مسلمان ایک ایسی قوم ہیں جو امن پر یقین رکھتی ہے۔ ان کا مذہب انہیں دوسروں
کی جان، مال اور عزت کو اپنا سمجھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ لہذا، وہ پوری دنیا
میں بحیثیت انسان پوری انسانیت کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں
ہر جگہ مسلم ممالک میں غیر مسلم محفوظ اور مامون ہیں، انہیں مسلم شہریوں کے
برابر تمام حقوق دیے جاتے ہیں۔ انہیں عدلیہ، فوج اور انتظامیہ میں اعلٰی
درجات دیے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہر جگہ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے
مذہبی رسومات کو مسلم قائدین بھی ان کے ساتھ مل کر مناتے ہیں مگر مغرب نے
بدنام مسلمان کو ہی کر رکھا ہے کہ مسلم ممالک میں اقلیتوں کو حقوق حاصل
نہیں ہیں۔ مشرق وسطی کے ممالک میں قائم معاشرتی اور کاروبار کو دیکھیں، وہ
کسی گورے مرد کو یا غیرملکی اور غیر مسلم کو کسی بھی مسلمان پر ترجیح دیتے
ہیں (وہ ان کے اپنے ہی ملک کا ہے یا کسی اور ملک سے ہے ) ۔ اس کے بعد
افریقی مسلم ممالک وہاں موجود ہیں جو ہمیشہ غیر مسلموں کا کھلے دل سے
استقبال کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اب ایک نظر افغانستان پر بھی ڈالتے
ہیں جسے مغرب نے دہشت گرد ملک کے نام سے موسوم کیا ہوا ہے، جہاں طالبان
وحشی ہیں اور مرد اور خواتین کو اپنا شکار سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بالکل سفید
جھوٹ ہے۔ افغانستان کے حوالے سے کئی ایک صحافی کتابوں میں لکھ چکے ہیں کہ
وہاں کے لوگ اور خاص طور پر طالبان کے بارے میں غلط پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔
ایک خاتون صحافی طالبان کی قید میں رہ کر گئی اور مسلمان ہو گئی تھی۔ اس کا
کہنا ہے کہ خطے میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جسے انسانی حقوق کی خلاف
ورزی کہا جائے یہ مغرب کا واویلا ہے کہ اپنی پالیسی کو آگے بڑھا رہا ہے۔
طالبان وہ لوگ ہیں جنہوں نے غیر ملکی بالادستی کی مخالفت کی تھی یا ہم یہ
کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قوم پر غیر مسلم اجارہ داری قبول نہیں کی
اور ہر جگہ امریکہ اور مغرب کا پول کھولا کہ وہ اسلام کو نقصان پہنچانا
چاہتے ہیں۔ اس پر انہیں وحشی غیر مہذب اور غار کے زمانے کے لوگ کہا گیا۔
ایک طائرانہ نظر اگر ماضی پر ڈالیں تو یہ مغرب اور غیر مسلم تھے جنہوں نے
القاعدہ تیار کی! ان ایجنسیوں نے ہی ایسی تنظیم کا منصوبہ بنایا جو ان کی
پراکسی جنگ لڑ سکے۔ جب انہیں اپنا مقصد حاصل ہوا تو انہوں نے اسے ٹشو پیپر
کی طرح اس القاعدہ کو پھینک دیا لیکن اس وقت تک القاعدہ یا طالبان غیر
مسلموں کی اصل نوعیت کو سمجھ چکے ہیں۔ وہ یو ایس ایس آر کو شکست دینے کے
لئے مسلمانوں کا اور ان کے وسائل کا استحصال کر رہے تھے۔ اس کے بعد ان کی
ضرورت نہیں تھی۔ لہذا، اس طرح کے مسلح تنظیم کو ختم کرنا ضروری تھا تاکہ یہ
ان کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہو۔ اسامہ بن لادن کو بھی اسی طرح استعمال کیا گیا
اسے غیرمسلموں نے غلط استعمال کیا اور پھر اسی کے درپے ہو گئے کہ اسے سمندر
برد کر دیا۔ ساری مسلم دنیا میں ہر جگہ یہی حال ہے۔ مسلمانوں کو ان کے
پاؤں تلاش کرنے میں مدد کرنے کے بجائے غیر مسلم مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر
کھڑا رہ جانے کی بجائے ان کے پاؤں ہی کاٹ چکے ہیں۔ اب ذرا غیر مسلم دنیا
میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا سلوک ملاحظہ فرمائیں۔ نام کی سب سے بڑی اور
دنیا کی بدترین جمہوریت ہندوستان ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ہندوستان نے نہ صرف
مسلمانوں بلکہ تمام اقلیتوں کے حقوق پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہندوستان ایک
ہندو ملک حقوق کی پامالی کرتا ہے لیکن کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دیتا ہے۔
میانمار کی حکومت جو غیر مسلم بھی ہے اور اس نے مسلم آبادی کو ختم اور
برباد کر دیا لیکن مہذب دنیا جو کہ کچھ زیادہ ہی غیر مہذب ہو چکی ہے بالکل
خاموش ہے۔ فلسطینی مسئلہ یو این او کی تشکیل سے پہلے کا ہے او فلسطینی تب
سے اپنے حقوق کی جد و جہد میں لگے ہیں مگر انھیں ہمیشہ انہی کے وطن سے بے
دخل کیا جاتا رہا ہے اور اس ظلم میں ہرگز کمی نہیں کی جا رہی ہے۔ چیچنیا
اور بوسنیا میں ہوتا ہوا ظلم دنیا دیکھ چکی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں
مسلمانوں کی مساجد پر حملے اور مسلمانوں کی جان مال پر حملے معمول ہیں مگر
وائے افسوس کہ الزام پھر بھی بے چارے مسلمانوں پر ہی آتا ہے کہ یہ غیر
مسلموں کو ان کا حق نہیں دیتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بے چارے یمن، شام، مصر،
سوڈان، صومالیہ، لیبیا، عراق، افغانستان، بوسنیا چیچنیا، اور دوسرے بہت
سارے اسلامی ممالک میں غیر مسلم داخل ہوئے، اپن مفادات کی خاطر اپنے ہی
بنائے ہوئے بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا، انسانی حقوق کی حدود کی خلاف
ورزی کی اور بے گناہ مسلمانوں کو ہلاک کیا۔ کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ
مسلم ممالک میں غیر مسلم محفوظ نہیں ہیں؟ درحقیقت، یہ مسلمان ہی ہیں جو نہ
صرف غیر مسلم ممالک مین بلکہ اپنے گھروں اور آبائی علاقوں تک بھی غیر محفوظ
ہیں۔
|