آیت الکرسی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفاتکا
تفصیلی تعارف ہے۔اس کے بعد ارشادِ ربانی ہے:’’دین کے معاملے میں کوئی زور
زبردستی نہیں ہے ‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سب کو دین کی بابت یہ آزادی دے
رکھی ہے کہ چاہیں تو اس کو قبول کریں یا رد کردیں ۔ رب کائنات نے تو فلاح
انسانیت کی خاطر: ’’ صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی ‘‘ اور
اس کے آگے کا معاملہ انسان پر چھوڑ دیا تاکہ اپنے انجامِ خیر وبد کا ذمہ
دار وہ خود ہو۔ ایسے میں جو:’’ طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا،
اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور
اللہسب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ‘‘۔ یعنی طاغوت کا انکار کرکے انسان کسی
پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنی فلاح آخرت کے لیے ایک اٹوٹ سہارہ
تھام لیتا ہے۔ ایمان لانے کے بعد چونکہ انسان کو خالصتاً رب کائنات کے
احکامات کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری کرنی ہوتی ہے اس لیے ان تمام طاغوتی
قوتوں سے کفر لازمی ہے جو اس سے اپنی تابعداری کروانا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ کلمۂ شہادت میں الا اللہ سے پہلے لاالہ کا اقرار کیا جاتا ہے اور
شہادت دی جاتی ہے ۔
مندرجہ بالا آیت کے بعد نورو ظلمات کے حوالے سے اہل ایمان کو یہ بشارت دی
گئی ہے کہ :’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ
ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے‘‘۔ یعنی مشرف بہ اسلام ہونے والا
ہر شخص اللہ تبارک و تعالی کی مدد و نصرت سے اس طرح سرفراز کیے جاتے ہیں کہ
انہیں کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لے آیا جاتا
ہے۔ اس کے برعکس :’’ جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد
گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں‘‘۔
یعنی کفر کے علمبرداروں کو طاغوت کی سرپرستی تو مل جاتی ہے لیکن اس کے
نتیجے میں وہ روشنی سے نکل کر تاریکی میں لے جائے جاتے ہیں اور وہاں در بدر
کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد
باطل نظریا ت کے چنگل میں پھنس کر اندھیروں میں بھٹک رہی ہے ان کو قرآن
حکیم خبردار کرتا ہے کہ : ’’یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ
رہیں گے‘‘۔ یعنی دین اسلام کی پیروی کے لیے ملحدانہ نظریات کا انکار شرطِ
اول ہے۔
سورۂ ابراہیم کی ابتدائی آیات میں ہدایتِ انسانی کے لیے تفویض کردہ
طریقۂ کار بیان کیا گیا ہے ۔ ارشادِ قرآنی ہے: ’’ا ل ر اے محمدؐ، یہ ایک
کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے
نکال کر روشنی میں لاؤ،‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اندھیرے سے اجالے کے سفر کی
آسانی کے لیے انبیائے کرام کو مبعوث کرکےان پر کتاب نازل کی جاتی ہےاور وہ
: ’’ اپنے رب کی توفیق سے‘‘ بندگان ِ خدا کو:’’ اُس خدا کے راستے کی ‘‘
رہنمائی کرتے ہیں: ’’جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہےاور زمین اور
آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے‘‘۔ اس لیے ان ’’قبول حق سےانکار کرنے
والوں کی خاطرسخت تباہ کن سزا ہے،جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے
ہیں، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ
ٹیٹرھا ہو جائے یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں‘‘ ۔یہ باغی و طاغی
دوسرے بندگانِ خدا کو بھی روکتے ہیں۔
ربِ رحیم نے اپنے بندوں کوجہنم کی آگ سے محفوظ و مامون رکھنے کا یہ اہتمام
فرمایا کہ :’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے،
اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول
کر بات سمجھائے پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے
ہدایت بخشتا ہے، وہ بالا دست اور حکیم ہے۔ یہ معاملہ نبی کریم ﷺ اور ان سے
قبل مبعوث ہونے والے انبیائے عظام کے ساتھ بھی تھا ،فرمان ربانی ہے :’’ ہم
اِس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں اسے بھی ہم
نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں
تاریخ الٰہی کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر اِن واقعات میں بڑی
نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو‘‘ ۔
|