سورۂ انعام میں نور و ظلمات کا ذکر کئی بار آیا
ہے۔ پہلی ہی آیت میں ارشادِ ربانی ہے:’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین
اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے
دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے
ہیں‘‘ ۔ اس آیت میں زمین و آسمان کے ساتھ روشنی و تاریکی کے بعد منکرین
حق اور ان کے شرک کا تذکرہ ہے۔ بظاہر یہ تینوں الگ الگ باتیں ہیں لیکن یہ
پہلو بھی ہے کہ روشنی اور تاریکی کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسی
طرح روشنی سے مراد دعوت حق اور تاریکی اس کا انکار ہے۔اس کے نتیجے میں
انسان دوسروں کو اللہ کا شریک کرنے لگتا ہےاور جتنوں کو ہمسر ٹھہراتا
ہےاتنی تاریکیوں میں بھٹکتا ہے۔ آگے آیت نمبر ۱۵۳ میں فرمایا گیا :’’اور
یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جاؤ
کہ راہ خدا سے الگ ہوجاؤ گے۔ اسی کی پروردگار نے ہدایت دی ہے کہ اس طرح
شاید متقی اور پرہیز گار بن جاؤ‘‘۔ یہاں تاریکیوں کو چھوڑ کر صراط مستقیم
کی اتباع کرنے کی تلقین کرنے کے بعد تقویٰ ا ور پرہیزگاری کی بشارت دی گئی
ہے۔ ان آیات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اندھیرے سے مراد کفر و
شرک کی گمراہی اور راہِ ہدایت کی علامت روشنی ہے ۔
کائنات ہستی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی ہدایت کی خاطر بے شمار
نشانیاں پھیلا رکھی ہیں ۔ سورۂ انعام میں ہی منکرین حق کا یہ اعتراض نقل
کیا گیا ہے کہ :’’ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی
نشانی کیوں نہیں اتری؟‘‘۔ اس کے بعد رب کائنات ان کے اس مطالبے کاجواباس
طرح دینے کا حکم دیتا ہے:’’ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے،
مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں۔ زمین میں چلنے والے کسی
جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری
ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔ مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو
جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں، تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں اللہ جسے
چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے‘‘۔یہاں
آفاق و انفس میں پھیلی ہوئی آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے والوں کی بابت فرمایا
کہ انہوں نے گویا نہ صرف اپنی قوت بینائی و سماعت کو سلب کررکھا ہے بلکہ
تاریکی کو اوڑھ لیا ہے۔
اسی سورہ میں یہ ارشادِ قرآنی بھی ہے کہ :’’کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا
پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ
لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو
تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟‘‘۔ اس آیت سے
معلوم ہوتا ہے کہ اندھیرے میں رہنے کا فیصلہ انسان کا اپنا ہے اور اس سے
نکلنے کی سعی اس کو خود کرنی ہوگی ۔ ایک سوال یہ ہے کہ منکرین حق اندھیرے
سے نکل کر اجالے کی جانب کوچ کیوں نہیں کرتے؟ اللہ کی کتاب میں اس کا جواب
یہ ہے کہ :’’ کافروں کے لیے تو ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں ۔اور
اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں
اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے
ہیں، مگر اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے ‘‘۔یہ آیات موجودہ حالات کی بھرپور
عکاسی کرتی ہیں مگر کتاب اللہ میں غور و فکر کی دعوت بھی ہے فرمایا: ’’ ان
سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت
آ جاتی ہے یا آخری گھڑی آ پہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور
کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ ا س وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر
اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ایسے موقعوں پر تم
اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو‘‘۔کورونا وبا کے دوران اس کیفیت
کا مشاہدہ خوب ہوالیکن اب پھر سے لوگ پلٹنے لگے ہیں ایسے میں داعیان اسلام
کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام الناس کو تاریکی کے خطرات سے آگاہ کرکے راہِ
ہدایت کے روشن سفر کی دعوت دیں ۔
|