حضرت اویس قرنی عبادت گزاروں کے سردارتھے، اولیائے عظام
کی شان تھے حضرت اویس بن عامر قرنی وہ ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں رسول
اللہ ﷺ نے خوشخبری دی اور صحابۂ کرام کو ان سے ملاقات کرنے کی وصیت
فرمائی۔حدیث میں حضورﷺ نے حضرت اویس قرنی کی نشانیاں بیان
فرمائیں،فرمایا:اس کی آنکھیں سرخی مائل، بال سرخ و سفید، کشادہ کاندھے،
درمیانہ قد، گندمی رنگت ، ٹھوڑی کو سینے کی طرف جھکانے والا، نگاہیں پست
رکھنے والا، دائیں کو بائیں پر ترجیح دینے والا، بکثرت تلاوت قرآن کرکے
آنسو بہانے والا، پھٹی پرانی چادروں والاکہ جس کی کوئی پرواہ نہیں کی
جاتی، اون کا تہبند اور چادر لپیٹے ہوگا، اہل زمین میں غیر معروف لیکن اہل
آسمان میں مشہور و معروف ہوگا۔ وہ اگر کسی معاملے میں الہی پر قسم کھالے
تو اللہ اس کی قسم کو ضرور پورا فرمادے۔ سنو! اس کے بائیں کاندھے کے نیچے
برص کا داغ ہوگا۔ آگاہ ہوجاؤ! بروزِ قیامت بندوں سے کہا جائے گا کہ جنت
میں داخل ہو جاؤ! لیکن اویس قرنی سے کہا جائے گاکہ اے اویس! ٹھہرے رہواور
شفاعت کرو۔ اللہ قبیلہ ربیعہ ومضرکی تعدادکے برابرلوگوں کے حق میں اس کی
شفاعت قبول فرمائے گا۔ اے عمر!اے علی! تمہاری اس سے ملاقات ہو تو اس سے
اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا !اللہ تمہاری مغفرت فرما دے گا۔حضرت سیِّدُنا
ابوہریرہ فرماتے ہیں: حضرت عمر ،حضرت علی دس سال تک ان کی تلاش میں رہے
لیکن ملاقات نہ ہوئی۔ جس سال حضرت عمرفاروق کا وصال ہوا اس سال انہوں نے
جبل ابوقبیس (پہاڑ) پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا: ’’اے یمن سے حج کے لئے
آنے والو! کیا تمہارے ساتھ قبیلہ مراد سے تعلق رکھنے والا اویس نامی شخص
ہے؟ایک لمبی داڑھی والے بوڑھے نے اٹھ کرکہا: ہم نہیں جانتے کہ اویس کون ہے؟
ہاں!میرے ایک بھتیجے کا نام اویس ہے لیکن وہ گمنام و مفلس ہے اوراس قابل
نہیں کہ اسے آپ کے پاس لایاجائے کیونکہ وہ ہمارا چرواہا ہے اورہمارے
درمیان اس کاکوئی مقام ومرتبہ نہیں ہے۔ حضرت عمرنے اس معاملے کو پوشیدہ
رکھا گویا آپ کی مراد وہ نہیں ہے اوراس سے دریافت فرمایا:تمہارا بھتیجا
کہاں ہے؟ کیا وہ اسی حرمِ مکّہ میں ہے؟اس نے عرض کی: جی ہاں!آپ نے پوچھا:
’’وہ کہاں ملے گا؟عرض کی:میدانِ عرفات میں پیلوکے درخت کے قریب۔ حضرت
عمراور حضرت علی سوار ہوکر جلدی جلدی عرفات پہنچے تو (دیکھاکہ) ایک شخص
درخت کے نیچے کھڑانماز پڑھ رہا ہے اور اونٹ اس کے اردگرد چر رہے ہیں۔ آپ
حضرات اپنی سواریوں کو باندھ کراس کی طرف بڑھے، سلام کیا حضرت سیِّدُنا
اویس قرنی نے نماز مکمل کی اور سلام کا جواب دیا۔ حضرت عمر نے پوچھا:تم کون
ہو؟اس نے عرض کی:اونٹوں کا چرواہاہوں اور قوم کا اجیرہوں۔فرمایا: ہم تمہارے
پیشے اورکاروبارکے بارے میں نہیں بلکہ تمہارا نام پوچھ رہے ہیں۔عرض کی:
عبداللہ ۔فرمایا:ہمیں معلوم ہے کہ تمام زمین وآسمان والے اللہ کے بندے
ہیں۔ تمہاری والدہ نے تمہارا کیانام رکھا ہے؟حضرت اویس قرنی نے عرض کی:
آخر آپ حضرات کو مجھ سے کیا کام ہے؟فرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اویس قرنی
کی کچھ علامات بتائیں ہیں۔ بالوں کی سرخی وسفیدی اور آنکھوں کی سرخی کو
توہم نے پہچان لیا ہے اور ہمیں بتایا تھا کہ اس کے بائیں کندھے کے نیچے برص
کا داغ ہوگا، لہٰذا ہمیں دکھاؤ اگر واقعی یہ علامت تم میں پائی گئی تو پھر
تم ہی اویس قرنی ہو۔جب انہوں نے اپناکندھادکھایا تو نشانی دیکھ کردونوں
حضرات بڑھ کربوسے لیتے ہوئے کہنے لگے: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی اویس
قرنی ہیں۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے! ہمارے لئے دعائے مغفرت کیجئے! حضرت
اویس قرنی نے کہا:میں کسی مخصوص شخص کے لئے دعا نہیں کرتا بلکہ خشکی وتری
میں جتنے بھی مسلمان مرد وعورت ہیں سب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اب جب اللہ نے
آپ حضرات پر میرا حال آشکار فرما دیا اور میرا معاملہ ظاہرفرمادیا ہے
توآپ بتائیے کہ آپ ہیں کون؟حضرت علی المرتضیٰ نے فرمایا: یہ
امیرالمؤمنین حضرت عمر ہیں اورمیں علی بن ابی طالب ہوں۔حضرت اویس قرنی نے
جب یہ سنا تو فوراً باادب طریقے سے کھڑے ہوگئے اورسلام عرض کرتے ہوئے
کہا:اللہ آپ دونوں کوامت کی جانب سے بہترین بدلہ عطافرمائے۔حضرت علی نے
فرمایا: آپ کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے۔ حضرت عمر نے فرمایا:اللہ تم پر
رحم فرمائے! تم اسی جگہ ٹھہرو! میں مکہ سے اپنے عطیات میں سے تمہارے لئے
کچھ خرچہ اورزائد کپڑوں میں سے کچھ کپڑے لے کر آتا ہوں میرے اور تمہارے
درمیان یہی جگہ مقرر ہے۔حضرت اویس قرنی نے عرض کیا: امیرالمؤمنین ! میرے
اور آپ کے درمیان کوئی وعدہ نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج کے بعد آپ مجھے
نہیں پہچان سکیں گے رہا خرچہ اور کپڑے تو میں ان کا کیا کروں گا؟ کیاآپ
مجھ پر اونی چادر وتہبند نہیں دیکھ رہے ؟ کیا یہ پرانی ہوگئی ہیں؟ کیا میرے
جوتے نہیں دیکھ رہے؟ کیایہ پرانے ہوگئے ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ مجھے
اونٹ چرانے کے عوض چاردرہم ملتے ہیں؟ آپ نے کب مجھے انہیں کھاتے دیکھا ہے؟
اے امیر المؤمنین ! میرے اور آپ کے سامنے سخت پہاڑ ہیں جنہیں بوجھل لوگ
طے نہ کرسکیں گے اللہ آپ پر رحم فرمائے! آپ بھی خود کوہلکاپھلکا رکھیے۔
حضرت عمر نے جب ان کی یہ گفتگو سنی تواپنا دُرّہ زمین پر مارا اور بلند
آواز سے کہا:اے کاش! عمر کو اس کی ماں نے نہ جنا ہوتا۔ اے کاش! وہ بانجھ
ہوتی، اس نے حمل کی مشقت نہ اٹھائی ہوتی۔ سنو! (خلافت کی) ذمہ داری کون
قبول کرے گا؟حضرت اویس قرنی نے عرض کیا:اے امیرالمؤمنین! آپ اپنا راستہ
لیں اور میں اپنی راہ ہوتاہوں۔ حضرت عمر مکہ تشریف لے گئے اور حضرت اویس
قرنی اونٹ ہانک کر قبیلے والوں کی طرف چل دیئے۔ اونٹ مالکوں کے سپرد کرکے
رخصت ہوگئے اور وصال فرمانے تک عبادت میں مصروف رہے۔(حلیۃ
الاولیاء،۱۶۲۔أويس بن عامر القرني ،ج:۲،ص:۸۲))(الطبقات الکبری ، ۲۰۶۸۔ أويس
القرني، ج:۴،ص : ۳۹۵)
|