پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان قدیم اور خوشگوار تعلقات قائم ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک دوسرے کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ دونوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں اسلامی ممالک ہیں دونوں طرف عقیدہ بھی ایک ہے اور رسم ورواج مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی بنیادی عقیدہ ہونے کی وجہ سے زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ایک ہی ہیں۔ جب بھی انہیں ایک دوسرے کی ضرورت پڑی ہے ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے بڑھے ہیں خاص کر سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مثالی رہے ہیں اور اب بھی اچھے تعلقات ہیں تاہم ایک ان دیکھی ٹھنڈ آج کل ان تعلقات میں نظر آرہی ہے جسے کسی صورت طویل نہیں ہونا چاہیے۔ دیگر کچھ غیر شناخت شدہ وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں جس کے اوپر پاکستان کا اپنا نکتہء نظر ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی غیر مشروط حمایت کی ہے جو جاری ہے اور اس نے واشگاف الفاظ میں اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہی نکتہء نظر بلاتفریق تمام اسلامی دنیا کا تھا اس میں کوئی دورائے نہیں تھیں۔ تاہم اب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ ابراہیم معاہدے کے تحت معمول کے تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ عمل درآمد بھی شروع کردیا ہے اور مصر اور اردن کے بعد تیسرا ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اگرچہ یہ ان کا ندرونی معاملہ ہے لیکن خارجہ پالیسی کے اس اہم نکتے پر اب تک دونوں ملکوں کا اتفاق تھا جو اب نہیں رہا جس کی وجہ سے تعلقات میں ایک تناؤ آیا ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات نے عین ان دنوں میں بھارت کے وزیراعظم مودی کو اپنے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا جب بھارت نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا اور اسے ایک بہت بڑی جیل میں بدل دیا تھا۔ عرب دنیا کو پاکستان کے ایران اور ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات پر بھی اعتراض ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ پاک عرب تعلقات میں سرد مہری آئی ہے۔ پاکستان کے ایران کے ساتھ کبھی بھی غیر دوستانہ تعلقات نہیں رہے اور ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی ہر نوعیت سے قطع نظر ان کے سعودی عرب سے ہمیشہ مثالی تعلقات رہے بلکہ اسے دنیا بھر میں دو ملکوں کے درمیان کسی بھی قسم کے تعلقات میں بہترین سمجھا جاتا رہا ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ آڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے جب ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب آگے آیا اور نہ صرف پاکستان کو یومیہ پچاس ہزار بیرل مفت تیل فراہم کیا بلکہ اسے امداد بھی دی۔سعودی عرب پاکستان کے لیے زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ یوں بھی رہا ہے کہ بیس لاکھ سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں جو اپنے گھروں میں ہر سال کروڑوں روپے بھیج کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور بدلے میں یہ پاکستانی ہر میدان میں سعودی ترقی میں حصہ دار بنتے ہیں۔یوں سعودی عرب کی طرف سے مالی مدد ملتی ہے تو پاکستان کی طرف سے تکنیکی۔اس کے علاوہ پاکستان کا سعودی دفاع میں اہم ترین کردار ہے یہ تعلقات قیام پاکستان کے بعد جلد ہی قائم ہوئے۔ 1969میں جب یمن نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو پاکستانی پائلٹس نے ہی اسے پسپا کیا۔پاکستانی انجینیئرز نے سعودی سرحدوں پر تنصیبات بنا کر انہیں مضبوط کیا۔ایران عراق جنگ کے دوران بھی پاکستانی افواج مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کے لیے وہاں موجود رہیں۔2016کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب پاکستانی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا جس نے کئی ملین کا اسلحہ پاکستان سے خریدا جس میں چھوٹے اور درمیانی درجے کے روایتی ہتھیار شامل تھے۔اسی طرح ہر مشکل وقت میں پاکستان سعودی عرب کے دفاع کے لیے اس کی افواج کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔2015میں اگر چہ اس نے پارلیمنٹ کے فیصلے کے مطابق یمن کے خلاف اپنی افواج نہ بھیجیں جہاں سعودی فوج کشی سے ایک انسانی المیے نے جنم لیا اور لاکھوں بچے اور افراد جنگ کے ساتھ ساتھ بھوک اور افلاس سے مر گئے تاہم پاکستان نے اپنے ایک ہزار فوجی مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کے لیے ضرور بھیجے۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری اس وقت آئی جب باوجود اس کے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کوالا لمپور کانفرنس میں ایران،ترکی اور ملایشیا کی دعوت اور اسرار کے شرکت نہ کی کہ وہ سعودی عرب کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جب پاکستان نے سعودی عرب سے درخواست کی کہ وہ کشمیر کے معاملے پر اوآئی سی کا ہنگامی اجلاس بلائے تو اس نے ایسا نہ کیا۔پاکستان نے کشمیر میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کی بھارتی حکومت کی طرف سے منسوخی کے 6 اگست 2019کے اقدام کی سالگرہ کے موقع پر یہ او آئی سی کا اجلاس بلانے کی درخواست دی تھی لیکن یہ اجلاس نہ بلایا گیا حالانکہ 2014میں دونوں ملکوں نے کشمیر، افغانستان اور فلسطین پر اپنی مشترکہ پالیسی کا اعلان کیا تھا سعودی عرب نے کشمیر کا تصفیہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پر امن طور پر ہونے کامطالبہ کیا تھا لیکن اب اس نے اسی مسئلے پر اپناوہ کردار ادا نہ کیا جس کی اس سے توقع تھی۔ جس کی ایک وجہ بھارت کو ناراض نہ کرنا تھا اور مزید وجہ یہ ہے کہ تمام تردوستانہ تعلقات کے باوجود پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی تجارت 3.6بلین ڈالر سالانہ ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ یہی تجارت 27بلین ڈالر کی ہے اور اس کی وجہ بھارت کی بے تحاشا آبادی کے لیے بے تحاشا ضروریات ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک وقتی سرد مہری یا تناؤ آیا ہے لیکن اس بات کی قوی اُمید ہے کہ بہت سارے عمومی دلچسپی کے معاملات ہونے کی وجہ سے جلد ہی مسائل حل ہو جائیں گے اور حالات معمول پرآجائیں گے کیونکہ دونوں ممالک کے بہت سے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب مقدس اسلامی مقامات کا نگہبان ہے اور پاکستان اٍ؎ن مقامات کی حفا ظت کے لیے پہلے بھی پیش پیش رہا ہے اور آئندہ بھی اسے باعث سعادت سمجھے گا اور سعودی عرب بھی جانتا ہے کہ بھارت کا سپاہی ان مقامات مقدسہ کی اس طرح حفاظت برائے سعادت نہیں کر سکتا جیسے پاکستانی سپاہی کرے گا اور یہ بھی کہ بڑھتے ہوئے بھارتی اور مغربی اثرور سوخ کے باوجوداپنے جغرافیئے،محل وقو ع اور نظریے کی وجہ سے پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہی رہے گا جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ |