جامعہ اسٹوڈنٹس پر پولیس کی وحشیانہ کاروائی کا ایک سال مکمل

طلباء پر کاروائی ہوچکی‘پولس پر کب ہوگی

محترم قارئین کالے قانون سی اے اے اور این آرسی کے خلاف دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئے شاہین باغ احتجاج کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ جس میں پولس نے جامعہ کیمپس میں زبردستی گھس کر نہتے اور بے گناہ طالب علموں کو ڈنڈوں لاٹھیوں اور بندوقوں سے بے تحاشہ مارا تھا پولس ٹیم کی جانب سے طلباء کو سنگسار کردیاگیا تھا پولس لڑکے تو لڑکے لڑکیوں کو بھی نہیں بخشا تھا ۔ہم میں سے تقریباً ہر ایک نے وہ ویڈیوز دیکھے ہوںگے جس میں پولس نہتے بے گنا طالبات پر وحشیانہ کاروائی کررہی تھی اور پے درپے لاتوں اور گھونسوں سے انہیں مار ررہی تھی۔لائبریری میں گھس کر طلباء پر آنسو گیس داغے گئے۔ کتابیں پڑھ رہی طالبات اور اپنی پڑھائی میں مصروف طلباء وطالبات کو پولس ایسے مارر رہی تھی جیسے وہ دہشت گرد ہو۔جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ہم سب نے دیکھی ہے۔ مسلسل ۱۰۰ دن تک جاری رہنے والے اس شاندار اور جاندار احتجاج نے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔

جب اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے کچھ بن نہیں پایا تب انھوں نے نہتے طالب علموں پر پولس کو استعمال کیا ۔۔انہیں مارا تو مارا ساتھ ہی ان پر دیش دروہی کے مقدمات بھی درج کردئے گئے۔ اور ابھی تک اس معاملے میں ۲۵ سے زائد طلباء وطالبات کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اور ان سب کے خلاف چار ج شیٹ بھی دائر کی گئی ہے اور اس کیس کی سماعت بھی عدالت میں دھیرے دھیرے انتہائی سست روی سے جاری ہے۔ کیونکہ قانون اندھا ہوتا ہے اس لئے فیصلہ آنے میں تھوڑا وقت لگ رہا ہے۔ اس زبردست احتجاجی مظاہرے میں ۲۰۰ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے ۸۰ پولس اہلکار اور دیگر طلباء وطالبات بھی شامل ہے۔ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد سے ہی شاہین باغ کی ہڑتال ۱۶ دسمبر سے شروع ہوئی جو مسلسل ۱۰۱ دن تک جاری رہی۔او ر یہ کالے قانون کی مخالفت کرنے والے شاندار شاہین باغ سارے ہندوستان میں بس گئے۔ یہ سب کچھ کرنے کا جرم بس یہی تھا کہ وہ کالے قانون کی مخالفت کررہے تھے۔
لیکن یہاں سب سے بڑا اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے طلباء وطالبات نے جمہوری طرز پر اس کالے قانون کا احتجاج کیا تھا تو انہیں اور ان کی آواز کو دبانے کے لئے انتہائی نچلے اور گھٹیا طریقہ کار کا استعمال کیاگیا اور ان پر پولس نے خوب ہاتھ صاف کئے۔ اور ظلم بھی کئے۔۔اور انہیں ہی گرفتار بھی کیاگیا۔۔۔۔

لیکن کیاجمہوریت میں ایسا کوئی قانون ہے یااس قانون میں ایسا کوئی ایکٹ ہے جس میں یہ بتایا گیا ہوں کہ زبردستی اپنے پاور کا استعمال کرنے والے ان ظالم پولس والوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہوسکتی ہے۔ جنھوں نے آئو دیکھا نا تائو بس جانوروں کی طرح مارتے چلے گئے۔۔۔جنہیں انسانیت نام کی بھی کوئی چیز پتہ نہیں تھی ۔۔جس میں ۲۰۰ سے زائد زخمی ہوگئے تھے اور ایک دو طالب علمو ںکے آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی تھی۔۔۔۔مطلب یہ کہ قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اڑانے لگے اور اپنے من کی کرنے لگے تو انہیں مکمل چھوٹ دی جاتی ہے اور ان پر قانون کا کوئی شکنجہ نہیں کسا جاتا۔۔۔۔یہ تو سراسر نا انصافی اور ظلم ہوا نا۔۔۔کہ اب تک ان پولس والوں کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان پر کوئی کاروائی کی جارہی ہے۔ وہ مست اپنی زندگی جینے میں مصروف ہیں۔ ۔۔۔واہ بھائی واہ۔۔۔یہ تو کمال ہوگیا۔۔۔۔آخر کب کاروائی ہوگی ان پولس والوں پر ؟ آخر کب انصاف ملے گا جامعیہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء وطالبات کو جنھوں نے جواں مردی دکھاتے ہوئے ۔۔۔اپنے فولادی اور ۵۶ انچ کے سینوں کو سامنے رکھا تھا۔۔۔بزدلوں کی طرح پیٹ دکھا کر نہیں بھاگے تھے۔ ۔۔۔ایک دوسرے کی پرواہ کئے بغیر کالے قانون کی ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کی تھی۔

اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے طلباء وطالبات بتاتے ہیں کہ جس طرح سے پولس نے ہم سب پر ظلم کیا اس کو بھول پانا آسان نہیں ہے۔ آج بھی وہ واقعات مجھے خواب میں آجاتے ہیں اور میں سو نہیں پاتا ہوں کہ کس طرح سے پولس نے بربریت کا ننگا ناچ کھیلا تھا۔ ہم سب بھاگ رہے تھے۔ کسی کا پیر ٹوٹ گیا تھا کسی کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔۔۔تو کوئی اپنے سر سے بہہ رہے خون کو روکنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔اور ہم سب اپنی جان بچانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے کالے قانون کی مخالفت بھی کررہے تھے۔
ایک طالبہ بتاتی ہے کہ ۱۵ دسمبر کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ ایک سال ہوگیا ایسا لگتا ہے کہ یہ بس کل ہی کی بات ہے۔ہم بھول نہیں پارہے ہیں وہ سب واقعات کو۔

ایک طالب علم بتاتا ہے کہ جب پولس اپنی پاور کا استعمال کررہی تھی تب میرے خاص دوست مصطفی بھی وہاں موجود پولس کے ڈنڈوں کو اپنے ہاتھوں سے بچا رہے تھے اپنے سر کو بچا رہے تھے لیکن پولس تھی کہ انہیں بے تحاشہ کدھر بھی مارے جارہی تھی۔ لیکن جب معاملہ تھما تو میں نے دیکھا کہ مصطفی بھائی کے دونوں ہاتھ ٹوٹ چکے تھے۔پولس نے انہیں اتنا مارا تھا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں تھے۔ وہ میرا منہ دیکھ رہے تھے اور میں ان کا منہ دیکھ رہا تھا۔

ہم دونوں کے آنکھوں میں بے تحاشہ آنسو تھے جو رکنے کے نام نہیں لے رہے تھے۔ کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہوگیا۔

دہلی کے ایک سوشل ایکٹوسٹ جو اس دھرنے میں شروع سے جڑے ہوئے تھے وہ بتاتے ہیں کہ یہ لڑائی دراصل وچاروں کی لڑائی ہے اور اس لڑائی کو لڑتے ہوئے انہیں لگتا ہے کہ شاید ۱۰۰ سال ہوگئے ہیں اور یہ نظریہ کی لڑائی اب یہاں رکنے والی نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دراصل اس ملک میں آر ایس ایس ہی لیڈ کررہا ہے اور ان کا مقصد اس ملک کو ہندوراشٹر بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان گذرے۱۰۰ سالوں میں آر ایس ایس نے مسلمانو ںکے خلاف ایک پروپیگنڈہ کھڑا کیا اور ہندو مسلم کے درمیان ایک نفرت کی لکیر کھینچ دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی تمام تنظیمیں اس کالے قانون کی خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبادینا چاہتے ہیں تاکہ اس ملک سے مسلمانوں کو اور سیکولرازم کو زندہ رکھنے والوں کو نکال باہر کیا جائے۔ کیونکہ سی اے اے قانون کو لاگو کرنے کا مقصد ہی ان کے نظریات کو پورا کرتا ہے اور ان کے منشور کو اس ملک میں تھوپنے کی پہلی کڑی بھی ہے۔

اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے دیگر طالب علم بتاتے ہیں کہ ہم لوگ لائبریری میں پڑھائی کررہے تھے۔ اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب پولس والے بے دردی سے ہمارے ساتھیوں کو مارتے ہوئے لائبریری میں گھسنے لگے ہیں لیکن ہم نے اپنے بچائو کے لئے لائبریری کے دروازوں کو اندر سے مضبوطی سے بند کرنے کے لئے بہت سارے ٹیبل اور کرسیاں لگادی تھی لیکن پولس نے ان دروازوں کو توڑ کر لائبریری میں گھس گئے اور اپنے پاور کا غلط استعمال کرنے لگے۔پولس کو مارنے کا حکم صرف پیروں ہے لیکن پولس ہمارے سروں پر لاٹھیاں برسارہی تھی اور انتہائی بے دردی سے مارے جارہی تھی۔۔۔۔جامعہ کی ایک قابل طالبہ عائشہ رینا اپنے ساتھی سیف الاسلام کے ساتھ بتاتی ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شاید ایسا ہوا ہوگا کہ پولس نے کسی یونیورسٹی میں گھس کر اپنے پاور کا غلط استعمال کیا۔لیکن ہم خوش بھی ہیں کہ اوکھلا کے باشندوں نے گاندھی مارچ میں ہمارا مکمل ساتھ دیا۔ہم جب گاندھی مارچ کرنے کے لئے وہاں جمع ہوئے تھے تب میں ہوسٹل سے کھانا کھاکر واپس آرہا تھا کہ اچانک ہمیں آنسو گیس کے گولے نظر آنے لگے۔ میرے دوست عصر کی نماز سے فارغ ہو کر لائبریری میں جاکر بیٹھنے لگے۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد ہی پتہ نہیں پورا کیمپس آنسو گیس کے گولوں سے بھرنے لگے جہاں وہاں بس آنسو گیس ہی نظر آنے لگے ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے آنا فاناً میں بے رحم پولس کب اندر گھسی پتہ ہی نہیں چلااور ہمارے اوپر لاٹھیوں اور لاتوں سے مار پیٹ ہونے لگی۔۔۔پھر ہم نے اپنے آپ کا بچائو تو دور ایک دوسرے کو سنبھالنے لگے تو پولس نے ہمارے سروں پر لاٹھیاں برسانا شروع کردی۔

کیا ایسا کوئی مارتا ہے کیا۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ان پولس والوں میں نامر د آر ایس ایس کے غنڈے بھی شامل تھے جو ہمیں بے تحاشہ مارے جارہے تھے۔ جن کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر آپ لوگوں نے دیکھی ہوگی۔

جامعہ کی ہی ایک طالبہ بتاتی ہیں کہ وہ پولس والے اس طرح سے ہمارے ساتھیوں کو ماررہی تھی جس سے لگتا تھا کہ وہ ہمیں منتشر نہیں کرنا چاہتی بلکہ وہ ہمیں ماردینا چاہتی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ جس طرح سے پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں جب کبھی بھی احتجاج او رمظاہرے ہوتے ہیں اس میں اسٹیٹ پولس کا کوئی رول نہیں ہوتا ہے لیکن یہاں پتہ نہیں بھاجپ کے راج میں کیجریوال نے آر ایس ایس کی چڈی پہن کر اس بات کا ثبوت دے دیا تھا کہ وہ اندر سے دراصل فرقہ پرست ہی ہے۔ کیجریوال نے اس دوران کوئی بھی پریس کانفرنس نہیں کی اور نہ ہی کسی طرح کا اس نے بیان دیا کہ یہ پولس والوں نے طلباء وطالبات کے ساتھ غلط کیاہے۔۔۔۔وہاں کی طالبات بتاتی ہے کہ پولس کی اس وحشیانہ کاروائی کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے نہ ہی گورنمنٹ نے اس کالے قانون کے خلاف کوئی ردوبدل کیا ہے اور نہ ہی ان پولس نما غنڈوں کے خلاف کوئی کاروائی کی ہے۔ این آر سی اور این پی آر کوختم کرنا تو دور آئے دن کوئی نہ کوئی بھاجپائی یا آر ایس ایس کا غنڈہ یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ پہلے یوپی میں تو کبھی آسام میں این آر سی لاگو کریںگے۔اور مسلمانوں کو اس ملک سے نکال باہر کریں گے۔

جامعہ کے سابق طالب علم چندن کمار بتاتے ہیں کہ ان کو اور ان کے دوست کو ۱۵ ۔۔۱۵ اور ۲۰۔۔۔۲۰ پولس والوں نے باتھ روم سے نکال نکال کر مارا تھا۔اور وہ ماں بہن کی انتہائی گندی اور غلیظ گالیاں بھی دے رہے تھے۔ اس دن تو ہر پولس والا اتنی خطرناک اور بھدی گالیاں دے رہا تھا مانو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ قانون کے رکھوالے نہیں قانون کے توڑنے والے لوگ ہیں جو مجھے گالیاں بھی دے رہے تھے او رمار بھی رہے تھے جس سے میرا سر پھٹ گیا تھا میں اور میرا دوست غنودگی کے عالم میں ادھر سےادھر بس بھاگ رہے تھے ۔۔۔۔اورتواوراس دوران کیمپس میں ایمبولنس کو بھی نہیں آنے دیا جارہا تھا۔بڑی مشکل سے کافی دیر کے بعد کیمپس میں ایمبولنس کو آنے دیا گیا تب کہیں جاکر ہم لوگوں نے اپنا علاج کروایا او رمرہم پٹی کروائی۔۔۔۔۔میرے عزیز دوستو آج اس واقعہ کو۔۔۔۔ پولس کی اس درندگی کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے لیکن جامعہ کے وہ تمام جاں باز آج بھی ایک ڈ ر کے مارے سکون سے سو نہیں پارہے ہیں ۔نیند سے اچانک جاگ اٹھتے ہیں کہ خواب میں انہیں وہی سارے منظر دکھائی دینے لگتے ہیںجو انہیں ایک سال پہلے پولس کی بربریت کے سہنے پڑے تھے ۔۔۔جامعہ کے کیمپس میں طلباء اب زیادہ بیٹھنے نہیں لگے ہیں انہیں ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں کسی طرف سے کوئی پولس والا آکر ان پر ڈنڈے نہ برسانے لگے۔۔۔۔

دوستو ایک ڈر کا ساماحول بن گیا ہے۔ جس کو طلباء اپنے اندر سے نکال نہیںپارہے ہیں۔طلباء کا کہنا ہے کہ ہمیں سکون اور اطمینان کے ساتھ ساتھ قانون پر اس وقت مکمل بھروسہ اور اعتماد حاصل ہوگا جب عدلیہ ان پولس والوں پر کاروائی کرے گی جنھوں نے نہتے طلباء وطالبات پر اپنے چارج کا غلط استعمال کیا تھا۔اب دیکھتے ہیں ۔۔۔کب تک عدلیہ ان پولس والوں پر کاروائی کرے گی۔۔۔یا نہیں کرے گی بتا نہیں سکتے۔۔۔۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر حکومت زبردستی کالے قانون نافذ کرنے کی دوبارہ کوشش کرے گی تو ہم پھر سے شاہین باغ آباد کریں گے او رپھر سے جامعہ کے اسٹوڈنٹس سڑکوں پر اتریں گے اور پھر سے دوسری آزادی کی روح پھونک دیں گے۔ ۔۔۔۔اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہم سب کی ہر شر اور چال سے حفاظت فرماتے ہوئے۔ ظالم جابر حکمرانوں کو یاتوہدایت دے دے یا پھر انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے فیصلے فرمادے۔۔۔اللہ آپ تمام کو اپنی حفظ وامان میں رکھیں۔۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔اللہ حافظ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 45991 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.