کربلا میں اسلام کی عظمت کی خاطر اپنی اور اپنے اہل خانہ
کی جانوں کی قربانی دینے والے عظیم نواسہ رسولﷺ
حضرت حسین بن علیؓ
(تحریر: شبیر ابن عادل)
حضرت حارثؓ کی صاحبزادی نے خواب دیکھا کہ کسی نے حضور اکرمﷺ کے جسم اطہر کا
ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گود میں رکھ دیا ہے۔ انہوں نے آقائے دوجہاں ﷺ سے عرض
کیا کہ میں نے ایک ناگوار اور بھیانک خواب دیکھا ہے۔ خواب سننے کے بعد
حضورؐ نے فرمایا کہ یہ نہایت مبارک خواب ہے۔ فاطمہؓ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا
اور تم اسے گود میں لو گی۔ کچھ دنوں بعد ہی اس خواب کی تعبیر ملی اور ریاضِ
نبویﷺ میں وہ خوش رنگ ارغوانی پھول کھلا، جس کی مہک حق وصداقت، جرأت
وبسالت، عزم و استقلال، ایمان وعمل اور ایثار وقربانی کی وادیوں کو
ابدالآباد تک بساتی اور جس کی رنگینی عقیق کی سرخی، شفق کی گلگونی اور لالہ
کے داغ کو ہمیشہ شرماتی رہے گی۔ وہ ہجرت کا چوتھا سال تھااور تیسری شعبان۔
ولادت باسعادت کی خبر سن کر حضور اکرمﷺ تشریف لائے اور بچے کے کانوں میں
اذان دی۔ پھر حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کو عقیقہ کرنے اور بچے کے ہم وزن چاندی
خیرات کرنے کا حکم دیا۔ والدین نے حرب نام رکھا تھا، لیکن حضور اکرمﷺ کو یہ
نام پسند نہ آیا، چنانچہ آپؐ نے بدل کر حسین ؓ رکھ دیا۔
آقائے دوجہاں ﷺ اپنے چہیتے نواسوں حضرت حسنؓ اور حسین ؓ سے غیرمعمولی محبت
کر تے تھے۔ تقریباً روزانہ دونوں کو دیکھنے کے لئے حضرت فاطمہ ؓ کے گھر
تشریف لے جاتے۔ وہ انہیں اپنے سینے پر بٹھاتے، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور
مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو۔ مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ
آپؐ کی محبت بہت زیادہ تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ رسول اکرمﷺ نماز میں سجدہ
کی حالت میں ہوتے تو حضرت حسینؓ پشت مبارک پر آگئے تو حضور ؐ نے سجدہ طویل
کردیا، جب حسین ؓ اتر جاتے تو سجدے سے سراٹھاتے۔ ایک مرتبہ حضوراکرمﷺ مسجد
میں خطبہ دے رہے تھے کہ حسینؓ مسجد کے دروازے سے داخل ہوئے اور زمین پر
گرگئے۔حضور ؐ نے اپنا خطبہ روکا، منبر سے اتر کر حضرت امام حسین ؓ کو زمین
سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ دیکھو
یہ حسینؓ ہے، اسے خوب پہچان لواور اس کی فضیلت یاد رکھو۔ حضور اکرمﷺ نے
حضرت حسین ؓ کیلئے یہ الفاظ بھی ادا فرمائے کہ حسین ؓ مجھ سے ہیں اور میں
حسین ؓ سے ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ نوجوانانِ جنت کے
سردار ہیں۔ دونوں میرے گلدستے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں
تو بھی ان کو محبوب رکھنا۔چونکہ حضرت علیؓ آقائے دوجہاں ﷺ کے چچا زا د
بھائی تھے، اس حوالے سے حضراتِ حسنین ؓ کو ابن مصطفےٰؐ بھی کہا جاتا ہے اور
حضور اکرم ﷺ کی نسل ان ہی سے چلی۔ حضرت امام حسین سات برس کے تھے کہ آقائے
دوجہاں ﷺ اس فانی دنیا سے پردہ فرما گئے۔
حضرت امام حسین ؓ سے صحابہ کرام بھی بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر
صدیق ؓکے دورخلافت میں میں آپؓ آٹھ نو برس کے تھے۔ وہ حسین ؓ سے بہت زیادہ
محبت اور شفقت سے پیش آتے اور آپؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھاتے۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں حضرت امام حسین ؓ کے لئے پانچ ہزار
ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ جبکہ غزوہ بدر میں شریک صحابہ کے بیٹوں
کودوہزار ماہانہ ملتے تھے، اس سے حضرت حسین ؓ سے حضرت عمر ؓ کی محبت کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حضرت حسین ؓ کی عبادت، زہد، سخاوت، اعلیٰ اخلاق کے سب ہی قائل تھے۔ آپؓ نے
پاپیادہ پچیس حج کئے۔ آپؓ کے دروازے پر مسافروں اور حاجت مندوں کا سلسلہ
برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا۔ اس وجہ سے
آپؓ کا لقب ابوالمساکین پڑگیا تھا۔ راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے
اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں
کوپہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑگئے تھے۔ حضرت حسین ؓ ہمیشہ
فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ
پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارے ہاتھ بیچ ڈالی۔ اب تمھارا فرض یہ
ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو۔ کم سے کم اپنی ہی عزت نفس کا خیال
کرو۔ غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپؓ عزیزوں جیسا برتاؤ کرتے تھے۔آپؓکے علم
وفضل کے سب ہی قائل ہیں، مذہبی مسائل اوراہم مشکلات میں لوگ آپؓ کی طرف
رجوع کرتے تھے۔
حضرت ام فضل ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ امام حسین رضی اللہ عنہ میرے گھر
میں کھیل رہے تھے اور ان کے سامنے حضور اکرمﷺ جلوہ فرما تھے کہ حضرت جبرئیل
علیہ السلام رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ
ﷺ بے شک آپؐ کی امت میں سے ایک جماعت آپؐ کے اس بیٹے کو آپؐ کے بعد شہید
کردے گی، اور آپؐ کو اس مقام کی تھوڑی سی مٹی دی۔ حضور ؐ نے اس مٹی کو سینے
سے لگایا اور روئے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ
مجھ کو جبرئیل نے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسین ؓ میرے بعد زمین طف (جس کو
کربلا کہتے ہیں) میں قتل کیا جائے گا۔
بالآخر حضرت امام حسین عالی مقامؓ کو 10 محرم الحرام سن 61 ھ کو کربلا میں
شہید کردیا گیا۔ ان کے ہمراہ ان کے دیگر اہل خانہ اور جانثار بھی شہید
ہوئے۔ اللہ رب العزت آپؓ پر ہزاروں رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔
|