از قلم ؛۔ ڈاکٹر تصور حسین مرزا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
(فیض لدھیانوی)
یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے
سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ ان
کے عقیدے کے مطابق 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اس
خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت
رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پوری دنیاکو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا
ہے اور 31 دسمبر کی رات میں11:59 بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور 00:00 بجتے
ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو
ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں
تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور
انتظام رہتا ہے؛ اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب
دوسرے عورت۔یہاں یہ بتانا قابل ِ دلچسپی ہوگا کہ بعض ممالک( یورپ اور
افریقی)میں بعض مخصوص کلب یعنی نائٹ کلب ہوتے ہیں جہاں 31 دسمبر اور یکم
جنوری کی درمیانی رات ’’ شیطان اور اس کے پجاریوں ‘‘ کو خوش کرنے یعنی گناہ
کبیرہ کی خصوصی ’’ سبیل برائے ہیپی نیو ائیر ‘‘ منعقد کرنے کا انتظام اور
حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ایسے دلکش مقامات عموماً مہنگے ترین ہوٹل
ریسٹورینٹ ، نائب کلب ، کاسینو، جوا ، شراب اور زناخانوں کو ’’ دلہن کی طرح
‘‘ سجایا جاتا ہے تاکہ شیطان اور شیطانی مخلوقات کو خوش کیا جائے اور ایک
خاص بات ’’ ایسی جگہوں پر ’’ عورت ‘‘ کا داخلہ بالکل فری ہوتا ہے۔ صرف یہ
ہی نہیں بلکہ ان کا طریقہ واردات دلچسپ اور آسان ہے یعنی 31 دسمبر کی
درمیانی رات گناہے کبیرہ کے متلاشی خواتین و حضرات ایسے ٹھکانوں پر پہنچ کر
رات کے بارہ بجے کا انتظار کرتے ہیں ۔ اور جو جس کے سامنے آئے وہ اسی کا’’
گناہ کبیرہ میں ساتھی ہوتا ہے ‘‘ کچھ بدنصیب اس عظیم گناہ کے لئے سال بھر
انتظار کرتے ہیں کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور
۱۳/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو
روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب
کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری
اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط
ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو
یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔
آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس
نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے، زندگی اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن
نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔
اگر کوئی مسلمان خلاف شریعت کوئی فعل نہ کرے اور 31 دسمبر کی درمیانی رات
انتظار کرنے کی بجائے نوافل ، ذکرو ازکار نعت شریف، سیرت النبی ﷺ پر
غوروغوض کرے تو شاید حالات بہتر ہو سکیں ورنہ شاعر کی طرح
کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے
(اعتبار ساجد) کہنا پڑے گا
سال 2020 اور سال 2021 کے درمیان 31 دسمبر کی رات پوری دنیا ( کوروناوائرس)
خدائی عذاب سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے توبہ استغفارکرے اور حسب توفیق
صدقہ خیرات کرے اور اپنے دل سے عہد کرے کہ جیسا ’’ کوروناوائرس ‘‘ نظر نہیں
آتا ایسے ہی وہ گناہ جو نظر نہیں آتے ان کو چھوڑنے کا عہد کرتا/ کرتی ہوں ۔
ان شااﷲ پھر دنیا نئے سال 2021 ء میں حسد، بغض، کہنہ ، جیلسی، نفرت ، فرقہ
واردیت سمیت کوروناوائرس سے پاک ہوجائے گئی۔ پھر حقیقی معنوں میں تم کو نیا
سال مبار ک
|