کہا جاتا ہے کہ ہر اچھے انسان کو دوسرے انسان اچھے نظر
آتے ہیں کیوں کہ وہ ظرف اور گمان ہی اچھا رکھتا ہے۔ زندگی جہد مسلسل کی طرح
تو ہے۔ اگر اس میں آسانیاں پیدا کر دی جائیں تو یہ زندگی بڑی خوبصورت بن
جائیں گی۔ ہمارے نبی اکرم نے زندگی گزارنے کے رہنما اصول بتائے جن پر عمل
کر کہ ہم اپنی دنیا و آخرت دونوں کو سنوار سکتے ہیں۔ ہمارے پیارے پغمبر
حضرت محمد نے ہمیں دین کی تبلیغ کا کام سیکھا دیا، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس
پر کتنا عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو اس کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک فطری
عمل ہے کہ لوگ اس کی بات کو غیر یقینی سے سنیں گے جو صرف باتوں کی حد تک
ٹھیک ہو اور خود ان پر عمل پیرا نا ہو۔
علامہ محمد اقبال نے کیا خوب فرمایا :
عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نا نوری ہے نا ناری ہے
لہذہ ہماری دنیاوی اور آخرت کی زندگی کا دارومدار ہمارے عمال پر ہے۔ اچھے
عمال ہماری دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہیں۔ یہ سب تب ہی ممکن ہوگا
جب ہم دین پر عمل پیرا ہوں گے۔ دین کو اپنے آپ تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ
دوسرے لوگوں تک بھی اپنے اس پیارے دین کا پیغام بھی پہنچائیں گے۔ پہلے پہل
جب سکول وغیرہ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا تب مدرسوں میں دینی تعلیم کا
اہتمام کیا جاتا تھا۔ وقت اور حالات نے کروٹ بدلی تو مدرسوں میں دینی تعلیم
کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا اہتمام بھی کیا گیا۔ دنیا نے ترقی کی، سکول
وجود میں آئے اور سکولوں میں دنیاوی اور دینی تعلیم دی جانے لگ گئی۔ بلکہ
یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ مدرسوں کا دوسرا نام سکولوں کو دیا گیا۔ مگر اب
سکولوں میں صرف دنیاوی تعلیم رہ گئی ہے مگر یہ سارے سکولوں میں نہیں ہو
رہا۔ کچھ سکولوں میں جن میں سرکاری سکول بھی شامل ہیں، دینی اور دنیاوی
تعلیم دی جارہی ہے۔ مگر ان کا طرز تدریس مدرسوں جیسا نہیں ہے۔ دنیاوی تعلیم
کی افادیت تو ہر کوئی اجاگر کرتا ہے مگر دینی تعلیم اور اس پر عمل پیرا
ہونے کو کوئی نہیں کہتا۔
بہت سارے اولیا اکرام گزرے ہیں جو دین پر عمل پیرا رہے اور ولی بن گئے۔ آج
لاکھوں لوگ ان کے مزارات پر زیارت کو جاتے ہیں۔ یہ سب ان کے اعمال کا فیض
ہے جس کو آج دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ زندگی کا مقصد
اور وجود ہمارے اچھے اعمال پر منحصر ہے اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جس آدمی کی جیسی نیت ہوتی ہے اس کے ویسے ہی اعمال ہوتے ہیں۔
اس لئے صاف نیت کا ہونا کامیابی کی شرط ہے۔ انسان کا امتحان اس کے ظرف سے
بھی ہوتا ہے۔
مسلمان ہونے کہ ناطے سے ہمیں دین پر خود عمل پیرا ہونا چائیے اور دوسروں کو
بھی اس کی تلقین کرنی چائیے۔ آج کے اس جدید دور میں یہ کام بہت آسان ہوگیا
ہے اور آپ یہ کام گھر بیٹھے بھی کر سکتے ہیں۔ آپ گھر بیٹھ کر مفت میں دین
اسلام کی تعلیم حاصل بھی کر سکتے ہیں اور اس کی تبلیغ بھی۔ شرط آپ کی مستقل
مزاجی ہے اور آپ کا ظرف۔ میں یہاں آپ کو چند اہم چیزوں کے بارے میں بھی
بتاؤں گا جن سے آپ دین کی تعلیم آسانی سے گھر میں بیٹھ کر بھی حاصل کر سکتے
ہیں۔ آپ کا جذبہ اور مستقل مزاجی اس کی شرط ہے۔ سب سے پہلے ، اس دور میں
موبائل فون جس کو سمارٹ فون بھی کہتے ہیں سب کے پاس ہے۔ اگر آپ کے ہاتھ میں
سمارٹ فون ہے تو یہ اپلیکیشن پلے سٹور سے ڈاؤنلوڈ کر لیں( Islam 360 ). یہ
ایک بہترین سوفٹ وئر ہے جو کہ بالکل مفت ہے۔ اس کے علاوہ کئی مدرسے بھی ہیں
جو آنلائن کورس کرو رہے ہیں۔ آپ سے عرض ہے ان کو جوئن کریں اور دوسروں تک
دین کا پیغام پہنچائے ۔
اللہ پاک ہم سب کا ہامی و ناصر ہو !
|