سال 2020 ، پشاور کا ترقیاتی منصوبہ بی آر ٹی

پشاور میں سال 2020 میں شروع کئے جانیوالے عرف عام کے میٹرو بس سروس کی اچھی بات مختلف سٹیشنز پر صوبے کے مختلف سیاحتی مقامات کے بارے میں لگائے گئے بورڈز ہیںجو نہ صرف ان سٹیشنز کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ یہاں آنیوالے افراد کیلئے بھی معلومات کی فراہمی کیساتھ ساتھ انہیں ان سیاحتی مقامات کی طرف لے جانے کی خواہش بھی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے- یہ عام شہریو ں کو سیاحت کی جانب راغب کرنے کا بھی ایک اچھا ذریعہ ہے .
ا

پشاور میں بی آر ٹی ، جسے عرف عام میں میٹرو بس سروس کہا جاتا ہے سال 2020 میں بہت ساری تبدیلیاں لیکر آیا - چھ ماہ کی مدت میں شروع ہونیوالے منصوبے کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر نے کے بعد شروع کیا گیا- سابقہ وزیراعلی پرویز خٹک نے اس حوالے سے بڑے دعوے کئے تھے اس کیلئے مختص رقم سے زیادہ ہوتی گئی ، تعمیرات کے نام پر کس نے زیادذہ رقم کمائی اس سے قبل گرین ،کلین پشاور کے نام پر منصوبہ شروع کیا گیا جسے بعد میں بی آر ٹی کے نام پر ختم کیا گی ، خیربات کرتے ہیں بی آر ٹی پر..
یہ پشاور کی واحد سروس ہے جسے موجودہ حکومت اپنے بہترین کارناموں میں شمار کرتی ہیں کسی حد تک اس میں صداقت بھی ہے کیونکہ صوبائی دارالحکومت میں بس یہی چیز ہے جو نظر آتی ہے اس سے قبل آنیوالے تمام وزراء اعلی اپنے اپنے آبائی علاقوں کی بہتری کیلئے کام کرتے رہے ہیں ، اپنے یاداشت میں سردار مہتاب کے دور سے لیکر موجودہ وزیراعلی تک ہر کوئی اپنے آبائی علاقے کی بہتری کیلئے کوشش کرتا ہے یہ اچھی بات ہے لیکن بہتری کے اس عمل میں صوبائی دارالحکومت پشاور کو بھولنا نہیں چاہئیے .
پشاور کا عرف عام میں جانا جانیوالا میٹرو بس سروس ہم جیسے ٹٹ پونجیوں کیلئے اچھا ہے اور وہ اس وجہ سے کبھی کبھار جیب بالکل خالی رہتی ہیںتاہم اگر آپ کے پاس بی آر ٹی کا کارڈ ہے اور اس میں رقم موجود ہے تو زرا بھر بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ تقریبا چھبیس کے قریب سٹیشنز پر ہر وقت کوئی نہ کوئی گاڑی کھڑی نظر آتی ہے جو مختصر وقفے کیلئے رکتی ہے اور مسافروں کو لیکر روانہ ہوتی ہیں یہ الگ بات اتنے سفر کے باوجود ہمیں پتہ نہیں چلا کہ سٹیشن ٹو سٹیشن کونسی گاڑی ہے اور ڈائریکٹ گاڑی کونسی ہے اسی باعث کبھی کبھار ایک سٹیشن اگے نکل جاتے ہیں- اس سے قبل تو مسافر گاڑیوں میںاول تو کنڈیکٹر کی " اڈے لہ اڈے لہ" جیسے آواز سننے کو ملتی تھی پھر پانچ روپے اگر کم دیتے تو پورا لیکچر سننے کو ملتا اور اگر کسی شہری کی کنڈیکٹر کو رہ جاتے تو کنڈیکٹر کہتا چلو خیر ہے - ایسے میں مجھ جیسے بہت سارے اپنا منہ لیکر رہ جاتے تھے .
بی آر ٹی کی موجودہ سروس میں اب کنڈیکٹروں سے جان تو چھوٹ گئی لیکن اب عورت کی آواز سننے کو ملتی ہیں اور اتنی لگاتار ہوتی ہیں کہ وہی بات پوری ہو جاتی ہیں کہ عورتیں سب سے زیادہ بولتی ہیں" یقین نہیں آتا تو بی آر ٹی بس میں بیٹھ کر سفر کریں جو پانچ منٹ بعد کہتی ہیں کہ آنیوالا سٹاف فلاں ہے اور اپنے سامان کا خیال رکھیں - بی آر ٹی کی سب سے خوبصورت عام مزدا بسوں میں "ورکہ ڈنگ اور لیونئے درپسے شومہ " جیسے گانوں سے نجات مل گئی ، پرانے مزدہ گاڑیوں میں داخل ہو کر لگتا تھا کہ ڈرائیور نے گاڑی نہیں اپنے دلہن کیلئے کمرہ سجایا ہوتا ، سرخ رنگ کے دوپٹوں سے لیکر بہت سارے چیزیں ڈرائیور کے آگے پیچھے ہوتی اور ایسے میں اگر کوئی خاتون بیٹھتی اور ٹھرکی ڈرائیور گانے لگا دیتا تو پھر شرم سے کان سرخ ہوتے- اور اگر کوئی سر پھرا بات کرتا تو پھر کنڈیکٹر اورڈرائیوروں کی بدمعاشی ہوتی کہ چلو گاڑی سے اتر جائو ..شکر ہے بی آر ٹی کی وجہ سے ان فضول گانوں سے نجات تو سب کو مل گئی .اور اب خواتین آرام سے کسی بھی سٹیشن پر کھڑے ہو کر جاسکتی ہیں-نودولتیوں کے گاڑیوں کے ہارن سمیت مزدا گاڑیوں کی " شابہ ترورے" زرکہ پولیس والہ راغلے" جیسے آوازوں سے جان چھوٹ گئی ..
تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمرانوں نے سب سے اچھی سروس بی آر ٹی کی یہی رکھی ہے کہ اس سروس سے اندرون شہر اور بیرون شہر کو یکساں رکھا گیا ہے اور شہر آنیوالے افراد کو پتہ چلتا ہے کہ اندرون شہر پشاور کیسا ہے اور بیرون شہر کیسا ہے - اسی طرح خواتین کیلئے الگ سیٹیں مختص کرنا بھی بہترین ہے یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں اب بھی مرد خواتین کے سیٹوں پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں -اسی طرح مختلف سٹاپ کے نام نئے رکھے گئے جیسے کہ ملک سعد شہید کے نام سے مختص سٹاپ ،
بی آر ٹی کے روٹ کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ اس میں بعض جگہیں ایسی ہیں کہ اس میں بارش کے دنوں میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے اسی طرح بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں پر مسافر اپنی اداروں کی غلطیاں بھی آسانی سے دیکھ سکتا ہے ، جیسے کہ ڈبگری میں کھڑے سرکاری گاڑیاں جو اس سے قبل کسی کی نظر میں نہیں آتی تھی کھڑے کھڑے اسے ایسٹبلشمنٹ خراب کررہی ہیں اور نیلامی نہیں کررہی تاکہ کم سے کم قیمت پر من پسند افراد میں تقسیم کی جائے.اسی طرح جیسے ہی پشاورپریس کلب کے قریب گزرتے ہیں تو وہاں سے لیکر تہکا ل کے سٹاپ تک مسافر اپنے آپ کو "بلڈی سویلین " محسوس کرتا ہے کیونکہ بعض جگہوں پر ہسپتال میں پڑے بیڈ تک نظر آتے ہیں بعض جگہوں پر لوگوں کے گھروں کی پرائیویسی بھی متاثر ہوتی ہیں لیکن کینٹ میں داخل ہونے کے بعد کچھ نظر نہیں آتا کیونکہ دیواروں پر اتنے بڑے شیڈز لگائے ہیں کہ کچھ نظر ہی نہیں آتا- یعنی حکمران عوام کو جو دکھان چاہتے ہیں وہ دکھاتے ہیں اور جو نہیں دکھانا چاہتے وہاں کیلئے الگ قانون..
ٍُپشاور کے میٹروبس سروس کی اچھی بات یہ ہے کہ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کم ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اگر کوئی ایک مرتبہ جانا چاہے تو پھر پچاس روپے کی ادائیگی کرنی پڑ تی ہے خواہ وہ کارخانو جائے یا ایک سٹاپ پر رکے ، جو کہ زیادتی بھی ہے اسی طرح کارڈ میں اگر پچاس روپے رہ گئے تو پھر یہ اس وقت تک قابل استعمال نہیں رہتا جب تک مزید رقم جمع نہ کی جائے یعنی اگر کسی کے پاس دو کارڈ ہے اور دونوں میں پچاس پچاس روپے بھی ہو ںتو اس پر سفر نہیں ہوسکتا- جس کا ذاتی طورپر مجھے تجربہ بھی ہے .
بی آر ٹی کے قیام سے قبل حکومت نے اعلان کیا تھا کہ روٹ سے متاثرہ کنڈیکٹر اور ڈرائیوروں کو روزگار دی جائیگا تاہم یہ وعدہ ایفا نہیں ہوا اور صوابی ، نوشہرہ اور مردان سمیت صوابی کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے چہیتے بھرتی کروائے-جو کہ مقامی افراد کیساتھ زیادتی بھی ہے لیکن وہی بات کہ "تبدیلی والا سرکار سے کون پوچھے گا"
پشاور میں سال 2020 میں شروع کئے جانیوالے عرف عام کے میٹرو بس سروس کی اچھی بات مختلف سٹیشنز پر صوبے کے مختلف سیاحتی مقامات کے بارے میں لگائے گئے بورڈز ہیںجو نہ صرف ان سٹیشنز کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ یہاں آنیوالے افراد کیلئے بھی معلومات کی فراہمی کیساتھ ساتھ انہیں ان سیاحتی مقامات کی طرف لے جانے کی خواہش بھی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے- یہ عام شہریو ں کو سیاحت کی جانب راغب کرنے کا بھی ایک اچھا ذریعہ ہے .
اس سال شروع ہونیوالے بی آر ٹی سروس پر اخراجات تو بہت زیادہ آئے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ تاحال جاری ہے تاہم کسی حد تک روڈوں پر گاڑیوں کا دبائو بھی کم ہوا ہے خاص طور پر موٹر سائیکل سوار افراد ، اس کے ساتھ ساتھ درختوں کی جو کٹائی بی آر ٹی کے نام پر روڈوں کیساتھ کی گئی تھی ا س کی بحالی کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا جو قابل افسوس ہے.کیونکہ ماحول کی بہتری کیلئے یہ ضرور ی ہے ہے حکمرانوں کو شائد بی آر ٹی پر شرم نہیں آرہی کہ چھ ماہ کے دوران شروع کی جانیوالی سروس دو سال بعد شروع کی جاسکی تاہم شہری اس پر شرم محسوس کرتے ہیں اور شرم کے مارے منہ چھپاتے بھی ہیں یہ الگ بات کہ یہ منہ چھپانا کرونا کی وجہ سے ہے اور اگر کوئی منہ بی آر ٹی میں نہ چھپائے تو انتظامیہ انہیں جرمانہ کرتی ہیں..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497762 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More