اسلام اور اسلامو فوبیا کی حقیقت

یہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، اسلام نے دنیا کے تمام انسانوں کو احترام، شرف اور عظمت کے اعلی مقام پر پہنچایا ہے۔ تفریق اور نفرت کے خلاف اسلام نے لوگوں کو ا بھارہ ہے اور باہم محبت اور پیار کی تلقین کی ہے ۔

مادی ترقی کے اس دور میں جہاں انسانی سماج بےشمارفوائد سے لطف اندوز ہو رہا ہے وہیں اس ترقی نے انسانیت کے ما بین تفریق اور نفرتوں کے سلسلے دراز کئے ہیں، منافقت، مکاری اور سازشوں نے بڑی تیزی سے سماج پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی سعی کی ہے؛ کیونکہ ترقی کے اس زاویہ نے جس طرح انسانوں کا قتل کیا ہے وہ ہم سب کے لئے افسوس کا مقام ہے گویا کہ اس وقت پوری دنیا میں انسانی قدریں سستی ہوتی نظر آرہی ہیں - قوموں، ملکوں اور تہذیبوں میں زبردست تصادم ہے، فرقہ وارانہ زیادتیاں اپنے عروج پر ہیں، حدتو یہ ہےکہ مسلکی اختلافات نے بھی انتہا پسندی کی راہ اختیار کرلی ہے جس کی نظیریں گاہ بگاہ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں، دشمنانِ اسلام نے ففتھ جنریشن وار سے بہت ہی خاموشی سے مسلمانوں کو آپس کے باہمی اختلافات میں الجھا کر اور خود اسلام پر حملہ آور ہو گیا۔

آج دنیا میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ کرنے کے لئے اسلامو فوبیا کا لفظ استعمال کثرت سے کیا جارہا ہے ماہرین لسانیات کے مطابق xenophobia مشتق ہے جو ایک قدیم اصطلاح neologism کی جدید سکل ہے - اس کو عربی میں الرھاب کہا جاتاہے یعنی ہر چیز سے دہشت کرنا - گویا یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس میں آدمی ہر چیز سے ڈر محسوس کرتا ہے مثلاً اونچی جگہ سے خوف زدہ ہونا شور وشغب سے خوف زدہ ہونا اسی طرح اظہار رائے کی آزادی اور تنہائی وغیرہ سے خوف زدہ ہونا وغیر اس میں شامل ہیں - مگر اب اسلام دشمن عناصر نے لفظ phobia کو اسلام کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا ہے- یہ پروپیگنڈہ تقریبا پچاس یا چالیس سال سے کیا جارہا ہے لیکن اس میں تیزی نائن الیون کے بعد آئی ہے -

اسے وقت پوری دنیا میں عمومی طور پر اور مغربی ملکوں یورپ وامریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدید سے شدیدتر ہوتی جارہی ہے، مسلمانوں کے ساتھ ناروا، بے جا اور امتیازی سلوک نیز اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس شخصیات ومقامات کی توہین اور اس کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کے واقعات اب مغرب میں آئے دن کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ فلسطین، چیچنیا، میانمار اور شام پر استعماری قوتوں کا جبر، فرانس میں حجاب پر پابندی، سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی، چین میں روزہ رکھنے پر حکم امتناعی، ڈنمارک اور فرانس میں پیغمبر اسلام کے اہانت آمیز کارٹونوں کی اشاعت، امریکہ میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات ان تمام باتوں کے پس پردہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کی دل آزاری کا جذبہ کار فرما ہے۔

اگر یوں کہا جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ ایک پوری سوچ ہے جو مغرب کے ایک طبقے میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ سوچ نفرت سےعبارت ہے، اس سوچ کا ایک ہی مقصد ہے، وہ یہ کہ اسلام کی دعوت کا راستہ روک دیا جائے۔

یہ ایجنڈا انسانوں کا نہیں شیطان کا ایجنڈا ہے۔ اس کا ہتھیار نفرت ہے، نفرت کا یہ زہر اس نے مسلمانوں میں سے بعض نادانوں کو بھی پلایا اور مغرب کے بعض احمقوں کو بھی، مگر مغرب ہو یا مشرق شیطان کو ہر جگہ شکست ہوگی، نفرت کو ہرجگہ شکست ہوگی، انتہا پسندی کو ہرجگہ شکست ہوگی۔

ماہرین کا ماننا یہ ہے کہ ہٹلر نے یہودیوں کو جرمن قوم اور جرمن تہذیب کا دشمن قرار دیا تھا اس لئے جرمن معاشرہ بذات خود اس دباؤ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تھا - یہ سب کچھ سازش کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا - میڈیا کی ترجمانی عموما جانبدار ہوتی ہے کبھی بھی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا ہے اس حقیقت کا اعتراف Christopher Allen نے اپنے ایک مضمون میں کیا کہ "ذرائع ابلاغ عقائد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتےہیں حتی کہ حقیقت اور افسانوں میں فرق نہیں رکھتا -"

جو اخبارات مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ان کا یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے - ایسا ہی بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں جرمنی ہٹلر اور اسکی پارٹی نے کیا تھا - یہودیوں کے خلاف پروپیگنڈہ میں انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا - ان کو انسانیت کے دائرے سے خارج کیا گیا اسکے جو منفی نتائج بر آمد ہوئے وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔تاریخ بتاتی ہےکہ جرمنی نے دنیا کو جنگ عظیم میں جھونک دیا تھا - دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی اور جرمنی جیسے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے - انسانیت تاریخ کی بد ترین تباہی سے دوچار ہوئی -

اسی طرح آج جو باتیں پھیلائی جارہی ہیں ان میں یہ بھی سر فہرست ہے کہ اسلام فرسودہ روایات اور رسومات کا مجموعہ ہے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ۔یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ "سٹار ٹی وی اور فاکس نیوز" ایسے ٹیلیویژن چینل ہیں جو اسلامو فوبیا کی تشہیر میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔

اس پروپیگنڈا کا واحد حل وہی ہے جو صدر اول میں تھا، وہ ہے اسلام کی دعوت اور اسلام کے تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ، اسلام کے خلاف تمام نفسیاتی خدشوں کا تدارک خود مسلمانوں کے اپنے عمل میں مضمر ہے۔ مشتعل ہونے اور جارحیت کا جواب جارحیت سے دینے میں نہ صرف اغیار کے پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے بلکہ اس سے خود اسلام کو زک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہمیں مل کر مسائل کے حل کی کوشش کرنی ہوگی۔ مسلمان ایک دوسرے کے معاون بنیں، سیاسی بیداری، تعلیمی ترقی، مسلمانوں کا معاشی استحکام اس سلسلے کے اہم کام ہیں۔ اسلام کی ان تعلیمات کو عام کرنا ہوگا جو موجودہ مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ میڈیا پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے افراد کی تیاری کرنی ہوگی جو میڈیا کے پروپیگنڈے کا فوری اور شافی جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسلاموفوبیا کے واقعات سے مشتعل ہونے کے بجائے ان پر مناسب قانونی چارہ جوئی کی راہ تلاش کرنی ہوگی۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے، ’’تم نہ تو کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے تو تمہیں غالب رہوگے۔"

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 5 Articles with 10405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.