ایک درویش صفت انسان مسعود کھدر پوش

مسعود کھدر پوش 26جون 1916ء کو گمٹی بازار لاہور میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد غلام جیلانی اپنے وقت کے بہت بڑے حکیم تھے ۔انہوں یونانی طب پر تحقیق کرکے بہت ساری کتابیں تصنیف کیں ۔وہ شاہ ایران کے ذاتی معا لجین میں بھی شامل تھے ۔مسعود کھدر پوش نے ابتدائی تعلیم محلے کی مسجد سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال لاہور سے پاس کیا۔گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1939ء میں آپ نے آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا اور مزید حصول تعلیم کے لیے سینٹ جان کالج آکسفورڈ (انگلینڈ) چلے گئے ۔آکسفورڈ کالج سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ وطن واپس آئے تو آپ کی پہلی تعیناتی احمد نگرشہر میں ہوئی ،جہاں انہیں پسماندہ ترین بھیل قبائل کی ترقی اور بہبود کاکام سونپاگیا ۔انہوں نے یہ کام کمال مہارت ، خوب محنت اور لگن سے انجام دیا کہ وہ بہت جلد "بھیل بھگوان " کے نام سے مشہور ہوگئے ۔انہوں بھیل قبائل کو ہندوؤں کے مذموم عزائم سے نہ صرف چھٹکارا دلایابلکہ ان کی مادری زبان کو دوبارہ زندہ بھی کیا ۔قیام پاکستان کے بعد 1946ء میں مسعود کھدر پوش ڈسٹرکٹ کلکٹر نواب شاہ (سندھ ) مقرر ہوئے ۔انہوں نے سندھ کے بے زمین ہاریوں کی پسماندگی ،غربت ،جہالت اور ناگفتہ بہ حالت کو دیکھتے ہوئے ان کی بہتری کے لیے مقدور بھر کوششیں کیں ۔انہوں نے اس وقت مرتب ہونے والی "ہاری رپورٹ "پرجرات مندی کے ساتھ اختلافی نوٹ تحریر کیا اورجو زمنیں انہوں نے آباد کی تھیں ، بے زمین ہاریوں کو ان زمینوں کا جائز اور حقدار قرار دیا ۔اس اختلافی نوٹ پر پورے ملک میں ہلچل مچ گئی اور بڑے بڑے زمینداروں نے حکومتی افراد کے ساتھ مل کر اس اختلافی نوٹ کو ختم کرنا چاہا لیکن عوامی دباؤ کا مقابلہ نہ کرسکے اور حکومت کو یہ رپورٹ جاری کرنا پڑی ۔ اس رپورٹ کی بدولت مسعود کھدر پوش کی اچھی شہرت ہر طرف پھیل گئی اور وہ" مسعود ہاری"کے نام سے مشہور ہوئے ۔اس رپورٹ کی بنیاد پر انجمن حقوق پاکستان کی طرف سے 10جنوری 1992ء کو انہیں بعد از وفات ایوارڈ سے نوازا گیا۔1951ء میں مسعود کھدرپوش کا تبادلہ بطور ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ ہوگیا ۔یہاں پر بھی انہوں نے پسماندہ علاقوں کے غریب عوام کی بہتری کے مشن کو بھرپور طریقے سے انجام دیا اور غریب عوام کے درد کاواپنا دکھ تصور کرتے ہوئے دن رات کام کیا۔ مسعود کھدر پوش نے اس وقت کے صدر پاکستان محمد ایوب خاں اور بھارت کے وزیراعظم جواہرلعل نہرو کے درمیان ہونے والے "سندھ طاس معاہدے " کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس کی زبردست مخالفت کی ۔انہوں نے اپنی جان اور نوکری کی پرواہ کیے بغیرایوب خان کو اس معاہدے کے تاریک پہلوؤں سے آگاہ کیا لیکن ایوب خان نے انہیں اپنی مجبوریوں سے آگاہ کیا اوربالاخر یہ معاہد ہ طے پا گیا۔1972ء میں مسعود کھدر پوش بطور ممبر بورڈ آف ریونیو سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ عوامی فلاح و بہبود ، تعلیم کی بہتری ، زرعی اصلاحات اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے دن رات کوشاں رہے۔

1973ء میں انہوں نے ایک غیر سیاسی تنظیم "تحریک خوشحال پاکستان"کی بنیاد رکھی ۔اس تحریک کا بنیادی مقصد پاکستانیت کو اجاگر کرنا تھا اور لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنا تھا کہ وہ سرزمین پاکستان اور اس کی مصنوعات سے محبت کریں(اس تحریک کا نعرہ تھا ۔"پاکستانی بنو اور پاکستانی مال خریدو"۔ انہوں نے اس تحریک کے پلیٹ فارم پر ملک کے معروف دانشوروں کو اکٹھا کیا تاکہ وہ ملکی حالات کی بہتری کے لیے تجاویز دے سکیں اور ملکی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوسکیں ۔ یہ تحریک پاکستان اور عوام کے لیے ایک خوشگوار جھونکا ثابت ہوئی ۔انہوں نے پنجابی زبان ثقافت اور اس کی تاریخ کی ترویج و اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور پنجاب فورم قائم کیا ۔ان کا یہ خواب تھا کہ پنجاب کے رہنے والے لوگ اپنا تشخص برقرار رکھیں اور اپنی تہذیب و تاریخ پر فخر کریں۔ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے انہوں پنجابی رسالہ "حق اﷲ "بھی جاری کیا اس کے علاوہ پنجابی زبان سے متعلق ان کے مضامین مختلف ملکی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔مسعود کھدر پوش نے تمام زندگی کھدر کا کرتا شلوار زیب تن کیا اور اسی وجہ سے وہ کھدر پوش کے نام سے مشہور بھی ہوئے اوریہ لاحقہ ان کے نام کا ہمیشہ کے لیے حصہ اور شناخت بن گیا ۔مسعود کھدر پوش گہرا ادبی ذوق رکھتے تھے اور علامہ اقبال ؒ کی شاعری کا زیادہ ترحصہ انہیں ازبر تھا ۔انہیں پنجابی زبان سے خاص لگاؤ تھا اور پنجابی کے کلاسیکی شعراء کا کلام انہیں بطور خاص پسند تھا ۔ انہیں بلھے شاہ سے خاس عقیدت تھی ۔اس کی یاد میں قائم ہونے والا "مسعود کھدر پوش ٹرسٹ" بھرپور انداز میں پنجابی زبان و ادب کی اشاعت کے لیے مصروف عمل ہے اور ان کی دختر شیریں مسعود بڑی لگن اور محنت سے اپنے والد کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مصروف عمل ہیں ۔یہ انسان دوست شخص 25دسمبر 1985ء کو اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوا اور کبوترپورہ قبرستان گلبرگ تھرڈ لاہورمیں آسودہ خاک ہوا ۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 783961 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.