معاشیات سے متعلق سوال وجواب

سوال(1):ایک مسئلہ یہ کہ کسی کمپنی کے جائز products سیل کرنے پر کمیشن دیا جاتا۔ایک لاکھ کا پروڈکٹ سیل کریں تو 25 فیصداور 5 لاکھ کا سیل کریں تو 40 فیصد کمیشن ملتا ہے اور اس کمپنی میں شامل ہونے کے لئے نقدا 70000 يا قسطوں میں 77000 ادا کرنا ہوتا ہے۔ کمپنی کے founder کے مطابق یہ investment ہے اور اس کے بعد training دی جاتی ہے اور ہاں بعد میں 70000میں سے آدھے سے زیادہ واپس بھی کر دیا جاتا ہے تو اس پراسیس میں کوئی غیر شرعی امر تو نہیں ہےرہنمائی فرمائیں گے۔
جواب: کسی بھی تجارت میں شامل ہونے اوراس کی مصنوعات بیچنے کے لئے ہمیں صرف جائز مصنوعات کو ہی نہیں دیکھنا ہے بلکہ اس کے اصول وضوابط اور منفعت کے حصول کا طریقہ کار بھی دیکھنا ہوگا۔ صورت بالا میں اگر داخلہ فیس نہ ہوتی تو اس تجارت میں بحیثیت بائع یا مندوب بن کر تجارت کرنے اور نفع کمانے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن داخلہ فیس کی صورت میں ایک طرف ۷۰۰۰۰ ہے تو دوسری طرف منفعت مجہول ہے جس کی وجہ سے یہ تجارت قمار میں داخل ہے چاہے کچھ پیسے یا آدھے واپس ہی کیوں نہ کردئے جائیں ۔آپ کسی کمپنی میں ستر ہزار اس لئے لگارہے ہیں تاکہ اس بنیاد پر فائدہ حاصل کرسکیں اور آپ کا فائدہ یہاں مجہول ہے ،یہی قماربازی میں ہوتا ہے اس لئےکسی مسلمان کے لئے ایسی تجارت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے ۔ ہاں اگر ۷۰۰۰۰ کی قیمت کا سامان تجارت خریدکر آپ اپنی خریدی ہوئی مصنوعات سے تجارت کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال(2):میں سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں بناتا ہوں ، اس میں کچھ حصہ مصنوعی دھات اور نگینے کابھی ہوتا ہے ۔ ان انگوٹھیوں کو آگے تاجروں کو ادھار بیجتاہوں پھر ہمیں کچھ دنوں بعد انگوٹھی کےوزن کےبرابر خالص سونا وچاندی دیتے ہیں اس سونے وچاندی میں میری مزدوری اور مصنوعے دھات ونگینے کی قیمت بھی شامل ہوتی ہے، کیا یہ کاروبار جائز ہے ؟
جواب: یہ کاروبار جائز نہیں ہے ، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سونےوچاندی کو ادھار بیچا جاتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے ، سونا اور چاندی کا کاروبار نقد ہونا چاہئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انگوٹھی میں سونے وچاندی کے علاوہ بھی مصنوعی چیزیں ملی ہوتی ہیں یعنی سونے وچاندی کی مقدار کم ہوتی ہے جبکہ حاصل اس سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔شرعی طورپر سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے بیچتے وقت اتنی ہی مقدار میں سونا لیا جائے گا جتنی مقدار میں سونا تھا اور اتنی ہی مقدار میں چاندی لی جائے گی جتنی مقدار میں چاندی تھی ۔رہا مزدوری کا معاملہ تو اس کو سونے وچاندی کی شکل میں مذکورہ صورت میں حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کاروبار کی ایک جائز صورت تویہ ہے کہ آپ اپنی چیزوں کو تاجروں کے ہاتھوں نقدا بیج دیں ، ادھار نہ رہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ جس قدر سونا اور چاندی استعمال ہوئے ہیں اسی قدر سونا وچاندی حاصل کریں اور مزدوری و مصنوعی دھاتوں کی قیمت الگ سے حاصل کریں ،وہ بھی نقد ادھار نہیں۔ ایک تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی چیزوں کا تاجروں کو وکیل بنالیں ، مالک آپ ہی رہیں گے وہ آپ کے لئے بیچیں گے اور آپ انہیں بیچنے کے عوض جو کمیشن یا مزدوری دینا چاہیں دے دیں ۔
سوال(3): ہمارے یہاں کسان پیاز وغیرہ کی مزدوری کرتے ہیں تو منڈی کے تاجروں سے کھیتی سے قبل اڈوانس رقم لے لیتے ہیں پھر پیاز کی کھیتی کے بعد ان تاجروں سےبازار سے کم قیمت پہ بیچتے ہیں کیونکہ ان سے اڈوانس لئے ہوتے ہیں ، کیا یہ طریقہ درست ہے ؟
جواب : اڈوانس کس حیثیت سے ہے وہ واضح نہیں ہے ، کیا یہ بطور قرض ہے یا پھر پیشگی خریدگی کی رقم ہے ؟ بطور قرض ہے تو بعد میں کم قیمت پر تاجر کا سامان خریدنا سود کہلائے گا لیکن پیشگی خریداری کی ادائیگی ہے تو اس کی صحیح شکل بیع سلم ہوگی ۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ تاجر کسان کو قبل ازکھیتی پیاز ودوسرے سامانوں کی مواصفات کی تحدید کے ساتھ مکمل رقم دیدے اور جب کھیتی ہوجائے تو جتنے کیلو سامان کی قیمت پہلے اداکی گئی ہے اتنا کیلو سامان تاجر کو مہیا کردے ۔ایسی صورت میں قیمت وہی مانی جائے گی جو کھیتی سے قبل طے ہوگئی تھی چاہے بازار میں فروختگی کے وقت جو بھی قیمت ہو۔
سوال(4): کچھ لوگوں کو دیکھاگیا ہے کہ بغیر اجازت وہ کسی مکتبہ کی کتابوں کی تصاویرلیکربیچنے کی نیت سے انٹرنیٹ پہ تشہیر کرتے ہیں ،جب کسی خریدار کی طرف سے مانگ ہوتی ہے تو وہ مکتبہ والوں سے خریدکر آگے انٹرنیٹ کے خریدارکوزیادہ قیمت پہ فروخت کرتے ہیں، شرعا اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب: کتاب بیچنے کی جائز شکلیں تین ہوسکتی ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ پہلے خود کتاب خریدکر اور اس کو قبضے میں لیکر مالک بن جائیں پھر آگے بیچیں ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ بائع کی طرف سے وکیل یا کمیشن ایجنٹ بن کر بیچیں یعنی وہ آپ سے یہ کہے کہ فلاں کتاب آپ کوسو روپئے میں دیتا ہوں آپ آگے جتنے پر بیچیں یا یہ کہ کتاب کی تعداد یا قیمت کے اعتبار سے کمیشن متعین کرلیں ۔ ایک تیسری شکل یہ ہے کہ آپ مشتری کی طرف کمیشن ایجنٹ بن کر کتاب بیچیں ۔ یہاں جو صورت ہے وہ شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے ، بیچنے والا کتابوں کو اس طرح بیچ رہا ہے جیساکہ وہ ان کتابوں کا بروقت مالک ہے اور وہ کتاب اس کے پاس موجود ہے جبکہ حقیقت میں وہ کتاب اس کے وقت پاس موجود نہیں ہوتی ہے ۔ اسلام نے ہمیں ایسی چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جس کے ہم مالک نہیں ہیں ۔
سوال(5): کئی کرکٹ ٹیم مل کر ٹورنامنٹ کھیلتی ہے ،اس ٹورنامنٹ میں شریک ہونے والی تمام ٹیمیں داخلہ فیس جمع کرتی ہیں ،اسی داخلہ فیس سے جتنے والی ٹیم کو انعام دیا جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب: اس طرح کا ٹورنامنٹ جوا کی قسم سے ہے کیونکہ ایک طرف رقم معروف ومتعین ہے جبکہ دوسری طرف فائدہ مجہول ہے یعنی شرکت کرنے والی ٹیم جتنی رقم لگارہی ہے ہوسکتا ہے وہ رقم ہار جائے یا ہوسکتا ہے اس سے کئی گنا جیت لے یہی حال جوا کا ہے اس لئے یہ عمل صحیح نہیں ہے۔
سوال(6):سپاری (چھالیہ)جو پان میں کھائی جاتی ہے اس کا کاروبار کرنا کیسا ہے ؟
جواب: عموما سپاری کا استعمال پان اور مختلف قسم کے گٹکھوں میں ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں جسم کو مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا کرنے والی ہیں بلکہ موت کے دہانے پر پہنچانے والی ہیں ، یہ بغیر دھوئیں والا سگریٹ ہے مگر نقصان میں سگریٹ سے بھی بڑھ کرہےحتی کہ جو کوئی میٹھی سپاری یا صرف سادہ سپاری کھاتا ہے وہ بھی سپاری کے نقصانات اٹھاتا ہے ،اس میں بدبو کے علاوہ دانتوں کے سڑنے اورجھڑنے کا چالیس فیصد امکان بڑھ جاتا ہے۔محض سپاری سے سیکڑوں قسم کی زہریلی اشیاء تیار کی جاتی ہیں اور روزانہ ان کے سبب بے شمار اموات ہوتی ہیں گویا سپاری کاایک کاروباری ہزاروں انسان کا قاتل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں طبی رپورٹ چھالیہ کو مضر بتلاتی ہے تو دوسری طرف کئی ممالک میں اس پرپابندی بھی عائد ہےاس لئے ایک مسلمان کے لئے سپاری کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے ، ہاں اگراس کا کوئی مثبت استعمال ہو مثلا بطور علاج تو بس اسی قدر استعمال کی گنجائش ہوگی۔
سوال(7): میں نے کپڑے کی دوکان کھولی ہے اور میرا ارادہ یہ ہےکہ شرعی طورپر کاروبار کروں ، اس لئے مجھے یہ بتائیں کہ کپڑوں پر کتنا نفع لے سکتے ہیں ، کیا اسلام نے کوئی قید لگائی ہے ؟
جواب: اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے کاروبار میں برکت دے اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو حلال طریقے سے تجارت کرنے اور حلال روزی کھانے کی توفیق دے۔
آپ نے سوال کیا ہے کہ سامان تجارت پرخرید ریٹ سے کتنا زیادہ منافع لے سکتا ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ سامان تجارت میں نفع لینے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، یہ بازار کے اتاروچڑھاؤ پر منحصر ہے اس لئے آپ حالات کے مطابق اپنے سامان کی جو قیمت لگانا چاہیں لگاسکتے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ابوداؤ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں)۔
تجارت میں اصل یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولاجائے، دھوکہ نہ دیا جائے ، سامان کا عیب نہ چھپایاجائے،حرام چیز نہ بیچی جائے، سامان روک پر نرخ چڑھنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ ایک امانتدار تاجر کی طرح تجارت کی جائے۔
سوال(8): کیا فارماسسٹ اپنا سرٹیفکیٹ کرائیے پر دے سکتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ میڈیکل (دوا کی دوکان /فارمیسی) چلانے کیلئے حکومت کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ لگتی ہے جس کیلئے دو سالہ کورس D-Pharm یا چار سالہ کورس B-Pharm کرنا ہوتاہے۔ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد فارماسسٹ حکومت کی جانب سے دوسرے کے میڈیکل پر اپنا سرٹیفکیٹ فارماسسٹ(ملازم) کے طور پر لگا سکتا ہے جس کی ڈیوٹی 8 گھنٹے ہوتی ہے یہاں تک تو درست ہے البتہ اگر کوئی فارماسسٹ صرف اپنی سرٹیفکیٹ لگائےاور وقت نہ دے یعنی سرٹیفکیٹ کرائے پر دے تو کیسا ہے؟
جواب: جس نے فارمیسی ڈپلومہ کیا ہوتا ہے وہ میڈیکل اسٹور کھولنے کا مجاز ہوتا ہے مگر آج کل ہندوپاک سمیت بہت سارے ممالک میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی فارماسسٹ کی ڈگری پہ دوسرا شخص مارمیسی کھولتا ہےاور فارماسسٹ کو بغیر عمل کے محض ڈگری کے بدلے میں طے شدہ رقم دی جاتی ہے ۔ اس طرح کسی فارماسسٹ کا اپنی ڈگری کرائے پہ دینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ڈگری (شہادۃ یعنی گواہی )فارماسسٹ کی ذاتی اہلیت کی گواہی ہے ۔ کسی کام کی اہلیت ایسی چیز نہیں ہے جس کو ہم کسی غیرکے حوالے کرکے اس سےکرایہ وصول کرسکیں ۔ اس عمل میں جھوٹ اور دھوکہ شامل ہے ۔
مذکورہ بالا سوال کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی فارماسسٹ اپنی ڈگری کسی فارمیسی کو کرائے پر دیتا ہے مگر وہاں عمل نہیں کرتا اس کا کیا حکم ہے ؟ اس کا وہی جواب ہے جو اوپر دیا گیا ہےیعنی اس میں بھی وہی جھوٹ اور فریب ہے ۔ فارمیسی کی اس ڈگری پہ ظاہر سی بات ہے کسی دوسرے فرد کو مزدوری کرنے کے لئےرکھائے گا جو سراسر جھوٹ اور فریب ہے ، جب وہ ڈگری فارمیسی میں کام والے کی نہیں ہے تو وہ کیسے اس بنیاد پہ وہاں کام کرسکتا ہے، یہ تو محض اہلیت کی گواہی ہے اور اس شخص کے حق میں ہے جس نے اسےحاصل کیا ہے۔بہت سے انجینئر حضرات بھی کمپنیوں کو اس طرح اپنی ڈگری کرائے پر دیتے ہیں ۔مصر کے سلفی عالم دین جنہوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ سے تعلیم حاصل کی پھر کویت کے مدرسہ اور جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی سے منسلک ہوئے ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ڈگریوں کو کرائے پر دینا جائز ہےبطور خاص طبی سرٹیفکیٹ کو فارمیسی کے لئے دینا ، کبھی وہ وہاں کام کرتا ہے اور کبھی کام نہیں کرتا بلکہ سرٹیفکیٹ کی اجرت لیتا ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا کہ غیر کو دے کراس قسم کی ڈگریوں کے ذریعہ تجارتی لائسنس حاصل کرنا اور اجرت لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ عمل جھوٹ اور دجل میں سے ہے ۔
ذرا غور کریں کہ ایک فرد کی وجہ سے کم ازکم تین افراد (سرٹیفکیٹ دینے والا، لینے والا اور اس پر کام کرنے والا ) گنہگار ہورہے ہیں اس لئے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جھوٹ اور فریب والا کام نہ کریں ، اللہ کافرمان ہے : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اور رسول اللہ نے فرمایاکہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
آپ کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو اپنی فارمیسی کھولیں یا جس جگہ اپنی ڈگری لگارہے ہیں وہاں کام کریں اور کام کے عوض مال کمائیں ۔
سوال(9): آج کل اکثر مقامات پر لوگ کمیٹی ڈالتے ہیں ، اس کمیٹی میں ایک شخص حساب وکتاب کے لئے متعین ہوتا ہے ایسے شخص کا اجرت لینا جائز ہے جبکہ کمیٹی والے راضی ہوں اور یہ اجرت لوگوں کے جمع شدہ مال سے کاٹ لی جاتی ہے ؟
جواب: جب سارے ممبران اس بات پر راضی ہوں کہ کمیٹی کا حساب وکتاب کرنے والا شخص ماہانہ یا سالانہ اتنی رقم لے گا اور وہ لوگوں کے حساب وکتاب سے ان کے علم ورضامندی کے ساتھ اپنی اجرت ماہ بہ ماہ یا سالانہ حسب اتفاق کاٹ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(10): انٹرنیٹ پر ایسی بہت ساری کمپنیاں ہیں جن کا ممبر بن کر نفع کمایا جاتا ہے ، ہرممبر بننے والا اپنے نیچے ممبر بناتا چلا جاتاہے اور نفع اوپر سے لیکر نیچے تک تمام درجات کے ممبران کو ملتا ہے ، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ اس میں شامل ہونےکےلئےمقرر ہ قیمت تک کا سامان خریداجاتا ہے جو بازا ر ریٹ سے مہنگا بھی ہوتا ہے اور کتنے سامان ضرورت کے قابل بھی نہیں ہوتے، ایسی کمپنی میں شمولیت اختیارکرکے روپیہ کمانا کیسا ہے ؟
جواب: مذکورہ کمپنی کو ملٹی لیول مارکیٹنگ کہاجاتا ہے اس پر مفصل مضمون میرے بلاگ پرموجودہے ، یہاں مختصرا یہ عرض کردوں کہ ایسی کمپنیوں میں نہ شمولیت اختیار کرنا جائز ہے اور نہ ہی متعدد طبقات کے ممبران کی محنت کھانا جائز ہے کیونکہ یہاں سامان خریدکرکمپنی کا ممبر بناجاتا ہےجس کے مقابلے میں نفع متعین نہیں ہے اس لئے سرے سے اس میں شرکت جائز نہیں ہے اور اپنی محنت سے جوڑنے والے اشخاص کے علاوہ دوسرے افراد کی ممبرسازی کا منافع لینا بھی جائز نہیں ہے ۔
 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.