یوں تو ہر سال دنوں ،ہفتوں اور مہینوں کا مجموعہ
ہوتا ہے مگر دراصل یہ زوال و عروج اور بلندی و پستی کا آئینہ اور صحیفہ ہے
ہر گزرنے والا سال ایک کھاتہ ہے جس میں سب کچھ درج ہو چکا ہے اب جسے بدلنے
پر نہ کوئی قادر اور نہ کھرچنے اور مٹانے کا کسی کو کوئی اختیار ہے ! جو ہو
چکا سو ہو چکا جو اوج ثریا پر پہنچا وہ بھی درج ہو گیا اور جو تحت الثریٰ
میں گرا وہ بھی لکھا گیا۔اور ہر نیا سال ۔۔۔ آرزوؤں اور خواہشوں کا ہدف اور
عکس ! اور یہ ہدف ہر ایک کا مختلف ہے ،کوئی سال کے اختتام تک وہاں پہنچا
کوئی لب بام رہ گیا اور کوئی بالکل ہی تشنہ کام اور اس میں دو چار مقام بہت
سخت بھی آتے ہیں ۔البتہ اس گردش ایام میں جس قدر حقیقت ہے اس قدر مقام عبرت
بھی ہے ،سال نو طلوع ہوا ہر ایک نے اپنے انداز میں استقبال کیا ،جو سال
گزرا ہر کسی نے مختلف طریقے پر اسے رخصت کیا ، سال گذشتہ کی رات کسی کے لئے
شب برات تھی تو کسی کے لئے شب غریباں کوئی سر شام اپنی کاروباری ، سیاسی ،معاشرتی
، کامیابیوں پر خوشی سے سرشار تھا تو کوئی نوحہ گری میں لگا تھا ،نوحی گری
آرزوؤں کے نا تمام رہنے کی ، منصوبوں کے خام رہنے کی اور تمناؤں کے اسیر
حلقہ ایام رہنے کی ،اس بھرے پرے کارخانہ کائنات میں ایک اور طبقہ بھی ہے جس
کے وداع و وصل کے پیمانے مختلف ، امروز و فردا کے زاویے مختلف ، جہان رنگ و
بو کے مشاہدے مختلف ، رنج و راحت کے تجربے مختلف اور کامرانی و ناکامی کے
اندازے مختلف ہیں ،یہ لوگ ’’ طبقہ زہد ‘‘ سے نہیں ’’ حلقہ عشاق ‘‘ سے تعلق
رکھتے ہیں ،یہ زہد میں بہت آگے نہیں ، ’’ جہد ‘‘ میں بہت آگے رہنے کا ارمان
رکھتے ہیں ، ان کا سال گزشتہ نفع و نقصان کا میزانیہ دوسروں سے مختلف بھی
ہے اور منفرد بھی، یہ لوگ ’’ دن ‘‘ کے بجائے ’’دل ‘‘ کے اجالے کے قائل ہیں
، یہ ’’ سات سُروں ‘‘ پر نہیں جھو متے بلکہ ’’ بہار ہو کہ خزاں ، لا الہ
الاّ اﷲ ‘‘ پر سر دھنتے ہیں ،یہ جینے کو اپنا ’’ فردوس بریں ‘‘ اور مدفن کو
’’ زمین کربلا ‘‘ مانگتے ہیں ۔
عام لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سال میں ہمیں کتنا سیاسی عروج ملا ،کتنے
کارخانے لگے ، کتنی آمدن ہوئی ، کتنے پلازے کھڑے ہو ئے ، کتنی پیداوار ہوئی
اور کتنے قرضے ملے ؟اگرچہ کرونا وبا کی وجہ سے سب کے حالات خراب ہوئے سب کو
دھچکا لگا لیکن پھربھی اس ’’ کتنی کتنا ‘‘ میں دل ناتواں پر کیا کیا کچھ
نہیں بیت جاتا ، اور سال نو میں پھر منصوبہ بندی شروع ہو جاتی ہے سلب و طلب
کی ، جور توڑ کی،لوٹ کھسوٹ کی ،مار دھاڑ کی ،ہاہا کار کی ،اتار چڑھاؤ کی
اور بگاڑ اور بناؤ کی ،جبکہ اہل قلب و نظر یہ جائزہ لیتے ہیں کہ سیاسی عروج
کے ساتھ اخلاقی ترقی کا کیا عالم رہا ؟ کارخانوں کے ساتھ انسانوں کا کیا
بنا ،؟ رویے کی آ مدنی میں ایمان کا کتنا خرچہ ہوا ؟پلازے تو کھڑے ہوئے پر
اہل وطن کہاں کھڑے ہیں ؟کتنی پیداوار ہوئی یہ بجا مگر دیکھنا یہ ہے کہ چمن
فضا کتنی ساز گار ہوئی ؟کتنی مالی امداد ملی بہت خوب لیکن قوم کو نئے ولولے
حوصلے بھی ملے ؟دل و نگاہ والے اس انداز میں گزشتہ سال کا حساب لگاتے ہیں ۔
سال نو پر ’’ ہیپی نیو ائیر ‘‘کے گیت گائے جاتے ہیں ، قمقمے لگائے جاتے ہیں
،مختلف محافل سجھائی جاتی ہیں، بہت کچھ سامان ہوتا ہے ، خوشی کا مسرت کا ،استقبال
کا ! مگردل درد مند رکھنے والے لوگ نئے سال کو آغاز پر نہیں انجام پر
مبارکباد دیں گے ،اگر اس سال وطن عزیزریاست مدینہ کا گہوارہ بن گیا ، عدل
بے لاگ اور انصاف سستا ہو گیا ، ہر ایک کو دو وقت کی با عزت روٹی میسر آگئی
، شاہانہ کروفر ختم ہو گیا ،طبقاتی اونچ نیچ دم توڑ گئی ،حکمران اور عوام
میں فاصلہ کم رہ گیا ،بے گھروں کو چھت اور پناہ مل گئی ، انگریزوں کی
ثقافتی او امریکیوں کی سیاسی بالا دستی ختم ہو گئی ،خدا کے آگے جھکنے کا
جذبہ پیدا ہوگیا ،نفرتوں کی جگہ محبتوں نے سنبھال لی اور دوریاں قربتوں میں
بدل گئیں،اگر یہ سب کچھ نہ ہو سکا تو جس طرح ہفتہ اور اتوار میں نام کے سوا
کوئی فرق نہیں وہی صبح ، وہی دوپہر اور شام اسی طرح سال گزشتہ اور سال نو
میں کیا فرق ؟ جب قدریں نہ بدل سکیں ، نظام نہ بدل سکا اور بدلنے اور بدل
جانے کا یہ سارا پروگرام کاغذی نہیں بلکہ نظر آنے واالا ہو ، جس طرح بیماری
کے بعدصحت ، لڑکپن کے بعد جوانی ،خزاں کے بعد بہار ،اور رات کے بعد دن با
قاعدہ دکھائی دیتا ہے ، ایسی تبدیلی کے لئے کسی کو نہ خطبہ دے کر قائل کیا
جاتا ہے اور نہ اشتہار چھاپ کر ،نہ سوشل میڈیا کی زینت بن کر آگاہ کیا جاتا
ہے بلکہ یہ انقلاب ، تبدیلی خود اپنا گواہ اور شاہد عادل ہوتا ہے ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہر بہار میں نئے شگوفے پھوٹتے ہیں ، ترو تازہ پھول اگتے
ہیں اور رنگا رنگ پتیاں حسن بکھیرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ہر سال وہی بوسیدہ
قدریں ، وہی گھسا پٹا نظام ،وہی گلا سڑا انتظامی ڈھانچہ ،وہی ازکار رفتہ
ماحول اور وہی انسانیت کش معاشی سسٹم اپنے دامن میں لے کر آتا ہے اور بے
فیض گزر جاتا ہے ، ہر سال گزرنے پر کرڑوں انسانوں کے لبوں پر بے ساختہ یہ
مصرع مچلنے لگتا ہے۔
ع اب کے دن بھی بہار کے یوں ہی گزر گئے
اب ایسا نہیں ہونا چاہیئے یہ سال سیاست ، صنعت ، تجارت ، حرفت کا نہ کہلائے
نہ سہی، ان سے زیادہ بذات خود ’’ انسا نیت ‘‘اہم ہے یہ سال ’’ انسانیت ‘‘
کے استحکام ، عرفان اور وقار کا سال بن جائے۔ امن و استحکام کا سال بن جائے
،یہ ظالموں سے چھٹکارے کا سال بن جائے ،یہ معاشی عدل کا سال بن جائے اس سے
بڑھ کے خیر خواہی اور حضور ﷺ کے نظام ریاست مدینہ کے نفاذ کا سال بن جائے
جہاں ہر ایک فر د ِ انسانیت کو حق مل سکے ،محبت و پیار مل سکے لیکن اس کے
لئے ہمیں کچھ تگ و دو کرنا پڑے گی،اپنے حالات کو خود بھی بدلنا ہو گا بقول
کیف مرادآبادی :
بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے
|