حنیف خان ، بھائی نماز پڑھ کر
واپس آئے امی نے سارا قصہ بتایا بھائی خاموشی سے سنتے رہے ۔ امی نے بھائی
کی رائے پوچھی بھائی نے جواب دیا آپ جو بہتر سمجھیں کر لیں ۔ پیسوں کاا
نتظام کیسے ہو گا ۔بھائی نے کہا اِس پر سوچتے ہیں زیتون نے بھائی کو بتا یا
کہ تقریباً پچاس روپے خرچ ہوں گے ۔ دوسرے دن صبح حنیف خان اپنے استاد کو
ملنے چلے گئے ۔جمعہ سے پہلے واپس آئے زیتون کو بتا یا پیسوں کا انتظام ہو
گیا ہے ۔ کھانا کھا کر جمعہ پڑھنے چلے گئے ۔ پھر شام کو مغرب سے پہلے واپس
آئے اور زیتون کے ہاتھ میں پچاس روپے رکھ دیئے اور کہا سنبھال کے خرچ کرنا۔
مغرب کے کھانے کے بعد بعد لڑکیوں نے زیتون کو بلایا ، حویلی کے صحن کے
بیچوں بیچ دریاں بچھا کر اُ س پر سفید چادریں بچھائی ہوئی تھیں ۔ لڑکیاں
اور اُن کی مائیں بیٹھی ہوئیں تھیں ۔ خاتون ایک چوکی پر بیٹھی تھی سامنے
ایک تھالی تھی جس میں مہندی تھی ۔ تھوڑی دیر میں زیتون کی امی بھی آگئیں
اور ایک طرف عورتوں کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔لڑکیوں نے گیت گانے شروع کر دئے ،
مہندی کی رسم ہوئی ۔ اُس کے بعد سب سونے کے لئے چلے گئے ۔
دوسرے دن ، زیتون بھائی کی سائیکل پر پیچھے بیٹھ کر بھائی کے ساتھ شہر گئی
، ہونے والی بھابی کے لئے خریداری کی ،اور واپس آگئے ۔ہفتے کے دن عصر کے
بعد مسجد میں نہایت سادگی سے نکاح ہوا ۔ اور دلہن اپنے کمرے سے عورتوں کے
ہمراہ کلثوم کی امی کے کمرے میں آگئی جسے حویلی کی لڑکیوں نے دلہن کے کمرے
کے طور پر سجا دیا تھا۔
زیتون کے خاندان میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کے بعد یہ پہلی شادی تھی
بلکہ ، حویلی والے مہاجرین کی بھی یہ پہلی تقریب تھی ۔ چنانچہ حویلی کے
باہر لڑکے بالوں نے خوب کھیل کھیلے ، اُن دنوں پٹے بازی ایک مقبول کھیل
ہوتا تھا ۔بھائی کے فوجی دوست بھی آئے تھے وزن اٹھانے کا مقابلہ بھی ہوا ۔رات
دیر تک ہنڈولوں کی روشنی میں یہ تقریب جاری رہی زیتون بھی دوسرے لڑکیوں کے
ہمراہ دیکھتی رہی ۔ دوسرے دن تھکن کی وجہ سے فجر کے وقت اٹھ نہ سکی ، نیند
میں ماں کی آواز آئی ، ” زیتون اری اُ ٹھ دیکھ تو یہ کون ہے ؟ تیرے ابا کی
آواز لگ رہی ہے “ زیتون نے آنکھ کھولی ، کسی کی تلاوت کرنے کی آواز آرہی
تھی ، ماں کے یاد دلانے پر یاد آیا کہ آواز حیرت انگیز طور پر ابا سے مل
رہی تھی ۔کمرہ کھول کر باہر نکلی ۔ آواز چھت سے آرہی تھی ۔ چپکے چپکے
سیڑھیاں چڑھ کر چھت کی طرف بڑھی گردن اٹھا کر دیکھا ، بھائی کے دوست نائیک
صاحب بڑی دلکش آوازمیں قرآن کھولے تلاوت کر رہے تھے ۔ آہستہ آہستہ دو بارہ
واپس اتر آئی ماں کو بتایا کہ بھائی کے دوست ہیں شائد رات دیر ہو جانے سے
اوپر ہی سو گئے تھے ۔ ناشتہ ، بھائی اور نائیک صاحب نے امی کے ساتھ کیا ۔
ناشتہ بھابی کے گھر والوں کی طرف سے آیا تھا ۔بھائی نے امی کو بتایا کہ
نائیک صاحب سے دوستی کی وجہ ان کی قرآن پڑھتے وقت آواز کا ابا سے ملنا تھا
۔ دوپہر کو ولیمہ ہوا ولیمے کے بعد بھائی سیالکوٹ چلے گئے ۔
ہفتے بعد بھائی دومہینے کی چھٹی لے کر آگئے ۔منگل، 13 جنوری کو امی ، بھائی
اور زیتون بہاولپور کے لئے روانہ ہو گئے ، سخت سردیا ں تھیں ،تین دن یا چار
دن بعد یہ لوگ ، بہاولپور پہنچے سٹیشن پر عبداللہ خان بھائی ، اُن کا بیٹا
حبیب خان اور دوسرے لوگ آئے ہوئے تھے ۔ وہاں سے مہاجر کالونی پہنچے جہاں
بھائی کو مکان الاٹ ہو ا تھا ۔ بھائی نے ساتھ والا مکان بھی لے لیا تھا ۔
گورنمنٹ نے مکان بنانے کا ساما ن دے دیا تھا ، کمرے ان لوگوں نے خود بنائے
۔ بہاولپور ہفتہ رہنے کے بعد تینوں ٹرین میں نواب شاہ روانہ ہو گئے ، چاردن
بعد مغرب کے وقت نواب شاہ پہنچے ،محمد حکیم خان بھائی ، اُن کا بیٹا طیب
خان ، بڑے بھائی ابراہیم خان کے دونوں بیٹے سلیمان خان اور رحمان خان بھی
آئے تھے ۔ رحمان خان نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں ۔ ریلوے سٹیشن سے
مہاجر کالونی پہنچے جہاں چاروں کو ایک ساتھ مکان الاٹ ہوئے تھے انہوں نے
دیواریں گرا کر ایک بڑا احاطہ بنا لیا تھا ، زیتون احاطے میں داخل ہوئی اسے
یوں لگا کہ وہ اپنے اجمیر والے گھر میں داخل ہو گئی ہے ۔ حکیم بھائی نے
گورنمنٹ کے بنائے ہوئے کمروں میں تبدیلی کر کے انہیں مکمل طور پر اپنے باپ
کے ہاتھوں بنائے ہوئے اجمیر کے گھر کی شکل دے دی تھی ۔ زیتون نے غیر ارادی
طور پر دائیں طرف دیکھا کونے والا کمرہ بھی ویسا ہی تھا ایسا لگتا تھا کہ
ابھی ابا میاں کمرے سے باہر نکلیں گے اور زور سے آواز لگائیں گے ” محمد
حکیم خان “ اور بھائی ’ ’جی ابا“ کہہ کر ان کی طرف حقہ لے کر دوڑیں گے ،
ابا کمرے کے باہر درخت کے نیچے پڑی چارپائی پر بیٹھ جائیں گے اور ان کا
چہیتا کتا ، ” کالو “ ان کے پاس آکر بیٹھ جائے گا اور ان کے پیر چاٹے گا ۔
اچانک 1935کا سین زیتون کی آنکھوں کے سامنے آگیا ۔ ” محمد حکیم خان “ کی
آواز آئی۔ رحمان خان ” جی ابا“ کہہ کر دوڑا اور ابا کے حلئے میں کوئی چلتا
ہوا نکلا اور چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ کونے سے کالو دوڑتا ہوا آیا اور
چارپائی پربیٹھے ہوئے آدمی کے قدموں میں بیٹھ گیا ۔ زیتون تیزی سے آگے بڑھی
پھر سب کا قہقہ سن کر ٹھٹک گئی ۔طیب خان نے اُس کے ساتھ مذاق کیا تھا۔
زیتون خجل ہونے پر ڈنڈا اُٹھا کر اُس کے پیچھے دوڑی ۔ احاطہ خوشیوں سے بھر
گیا زیتون کو حکیم بھائی کی ابا سے محبت کا معلوم تھا لیکن یہ امید نہیں
تھی کہ وہ اُس محبت کی یادوں سے نوابشاہ کی مہاجر کالونی کے تین گھروں پر
مشتمل تقریبا ہزار گز کے اس احاطے سے آباد کر دے گا ۔ابا والا کمرہ زیتون
اور امی کے لئے مخصوص تھا ۔ زیتون کو لگا کہ اس کی ہجرت ختم ہو گئی ہے ۔
نواب شاہ میں وہی اجمیر والا ماحول تھا ۔ آٹے میں ہلکی سی سوجی ملا کر ایک
چمچہ اصلی گھی ڈال کر بنائی ہوئی سوندھی سوندھی خوشبو والی روٹی ، مزے مزے
کے کھانے ، رات کو مزے مزے کی کہانیاں ، ایک دوسرے سے مذاق ،تیسرے دن
میرپورخاص سے بڑی بہن بسم اللہ خاتون اپنے تین بچوں ،چاند خان ، زیتون بیگم
اور تین سالہ افضل کے ساتھ نوابشاہ پہنچ گئیں ۔
ہفتہ ٹہرنے کے بعد حنیف خان ، بھائی واپس لاہور چلے گئے ۔ زیتون اور امی
نواب شاہ ٹہر گئے ۔ مہینہ کے بعد بڑی بہن واپس میرپور خاص جانے کے لئے تیار
ہوئی اور اپنے ساتھ امی اور زیتون کو بھی لے لیا ۔مارچ کے پہلے ہفتے یہ سب
نواب شاہ سے پسنجر ٹرین پر میر پور خاص پہنچے ، جہاں سے مولچند باغ آئے ،
یہ مہاجروں کا کیمپ تھا جہاں راجپوتانہ ، حیدر آباد اور اس کے آس پاس کے
علاقوں کے لوگ کھوکرا پار ، عمرکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے اور
کراچی تک پھیل گئے ۔ یہاں سب سے زیادہ قائم خانی برادری آباد ہوئی ۔موسم
ہلکا ہلکا گرم ہونا شروع ہو گیا تھا ۔نواب شاہ کے مقابلے میں میرپورخاص کی
ٹھنڈی راتیں زیتون کو بہت پسند تھیں ، بڑی بہن کے شوہر نور محمد خان سبزیوں
اور پھلوں کا کاروبار کرتے تھے ۔ میرپور خاص میں بہن کے گھر رہتے ہوئے ابھی
دو ہفتے ہوئے تھے ، شام کو نور محمد خان نے بتایا کہ حنیف خان کو کوئی فوجی
دوست نظام الدین آیا تھا وہ انہیں اور چاند محمد کو لے کر سٹلمنٹ کے آفس
گیا جہاں نظام الدین کا چھوٹا بھائی اکرام الدین ملازم ہے ۔ نور محمد خان
اور چاند محمد خان کا نام مہاجروں کی نئی بستی سیٹلائیٹ ٹاؤن میں الاٹمنٹ
کے لئے لکھا دیا ہے ۔ یہ سب لوگ بہت خوش ہوئے ۔ دوسرے دن ، نظام الدین اور
اس کی امی ملنے آئے یہ لوگ شہر میں ایک مکان میں ٹہرے ہوئے تھے ، جو ہندووں
نے خالی کیا تھا ، شام کا کھانا کھا کر یہ لوگ واپس چلے گئے ۔ جولائی میں
زیتون اور امی ، نواسے چاند خان کے ساتھ نواب شاہ آگئے ، چاند خان دونوں کو
چھوڑ کر واپس میرپور خاص چلا گیا ۔ جنوری 1949میں حنیف خان ، دو مہینے کی
چھٹی لے کر نواب شاہ آئے ، معلوم ہوا کہ خاتون بھابی امید سے ہیں اس لئے
ساتھ نہ آسکیں ، حنیف خان کو شہداد پور میں دو مربعے ، کاشتکاری رقبہ اور
ایک مکان الاٹ ہوا ہے ۔ حنیف خان، سلیمان خان ، امی اور زیتون کو لے کر
نوابشاہ سے شہداد پور روانہ ہوئے ۔ بھائی ، اِن سب کو سٹیشن پر ٹہرا کر
سٹلمنٹ آفس گیا انہوں نے شہر میں ایک مکان حوالے کیا ، حنیف خان چابی لے کر
سٹیشن آیا ، یہ سب مکان پہنچے دیکھا کہ تالا توڑ کر کوئی اور خاندان گھسا
ہوا ہے ۔ بھائی کے فوجی ہونے کے ناطے پولیس والوں نے تعاون کیا ۔ اور
ناجائز قابضین کو نکالا یہ دو بوڑھوں، دو عورتوں، ایک لڑکے اور چھ لڑکیوں
پر مشتمل ،ایک خاندان تھا ۔ جنہوں نے نکلتے ہی اماں کو پکڑ لیا اور اپنی
زبان میں دہائیاں دینے لگیں ، غالباً مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے لوگ تھے ۔
اماں کو سمجھ تو نہ آئی لیکن فریاد سن کر اماں کا پسیج گیا ۔ اوپر کی منزل
کے دو کمرے اس خاندان کو دے دیئے اور نچلے کمرے انہوں نے لے لئے ۔ تین چار
دن بعد احساس ہوا کہ انہوں نے بہت سخت غلطی کی ہے ۔جس کا اندازہ انہیں اس
خاندان کے گھر آنے والے مقامی نوجوانوں سے ہو ا، بھائی کو زمین مل گئی تھی
جو شہر سے باہر بلوچستان جانے والی سڑک پر تین میل دور سڑک سے ہٹ کر تھی ،
جہاں کاشت کاری ممکن نہ تھی ۔ بہر حال دو ہفتے بعد انہوں نے پروگرام بنایا
کہ سلیمان خان ، یہاں ٹہرے گا، ریلوے میں ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پوسٹنگ
روہڑی جیکب آباد سیکشن پر کروالے گا اور یہ تینوں واپس لاہور چلے جائیں گے
۔ بھائی نے پولیس کو اپنے جانے اور بھتیجے کو اپنا نمائندہ چھوڑنے کی اطلاع
دی اور یہ تینوں لاہور چلے گئے ، جون میں سلمان خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ،
سلمان خان ڈیوٹی سے تین دن بعد گھر آیا تو چابی لگانے کے باوجود تالا نہیں
کھل رہا تھا سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی منزل پر پہنچا تاکہ معلوم کیا جائے کہ
تالا کس نے تبدیل کیا ہے دروازہ بجایا تو ایک مقامی آدمی نکلا ۔ سلمان نے
پوچھا کہ وہ کون ہے ِ الٹا اس نے سلمان سے پوچھا کہ تم کون ہو سلمان نے
بتایا کہ وہ اس مکان کے مالک کا بھتیجا ہے اور نیچے رہتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ
پہلی منزل پر رہنے والا خاندان نہ صرف پہلی منزل بلکہ پورا مکان مہینہ پہلے
بیچ کر جا چکا ہے ۔ گورنمٹ کا ملازم ہونے کے باوجود سلیمان خان کو قابضین
نے زدو کوب کیا ۔ معاملہ تھانے میں پہنچا ۔ تھانے دار سب کچھ جانتے ہوئے
خاموش تما شائی رہا ۔الٹا سلیماں خان کو دھمکی دی کہ وہ مکان پر قبضہ کرنا
چاہتا ہے ۔ بہرحال سلیمان خان نواب شاہ پہنچا وہاں سے حنیف خان کو تفصیلاً
خط لکھا ۔ حنیف خان نے اپنے محکمے کے ذریعے کاروائی کی تین سال بعد جواب
آیا کہ حنیف خان، تین سال پہلے یہ مکان بیچ کر جا چکا ہے ۔ الغرض 1969میں
ریٹائر منٹ کے بعد حنیف خان الاٹ کی گئی دو مربع زمین کو دیکھنے اپنے بیٹے
کے ساتھ شہداد پور گیا تو معلوم ہوا ، کہ حنیف خان 1950میں اپنی زمین بیچ
چکا تھا ۔کس کو ؟ کاغذات مانگے ، کاغذات کو دیمک کھا گئی ۔لہذا ،محمدحنیف
خان صبر کر کے بیٹھ گیا ۔
جن دنوں یہ واقعات ہوئے حنیف خان کی پہلی بیٹی ہوئی ، ضیاول خاتون نام رکھا
۔ حنیف خان ، کو سیالکوٹ میں دو کمرے کا مکان مل گیا تھا ،خاتون ، امی اور
زیتون کے ساتھ رہ رہا تھا ۔ نومبر کا پہلا ہفتہ تھا حوالدار نظام الدین کی
پوسٹنگ سیالکوٹ ہو گئی ۔ شام کا وقت تھا ۔ پرانے دوست بیٹھے ہوئے تھے گپیں
لگ رہی تھیں کہ ایک دوست حوالدار مرزا سلیم بیگ نے نظام الدین کو چھیڑ ا ”
نظام الدین تم شادی کب کرو گے ؟ اب تو تمھارے شاگرد کے ہاں بھی بچی ہو گئی
ہے۔ تیس سال کے ہونے والے ہو !“ ”کوئی لڑکی شادی کے لئے تیار ہوئی تو کر
لوں گا“ نظام الدین نے کہا ۔ ” ارے بھائی حنیف خان کی بہن بیٹھی ہے اور
ویسے بھی تم دونوں دوست بھی ہو “ ۔ ” مرزا ، بات کرو میں تیار ہوں “ نظام
الدین نے جواب دیا ۔مرزا سلیم بیگ اور نظام الدین دونوں ایک ساتھ1937میں
رائل انڈین میڈیکل کور میں بھرتی ہوئے اور دونوں اکھٹے دہلی پوسٹ ہوئے ،
مرزا کا تعلق اورنگ آباد سے تھا ۔ جہاں نظام الدین کے ننھیالی رشتہ دار
رہتے تھے ۔ 1939کے آخر میں نظام الدین کی پوسٹنگ لاہور سی ایم ایچ ہوگئی ۔
مرزا سلیم بیگ پاکستان بنتے وقت اپنے بیوی اور چار بچوں کے ساتھ سیالکوٹ سی
ایم ایچ پوسٹ ہو گئے ۔ مرزا سلیم بیگ نے دوسرے دن حنیف خان سے بات کی ۔
حنیف خان نے خوشی سے حامی بھر لی ۔1949ماہ صفر کے پہلے جمعہ کے دن مغرب سے
پہلے زیتون کوثر اور حوالدارنظام الدین کی شادی ہو گئی ۔ |