علم صرف وہی ہے، جو قرآن و سنت کے ذریعے ہم تک پہنچا۔
رسول اللہ ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر پہلا فرض یہ ہے کہ ہم یہ معلوم
کرنے کی کوشش کریں کہ حضور اکرم ﷺ ہمارے لئے کیا تعلیمات اور پیغام لے کر
آئے اور ہمیں کیا کرنا اور کیا چھوڑنا ہے۔ پورے دین کی بنیاد اسی علم پر ہے،
اس لئے ایمان لانے کے بعد ہمارا سب سے پہلا فریضہ اس کا سیکھنا اور سکھانا
ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم و احسان ہے کہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے،
لیکن اللہ کے اس احسان کو ہم ساری عمرمحسوس ہی نہیں کرتے اور اپنی ساری عمر
بے خبری اور لاعلمی میں زندگی گزاردیتے ہیں، یہ ہرگز دانشمندی نہیں۔ اپنے
سارے کاموں میں سے وقت نکال کر علم سیکھنا چاہئے۔ افسوس کے ساتھ ساتھ حیرت
کی بات بھی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو دنیاوی علم سکھانے، مہنگے تعلیمی اداروں
میں داخلے دلوانے اور اپنے تمام وسائل اس کام میں صرف کردیتے ہیں۔ وہ تعلیم
جس کی وجہ سے ان کو بہترین ملازمتیں مل جائیں اور وہ تعلیم جو ریٹائرمنٹ کے
بعد کسی کام نہ آسکے۔ مگر اس تعلیم کی پرواہ بھی نہیں کرتے، جس کے حصول کے
بعد اُن کے بچے ہمیشہ عیش کرسکتے ہیں، مزے کرسکتے ہیں اور آخرت میں کامیابی
حاصل کرسکتے ہیں۔ جو اصل کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی کامیاب
زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس علم کے حصول کے بعد صحابہ کرام ؓ، ان کے بعد کے
ادوار اور آج بھی لوگ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ کیونکہ اس علم کے حصول کے
بعد نہ صرف عبادات میں بہتری آجاتی ہے، بلکہ معاملات بھی بہت سنور جاتے ہیں۔
یعنی مومن بندہ ہی ایک اچھا شہر ی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں
صرف عبادات ہی پر زور نہیں، بلکہ معاشرت، معاملات اور دنیا میں زندگی
گزارنے کے سنہری اصول موجود ہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے اپنے ارشادات عالیہ میں علم دین کا حصول ہر اس شخص کے لائے
فرض قرار دیا ہے، جو حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو اللہ کا پیغمبر مان کر آپؐ پر
ایمان لائے اور اس علم کے حصول میں محنت ومشقت کو ایک طرح کا جہاد فی سبیل
اللہ اور قرب الٰہی کا خاص الخاص وسیلہ اور اس میں غفلت و لاپرواہی کو قابل
تعزیر جرم قرار دیا ہے۔ یہ علم انبیاء کرام کی میراث اور اس پوری کائنات کی
سب سے عزیز اور قیمتی دولت ہے اور جو خوش نصیب اسے حاصل کریں اور اس کا حق
اداکریں، وہ انبیاء کے وارث ہیں۔ آسمان کے فرشتوں سے لے کر زمین کی
چیونٹیاں اوردریا اور سمندرکی مچھلیاں تک تمام مخلوقات ان سے محبت رکھتی
اور ان کے لئے دعائے خیر کرتی ہیں۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں
رکھ دی ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ علم کی طلب و
حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یعنی مسلمان وہی ہے، جس نے دین قبول کیا اور
اپنی زندگی اسلام کی تعلیمات اور ہدایت کے مطابق گزارنے کا فیصلہ کیا، مگر
یہ اسی وقت ممکن ہے کہ مسلمان یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ وہ تعلیمات کیا
ہیں اور یہی علم ہے۔ اس کا حصول علماء سے بھی سیکھا جاسکتا ہے اور کتابوں
سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ ہر مسلمان پر عالم فاضل بننا فرض
نہیں، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے
جتنے علم کی ضرورت ہے، اتنے علم کا حصول فرض اور ضروری ہے۔
مشہور صحابی حضرت عبدالرحمن بن ابزی الخزاعی ؓ کے والد ابزی الخزاعی سے
روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں منبر پر خطاب فرمایا، آپؐ نے
مسلمانوں کے بعض گروہوں کی تعریف فرمائی (کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح
طور پر ادا کرتے ہیں) اس کے بعد آپؐ نے (مسلمانوں بعض گروہوں کو تنبیہ اور
سرزنش کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ کیا حال ہے، ان لوگوں کا (اور کیا عذر ہے،
ان کے پاس) جو اپنے پڑوس والے (ان مسلمانوں کو جو دین سے واقف نہیں ہیں)
دین نہیں سمجھاتے اور دین کی تعلیم نہیں دیتے اور وعظ ونصیحت نہیں کرتے اور
ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں دیتے (اسی کے
ساتھ آپؐ نے فرمایا) اور کیا حال ہے، ان لوگوں کا (اور کیا عذر ہے، ان کے
پاس جو دین اور اس کے احکام سے واقف نہیں ہیں، اس کے باوجود) وہ اپنے پڑوس
میں رہنے والے ان مسلمانوں سے جو دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم حاصل
کرچکے ہیں) دین سیکھنے اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی اور ان کے وعظ
ونصیحت سے مستفید ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ (اس کے بعد آپؐ نے قسم کے ساتھ
تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) کہ وہ لوگ (جو دین کا علم رکھتے ہیں، علم نہ
رکھنے والے) اپنے پڑوسیوں کو لازماً دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان
میں پیدا کرنے کی کوشش کریں، اور ان کو وعظ ونصیحت اور امربالمعروف اور نہی
عن المنکر کیا کریں اور (جو لوگ دین اور اس کے احکام سے واقف نہیں، ان کو)
میری تاکید ہے کہ وہ (دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم رکھنے والے)اپنے
پڑوسیوں سے دین سیکھیں اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ علم کی طلب
وتحصیل میں (گھر سے یا وطن سے) نکلا وہ اس وقت تک اللہ کے راستے میں ہے، جب
تک واپس آجائے۔ (جامع ترمذی)
|