میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن، آپ نے اپنے بچپن میں ان میں سے کون سے کھیل کھیلے تھے جن سے آج کے بچے نا آشنا ہیں

اپنے بچپن کا زمانہ ہر انسان کو یادگار لگتا ہے اور اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دور سب سے زیادہ اچھا تھا مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ نوے کی دہائی کے بچوں کا بچپن کئی حوالوں سے حالیہ دور کے بچوں سے بہت بہتر تھا جو مواقع ان بچوں کو میسر تھے حالیہ دور کے بچوں کو وہ سب چیزیں میسر نہیں ہیں- خاص طور پر کرونا وائرس کے خدشے نے بچوں کو صرف گھر تک محدود کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کے فزیکل کھیل بہت کم ہو گئے ہیں اور وہ موبائل اسکرین تک محدود ہو گئے ہیں- اسکولوں کی مستقل چھٹیوں نے بھی انہیں اپنے ہم عمر ساتھیوں سے دور کر دیا ہے اور اب وہ اگر اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ پب جی کھیلنے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں- آج ہم آپ کو کچھ ایسے کھیلوں کے بارے میں بتائيں گے جو ماضی میں تو تقریباً ہر بچے ہی نے کھیلے ہوں گے مگر حالیہ دور کے بچوں کے لیے وہ اجنبی ہو گئی ہیں-
 
1: سائیکل کے ٹائر کے ساتھ کھیلنا
پرانے سائیکل کے ٹائر کو ایک چھوٹی سی ڈنڈی کے ساتھ اس کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے ریس لگانے کے لیے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی- اس کھیل سے نہ صرف جسمانی ورزش حاصل ہوتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ہاتھ اور آنکھوں کے درمیان توازن کی مشق بھی ہوتی تھی جس سے دماغی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا تھا- مگر حالیہ دور میں نہ تو بچے سائیکل چلاتے ہیں اور نہ ہی سائیکل کے پرانے پہیے ان کے لیے کسی اہیمت کے حامل ہوتے ہیں-
image
 
2: کاغذ کی کشتیاں بنانا
کاغذ کی کشتی بنانا بھی آرٹ کا ایک حصہ ہوتا ہے جو کہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے- ماضي میں کاپیوں سے کاغذ پھاڑ کر کشتیاں بنانا اور اس کے بعد ان کشتیوں کو بارش کے جمع شدہ پانی ميں چلانا بھی ایک ایسا کھیل تھا جو کہ نوے کی دہائی کے ہر بچے نے ضرور کھیلا ہوگا اور جس بچے کی کشتی زیادہ دیر تک چلتی رہتی تھی اس کو ونر تسلیم کرنا اور اس کے بعد کوشش کرنا کہ ایسی کشتی بنائی جائے جو کہ زیادہ دیر تک تیرتی رہے یہ کم قیمت اور بے ضرر کھیل مقابلے کی فضا قائم کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا ایک ذریعہ ہوتا تھا جو کہ ایک طالب علم کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں-
image
 
3: لٹو چلانا
لٹو اور اس کی رسی بچپن کے دور کا وہ خزانہ ہوتا تھا جو کہ جس بچے کی جیب میں ہوتا تھا وہ خود کو بہت امیر سجھتا تھا- لٹو کو چلانے کے لیے ایک خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے لٹو کے اوپر رسی کو لپیٹ کر ایک خاص جھٹکے سے جب اس لٹو کو زمین پر اتارا جاتا ہے تو وہ تیزی سے گھومنے لگتا تھا- اس کے بعد خاص مہارت سے اس لٹو کو ہاتھ کے اوپر چلتی حالت میں اٹھانا اور اس کو دوسرے کے چلتے ہوئے لٹو پر اس طرح مارنا کہ وہ رک جائے اس کا اپنا ایک مزہ ہوتا تھا-
image
 
4: کنچے
ویسے تو کنچوں کے حوالے سے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ اچھے بچوں کا کھیل نہیں ہے مگر جس سیزن میں کنچے کھیلے جاتے تو ان بچوں کی جیبوں سے آنے والی کنچوں کی کھنک سننے والے تمام بچوں کو بہت پسند آتی- مگر ماں باپ اور استادوں کے سامنے اچھا بننے کی خواہش میں دوسرے بچے کی کنچے کھیلنے کی شکایت تو سب ہی نے لگائی ہوگی مگر موقع ملنے پر کنچے کا نشانہ لے کر کنچے پر بھی سب ہی نے مارا ہوگا- یہ کھیل چونکہ مٹی کے اندر ہاتھ ڈال کر کھیلا جاتا تھا اس وجہ سے اکثر والدین اس کھیل کے سخت ترین مخالف ہوتے ہیں- مگر اس کھیل سے ایک جانب تو بچوں کی قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے اور ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مٹی میں کھیلنے سے نہ صرف ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس سے بچے کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے مگر اب اس دور کے بچے اس کھیل سے قطعی ناآشنا ہیں-
image
 
5: پٹو گرم
یہ کھیل ٹیم کی شکل میں کھیلا جاتا ہے جس میں ٹیم پانچ یا سات افراد پر مشتمل ہوتی ہے اس کھیل میں سات پتھر اور ایک گیند کی ضرورت ہوتی ہے پتھروں کو ایک دوسرے کے اوپر ترتیب سے رکھا جاتا ہے جس کے بعد ایک ٹیم گیند مار کر ان پتھروں کو پہلے توڑتی ہے- اس کے بعد ان کو ان پتھروں کو دوبارہ سے ترتیب سے رکھنا ہوتا ہے جب کہ دوسری ٹیم کو ان پتھروں کو ترتیب سے رکھنے سے روکنا ہوتا ہے- اس کے لیے وہ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو گیند مار کر آؤٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کھیل کو کھیلنے کے لیے جسمانی چستی کے ساتھ ساتھ ٹیم ورک کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر اب ٹیم ورک والے گیم بچے کم ہی کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں-
image
YOU MAY ALSO LIKE: