو علاقے متعلقہ قبائل کے اسلام لانے، معاہدانہ تعلقات قائم کرنے یا
سیاسی اطاعت قبول کرنے سے مدینہ کی اسلامی حکومت کے زیرنگین آئے تھے ان کو
یونہی چھوڑ نہیں دیا جاتا تھا کہ وہ جس حال میں پڑے ہوں پڑے رہیں اور جو
بھی خیالات و کردار ان میں رائج ہوں ہوتے رہیں۔ بلکہ ان تک دعوت پہنچانے
اور ان میں تعلیم وتربیت کرنے کے لئے مؤثر انتظامات کئے جاتے۔ معاملہ صرف
اتنا نہ تھا کہ قوت کی لاٹھی گھما کرکسی علاقے کو زیرنگین کیا اور پھر
انسانوں کو اندر سے تبدیل کئے بغیر بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کی طرح ہانکتے
پھرتے ۔ اگر ہر چیز تلوار کی نوک سے منوائی جاتی اور ہر تبدیلی ڈنڈے کے زور
سے کی جاتی تو یہ جبّاری چاردن چل سکتی تھی لیکن دل بغاوت پ آمادہ ہوجاتے
اور پھر عوام کی بیزاری کا لاوا پھٹتا تو سارا کیا کرایا غارت ہوجاتا۔ قوت
کے استعمال کا جز اسلام کی دعوت میں دوسرے ہر کام کے مقابلے میں انتہائی
قلیل تھا اور دعوت اور تعلیم وتربیت کا عنصر بہت ہی غالب تھا۔
اصولی نظریوں پر قائم ہونے والی حکومتیں اپنے اندر تبلیغی روح رکھتی ہیں
اور ان کی ساری سرگرمیوں میں مقدم ترین مقصود یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دل اس
اصول اور اعتقاد کو سمجھیں اور اخلاص سے قبول کریں جس پر نظام حیات کی اساس
قائم ہے۔ ان کے تمام کے تمام محکموں کو اپنے مخصوص کاموں کے ساتھ ساتھ اس
مرکزی فرض کو بھی انجام دینا ہوتا ہے۔ ایسی حکومتیں ہر اس مفید ترین چیز کو
مسترد کردیں گی جو ان کے اساسی نظریہ کو نقصان پہنچائے اور ہر اس نقصان دہ
صورت کو بھی اختیار کرلیں گی جو لوگوں کے ذہنوں میں بنیادی اصول کو راسخ
کرے۔ ان کے سامنے تمام مصلحتوں میں سے اہم ترین مصلحت یہی ہوتی ہے کہ شہری
نئے نظام کی روح کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں اور ہم آہنگ رہیں اور اس کے دست
وبازو بن کر اپنے اندرونی جذبے سے کرنے کے کام کریں اورمٹانے کی چیزوں کو
مٹائیں۔
چنانچہ مدینہ کی اسلامی حکومت نے ایک طرف تو یہ اہتمام کیا کہ سخت ترین
جنگی حالات میں بھی ملحقہ علاقوں میں دعوتی اور تبلیغی وفود روانہ
(۱۵)
کئے۔ کم از کم چار مواقع ایسے ہیں کہ جن میں مدینہ سے جانے والے داعیانِ حق
کو شرپسند عناصر نے شہید کردیا۔ دعوت کی راہ میں انتہائی مظلومی کے ساتھ
شہید ہونے والوں کی تعداد کچھ کم نہ تھی۔ غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ خندق
کے تمام مسلم شہداء سے زیادہ تھی۔ بہر حال انتہائی نازک اور مشکل حالات میں
بھی اس بنیادی فریضے سے غفلت نہیں برتی گئی، بلکہ قربانیاں دے دے کر اسے
جاری رکھا گیا ۔ان میں یہ اصحاب بھی شامل تھے (۱) طفیل ؓ بن عمرو دَوسی
(قبیلہ دوس) (۲) عُروہ بن مسعود (ثقیف) (۳) عامرؓ بن شہر (ہَمدان)
(۴) ضِمام ؓ بن ثعلبہ ( بنو سعد) (۵) مُنقِذ ؓ بن حِّبان (بحرین) (۶)
ثُمامہ ؓ بن اُثال (نجد)۔
پھر بعض اصحاب کو مدینہ میں تربیت دے کر انہی کے قبائل میں داعی کے طور پر
مامور کیا گیا۔ اس کے علاوہ بعض قبائل یا افراد کی طرف خصوصی اصحاب کو دعوت
کیلئے مامور کرکے روانہ کیا گیا ۔ جیسے حضرت علی ؓ کو ہَمدان، حزیمہ اور
مذحج کی طرف۔ مُغیرہ ؓ بن شعبہ کو نجران کی طرف، وَبر ؓ بن نخیس کو ابنائے
فارس (فارس کے روساء جو یمن میں مقیم ہوئے)کی طرف۔ مُحیصہ ؓ بن مسعود کو
فدک کی طرف۔ احنف ؓ کو قبیلہ سُلیم کی طرف۔ خالد ؓ بن ولید کو علاقہ مکہ کی
طرف۔ عمرو ؓ بن عاص کو عمان کی طرف اور مہاجر ؓ بن ابی امیہ کو حارث بن
کلاں شہزادہ یمن کی طرف روانہ کیا گیا۔
لیکن اس سے بہت بڑے پیمانے پر اسلامی حکومت نے اپنے سول حکام سے اسلام کی
اشاعت اور دعوت اسلامی کے فروغ کی خدمات لیں۔ اسلامی حکومت کے افسر کچھ
نوکری پیشہ لوگ نہ تھے اور نہ وہ روٹی کمانے کے خیال سے بھرتی ہوئے تھے۔
وہاں تو مقصود صرف کلمۃ اﷲ کو سربلند کرنا اور انسانوں کو بھلائی کے راستے
پر ڈالنا تھا۔ یہ کام تنخواہ کے پجاریوں کے کرنے ہی کا نہ تھا۔ یہ تو صرف
اس نورانی انقلاب کے بے لوث خادموں ہی کی دلچسپی کی چیز ہوسکتی تھی اور ان
ہی کے ہاتھوں یہ ہوبھی سکتا تھا۔ وہ لوگ نہ تو کسی عہدے کا لالچ رکھتے تھے
اور نہ گریڈوں اور ترقیوں کے چکر میں پڑتے تھے۔ ان کو تو عہدے خود پکارتے
تھے اور فرائض خود چن چن کر بلاتے تھے۔اور گزر بسر کے معاوضے پر ان سے
انتہائی اونچی خدمات لی جاتی تھیں۔ یہاں ایک ہی مثال کافی ہوگی کہ عَتاب ؓ
بن اَسِید کو مکہ مکرمہ کا گورنر مقرر کیا گیا تو ایک درہم یومیہ تنخواہ
مقرر کی۔ اس گورنر نے تقریر میں خود کہا کہ "خدا اس شخص کو بھوکا رکھے جو
ایک درہم روزانہ پاکر بھی بھوکا رہا"(ابن ہشام)۔ وہ لوگ اپنے عقیدے اور
اپنے محبوب نظام کے داعی پہلے تھے اور کچھ اور اس کے بعد تھے۔ پس مدینہ کی
حکومت جن لوگوں کو بھی کسی جگہ گورنر ، جج ، تحصیلدار اور مال افسر مقرر
کرتی تھی۔ وہ اپنے اپنے حدود عمل میں توحید کے داعی، اسلام کے معلم اور
اخلاق عامہ کے معمار بھی ہوتے تھے۔ ان حضرات کو جب ان کے فرائض سے آگاہ کیا
جاتا تھا تو اس وقت حضور اکرم ﷺ اس اساسی فرض پر بھی ان کو متوجہ فرمالیتے
تھے۔مثلاً حضرت معاذ ؓ بن جبل کو جُند(یمن ) میں مالی، انتظامی اور عدالتی
فرائض سونپ کر افسر مقرر کیا تو ان کو یہ تلقین بھی فرمائی کہ لوگوں کو
قرآن کی تعلیم دو اور انہیں اسلام کے احکام سکھاؤ۔ پھر انہیں اہل کتاب
مخاطبین کو ملحوظ رکھ کر تفصیل سے دعوت کا اسلوب سمجھایا کہ انہیں توحید کی
دعوت دینا۔ اسے مانیں تو پھر نماز کیلئے کہنااور اس کے بعد زکوۃ کے لئے۔
یہی افسر اکثر وبیشتر اپنے ہیڈکوارٹر میں امام صلٰوۃ بھی ہوتے تھے۔ البتہ
بڑی آبادیوں میں جہاں تقسیم فرائض ناگزیر ہوتی وہاں انتظامی افسروں کے ساتھ
مستقل آئمہ صلوٰۃ کا تقرر بھی کیا جاتا
(۱۶)
جیسے عتاب ؓ بن اَسِید مکہ میں۔ عثمان ؓ بن ابی العاص طائف میں اور ابوزید
ؓ انصاری عمّان میں مامور ہوئے۔
رسول اﷲ ﷺ کے مبارک دور میں سول افسروں کی تعداد کو دیکھا جائے اور ان کے
علاقہ ہائے تقرر کو دیکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسلامی حکومت کی سول
سروس نے اسلام کی روشنی پھیلانے میں کتنا بڑا کام کیا ہوگا۔ پھر وہ داعیان
حق اپنی افسری میں اس عام تصور سے بالکل مختلف تھے ، جو اُ س زمانے میں بھی
تھا اور ہمارے زمانے میں پھیلا ہوا ہے۔ نہ وہ خدا سے بے خوفی ، نہ وہ ٹھاٹھ
باٹھ نہ وہ جور وتعدی نہ وہ عوام سے فاصلے پر رہنا، نہ لوگوں کی ضروریا ت
وحاجات سے غفلت ، نہ ہٹو بچو کی صدائیں، نہ دربانوں اور چاؤشوں کا ہنگامہ،
نہ محلات و قصور ، نہ سلب و نہب ، نہ رشوت ستانی ، نہ خوشامدیوں کے حلقے،
نہ اندھی دادو دہش، نہ شرابوں کے دور، نہ موسیقی کے زیروبم ، نہ رقصاؤں کے
ہجوم۔ وہ سول افسر بالکل ہی نئی قسم کے افسر تھے۔ وہ حاکم نئے انداز کے
حاکم تھے۔ لوگوں کے لئے ان کی حکومت کا تجربہ بالکل نیا تجربہ تھا۔ کم
تنخواہیں لینے والے ، سادہ زندگی بسر کرنے والے، دیانتداری سے فرائض ادا
کرنے والے۔ رعایا سے رحم وکرم کرنے والے ، بے لاگ انصاف پر چلنے والے اور
پھر اپنے اﷲ عزّوجل کے سچے پرستار۔ یہ نیا حاکمانہ کردار دلوں کو مسحور
کرکر کے قریب لاتا ہوگا۔اور پھر جب یہ لوگ سچائی کا پیغام دیتے ہوں گے تو
وہ سیدھا سینوں میں جاگزیں ہوجاتا ہوگا۔ چنانچہ یہ امرِ واقعہ ہے کہ حضرت
ابوموسیٰ اشعری ؓ کو علاقہ زَبِید وعَدن کا حاکم مقرر کیا گیا تو ان کی
دعوت سے وہاں کے سارے لوگ بہت جلد مسلمان ہوگئے۔ اسی طرح جریر ؓ بن عبداﷲ
بَجَلی کو یمن کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے حمیریوں (ڈُوالکلاح
حمیری) پر افسر مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے اتنا اثر ڈالا کہ وہ لوگ دائرۂ
اسلام میں داخل ہوگئے اور اسی خوشی میں انہوں نے چارہزار غلام آزاد کئے۔
گویا حکومت کے سول محکمے اس سرگرمی اور یک جہتی سے متواتر کام کررہے تھے
اور اسی وسیع پیمانے کی تعلیمی مہم کا نتیجہ تھا کہ عرب کی بعید ترین
آبادیوں میں صرف سیاسی نہیں ذہنی اور قلبی انقلاب رونما ہوتا چلا گیا۔ اور
اسی کے ساتھ اخلاقی لحاظ سے کایا پلٹ گئی اور بالآخر عرب کا اجتماعی انسان
بدل کر بالکل نئے روپ میں ابھرا۔
پھر ہمارے آقا ومولیٰ ﷺ خود بھی ایسی معنوی اور ظاہر ی خوبیوں ، کمالات ،
خداداد صلاحیتوں، مجدد فضائل، مکارم اخلاق اور محاسن ِ اعمال
سے متصف تھے کہ دل خود بخود آپؐ کی جانب کھنچے چلے جاتے تھے اور جانیں
قربان ہُوا چاہتی تھیں۔ چنانچہ آپؐ کی زبان سے جو ں ہی کوئی کلمہ صادر ہوتا
صحابہ کرام ؓ اس کی بجاآوری کیلئے دوڑ پڑتے اور ہدایت و رہنمائی کی جو بات
آپؐ ارشاد فرماتے اس پر ایک دوسرے پر سبقت
حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
اسی طرح کی کوششوں کی بدولت حضور اکرم ﷺ مدینے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل
دینے میں کامیاب ہوگئے جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھرپور
معاشرہ تھا اور اُس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت
نے ایک طویل عرصے تک زمانے کی چکی میں پس کر اور اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ
پاؤں مارکر تھک جانے کے بعد پہلی مرتبہ چین کا سانس لیا۔
اور جب ہم مدینے کی ریاست کی بات کرتے ہیں تو یہ محض ایک شہر کی بات نہیں
ہوتی ، یہ تو ایک استعارہ ہے، خود نبی آخرالزماں ﷺ کے
(۱۷)
دور میں اسلامی ریاست کی حدود مدینہ سے نکل کر مکہ اور عرب کے ایک بڑے
علاقے تک پھیل گئیں اور بعد میں صحابہ کرام کی فتوحات کی
بدولت عرب سے لے کر شمالی افریقہ تک اور ایران سے لے کر وسط ایشیا تک
لاکھوں مربع میل کا علاقہ اسلامی ریاست میں شامل ہوگیا ۔ ان تمام علاقوں
میں صحابہ کرام ؓ نے رسول اﷲ ﷺ کا پیغام پہنچایا، لوگوں کا تزکیہ ٔ نفس کیا
اور مدینہ منورہ سے ہزاروں میل دور واقع مسلم علاقوں
میں اُن تعلیمات کا عکس نظر آنے لگا اور وہ فلاحی معاشروں میں تبدیل ہوگئے
۔ جہاں انسانی بھائی چارہ، محبت واخوت، دکھی دلوں کا سہارا،
نظم وضبط اور بہت سی خوبیاں جمع تھیں۔ ان اعلیٰ کرداروں کی بدولت اسلام
تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔
|