شمس الرحمٰن فاروقی :تری دنیا میں اَب رہنا نہیں ہے

 ڈاکٹر غلا م شبیر رانا
پچیس دسمبر 2020ء کو دن کے ساڑھے گیارہ بجے قزاق ِ اَجل نے سیّد اکبر حسین اکبرؔ ( 1846-1921)کے شہر میں عظیم ہمہ جہت شخصیت شمس الرحمٰن فاروقی کے نہ ہونے کی ہونی سنا کر متاعِ علم ادب کو لُوٹ لیا۔اس تباہ کن سال نے جاتے جاتے اردو زبان و ادب کے اِس عالمی شہرت یافتہ ادیب کے نہ ہونے کی ہونے سنا دی ۔ عالمی وبا کورونا کے مسموم اثرات سے دیکھتے ہی دیکھتے،تاریخ ، تدریس،ادارت، اردو تنقید ،شاعری ،ترجمہ نگاری،ادبی تھیوری اور فکشن کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی اور ادبی دنیا بے بسی کے عالم میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ کووڈ ۔19کے مثبت نتیجے کے بعد شمس الرحمٰن فاروقی کو دہلی کے ایسکارٹس (Escorts) ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں سے کووڈ - 19 کے منفی ہونے کے بعد اُنھیں23 -نومبر 2020ء کو فارغ کیا گیا۔ہسپتال میں سٹیرائڈز کے استعما ل کے باعث چند روز بعد فنگل انفیکشن اور مائیکوسس کی تکلیف میں شدت پیدا ہو گئی اور اُن کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ۔اُن کی خواہش کے مطابق اُنھیں ائیر ایمبو لنس کے ذریعے آبائی قصبے پر یاگراج( الہ آباد) منتقل کیا گیا۔ عصائے تنقید سے قدیم ادبی دیوتاؤں کے سحر کو کافور کرنے والااور تخلیق فن کے لمحوں میں ید بیضا کا معجزہ دکھانے والاعدیم النظیر اسلوب کاحامل ادیب رخصت ہو گیا۔ صر صر ِ اجل کے ایک جھونکے سے اس آفتابِ علم و ادب اور ارد تنقید و تحقیق کے خورشید کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے تھم گیا۔ تین برس قبل اُن کی اہلیہ ( جمیلہ فاروقی ) کا انتقال ہوا تو شمس الرحمٰن فاروقی بہت دِل گرفتہ تھے ۔اس کے ا یک سال بعد ان کے دِل کا بائی پاس آپریشن کیا گیا۔اس کے بعد ان کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ دہلی میں اپنی بیٹی باراں فاروقی کے ہاں مقیم تھے ۔ گزشتہ ماہ ان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی فریب ِ خواب ہستی کے تلخ حقائق کُھل کر سامنے آگئے کہ آنکھیں مُندنے کے ساتھ ہی رشتہ و پیوند،جاہ و جلال اور قدر و منزلت سے وابستہ سب حقائق کے باوجود انسان محض افسانہ بن کر ر ہ جاتاہے ۔یہ راز کُھل گیاکہ یہ دنیا ایک آئینہ خانہ ہے جس میں اجل کا فرمان زندگی کے ہیجان کو تماشا بنا دیتاہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کی رحلت کے بعد گلستان ادب سوگوار ہے اور ہر شخص یہی سوچ رہا ہے کہ اس عالم ِ آب و گِل میں حیات ِ مستعار کی مثال بساطِ سیل پر قصر ِ حباب کی تعمیر کے مانند ہے ۔
شمس الرحمٰن فاروقی کو بچپن ہی شعر و ادب سے دلچسپی تھی ۔جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو اُنھوں نے اپنی استعمال شدہ کاپی کے باقی ماندہ خالی صفحات کو باہر نکالا اور اُن پر اپنی اور اپنی بہن کی ادبی تخلیقات کو لکھ کر ’’ گلستان‘‘ کے نام سے پہلاادبی مجلہ مرتب کیا۔ایک وسیع المطالعہ ادیب کی حیثیت سے شمس الرحمٰن فاروقی نے کئی نابغۂ روزگار ادیوں سے اثرات قبول کیے ۔وہ بر طانوی ناول نگار تھامس ہارڈی (Thomas Hardy: 1840-1928) اور بر طانوی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئیر(: 1564-1616 William Shakespeare)کے بڑے مداح تھے ۔گزشتہ صدی کے وسط میں اُنھوں نے ترقی پسند تحریک اور جماعت اسلامی سے وابستہ ادیبوں کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کیااور ان کی تحریروں کا تجزیہ کیا ۔جلد ہی انھوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کو شعار بنایا۔ نئی نسل کو تہذیب و ادب کی دولت سے متمتع کرنے کی آرزو میں شمس الرحمٰن فاروقی نے انسانیت سے محبت کو شعار بنانے پر زور دیا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بے لوث محبت عنقا ہے ۔ سیّد جعفر طاہر کے اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ عشق واقعی ایک بھاری پتھر ہے :
ناز ہر بُت کے اُٹھا پائے نہ جعفر طاہر ؔ
چُوم کر رکھ دئیے ہم نے یہ بھاری پتھر

اُرد و زبان کے ایک سفیر کی حیثیت سے شمس الرحمٰن فاروقی نے دنیا بھر کی جامعات میں توسیعی لیکچرز دئیے جن کے اعجاز سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔اُنھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پس نو آبادیاتی دور میں بھارت میں سیاسی اور سماجی مسائل کے باعث اُردو کو اُس کا جائز مقام نہیں مِل سکا۔اُن کے خطبات ایک جام ِ جہاں نماکے مانند تھے جن کی غواصی سے عالمی ادب کے نئے رجحانات ، رفتارِ ادب ،مستقبل کے امکانات اور تہذیبی و ثقافتی مسائل و مضمرات کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے ۔اپنی تنقید میں صداقت ،دیانت، حق گوئی و بے باکی کو شعار بنانے والے قلم بہ کف مجاہد کے رخصت ہو نے کے بعد چراغوں کی روشنی کم پڑنے لگی ہے ۔ مستقبل کے محقق ،نقاداور مورخ ان خطبات کی روشنی میں اپنالائحہ عمل مرتب کر سکتے ہیں ۔ایسا دانش ور اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکے گا۔پس نو آبادیاتی دور میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات، جمالیات کے معائر ،ادب میں جدیدیت اور نئے ادبی تصورات کی روشنی میں فکر و خیال پر نظر ثانی کی راہ دکھانے والے اس جر ی نقادکی وفات سے علم و ادب کو جو نقصان پہنچاہے اُس کا ازالہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تخلیق ادب میں اپنے اٹل ،کٹھن اور سخت ترین معیارکی وجہ سے شمس الرحمٰن فاروقی کا شمار ایسے بے باک ناقدین ادب میں ہوتاتھا جو وقت کی کسی مصلحت کوخاطر میں نہیں لاتے ۔مثال کے طور پر فیض احمدفیض ؔ کے اسلوب کے بارے میں شمس الرحمٰن فاروقی کی رائے عام روش سے ہٹ کر تھی ۔نوآبادیاتی دور کی مسلط کردہ سامراج کی رعونت سے نفرت کرنے والے اس ادیب نے سدا کورانہ تقلید سے نجات حاصل کر نے پر اصرار کیا۔افکار ِ تازہ کی مشعل تھام کر جہان ِ تازہ کی جستجومیں انہماک کامظاہر ہ کرنا سداشمس الرحمٰن فاروقی کا شیوہ رہا۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے ابتدائی تعلیم ویلزلی ہائی سکول اعظم گڑھ ( اُتر پردیش ) سے سال 1949ء میں حاصل کی ۔اس کے بعد گورنمنٹ جو بلی ہائی سکول میں داخلہ لیا اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم سال 1951ء میں مکمل کی ۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بی ۔اے کی تعلیم مہارانا پرتاپ کالج گورکھ پور سے حاصل کی ۔اس کے بعد انھوں نے سال 1955ء میں انگریزی ادبیات میں ایم۔اے کی ڈگری الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ وہ سال 1960ء میں تخلیق ِ ادب کی طرف مائل ہوئے ۔اپنی عملی زندگی کا آغاز انھوں نے پوسٹل سروس کی ملازمت سے کیا اور وہ پوسٹ ماسٹر جنرل اور پوسٹل سروس بورڈ کے رکن کے عہدے سے سال 1994ء میں ریٹائر ہوئے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کا شمار اکیسویں صدی کے عظیم ترین ادیبوں میں ہوتاہے ۔ بعض ادیبوں کو دیوتاقرار دینے کی روش پرگرفت کرتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی نے مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ ،غلام ہمدانی مصحفیؔ اور میر تقی میر ؔ کے اسلوب کی کورانہ تقلید کے بجائے ان کے فکر و خیال کے ایسے حقیقت پسندانہ تجزیے پر اصرا کیا جس کے اعجاز سے اُنھیں دیوتا کے بجائے انسانی سطح پر دیکھا جا سکے ۔ اُن کے تجزیاتی مضامین مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ ،میر تقی میر ؔ اور شیخ غلا م ہمدانی مصحفی ؔ کے اسلوب کی اصل حقیقت کی گرہ کشائی سے لبریزہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی ایک کثیر التصانیف ادیب تھے ،اُن کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
Early Urdu literary culture and history (2001)
( 2005) How to Read Iqbal ? Eassays on Iqbal, Urdu Poetry and Literary Theory
The Flower-lit Road: Essays in Urdu Literature Theory and Criticism ( 2005)
Urdu Ka Arambhik Yug (2007)
شمس الرحمٰن فاروقی کی تصنیفات( تنقید )
1۔لفظ و معنی ( 1968)،2 ۔فاروقی کے تبصرے ( 1968)،3۔شعر ،غیر شعر اور نثر ( 1973)،4۔The Secret Mirror (1981) ،5۔افسانے کی حمایت میں ( 1982)، 6۔تنقیدی افکار( 1984)،7۔اثبات و نفی ( 1986)،8۔تفہیم غالب ( 1989)،9۔شعر شور انگیز،جلد اول ( 1990) ،10۔شعر شور انگیز،جلد دوم (1991)،11۔شعر شور انگیز ،جلدسوم (1992)،12۔شعر شور انگیز،جلد چہارم ( 1992)،13۔انداز گفتگو کیا ہے ؟(1993)،14۔اردو غزل کے اہم موڑ (1997)،15۔داستان امیر حمزہ ( 1998)، 16۔اردو کا ابتدائی زمانہ (1999)،17۔ساحری ،شاہی ،صاحبقرانی ( 2000)،18۔Early Urdu Literary Culture and History ( 2001) ،19۔غالب پر چار تحریریں ( 2001)،20.۔غالب کے چند پہلو(2001)
شمس الرحمٰن فاروقی کی تصنیفات( عروض و ابلاغ )
21۔عروض و آہنگ ( 1977)،22۔درسِ بلاغت ( 1981)
شاعری
23۔گنج سوختہ ( 1969)،24۔سبز اندر سبز ( 1974)،25۔چار سمت کا دریا (1977)،26۔آسمان محراب ( 1996)،27۔The Colour of Black Flower ( 2002)
فکشن
28۔سوار اور دوسرے افسانے ( 2001)،
تراجم
29۔Butcher کے ترجمے سے ارسطو کی ’’ شعریات ‘‘ ( Poetics) کا ترجمہ ( 1978)،30۔The Shadow of Bird in flight ( 1996)
31۔Abay Hayat
تدوین کی ہوئی کتب
32۔ نئے نام ( 1967)،33۔تحفتہ السرور ( 1985)،34۔اُردو کی نئی کتاب ،حصہ اول (1986)،35۔A Listening Game ( 1987)،36۔اُردو کی نئی کتاب ،حصہ دوم (1988)،37۔Modern Indian Literature Vol_I ،38.۔.II Modern Indian Literature Vol،39۔- IV ,Modern Indian Literature Vol
40۔انتخاب اردو کلیات غالب ( 1994)
شمس الرحمٰن فاروقی نے ریاست ہائے متحدہ کی ممتاز جامعہ پنسلوانیا فلاڈلفیا امریکہ میں ساؤتھ ایشیا ریجنل اسٹڈ یز میں جز وقتی پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ ترجمہ نگاری میں شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی صلاحیتوں کا لو ہامنوایا ۔
ا۔ ایک رجحان ساز ادیب کی حیثیت سے شمس الرحمٰن فاروقی نے آٹھ سو تیس صفحات پر مشتمل اپنے یادگار اورمعرکہ آرا ناول’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ سے تاریخ ادب میں اپنا دوام ثبت کر دیا۔ زمان و مکان کے ساتھ ساتھ اس ناول کی زبان بھی بدلتی رہتی ہے۔قدیم زمانے سے تعلق رکھنے والے معمرکرداروں کے رخصت ہونے کے ساتھ جب نئے زمانے میں نئے کردار وارد ہوتے ہیں تو اُن کے تکلم کے سلسلے اس بے ساختہ انداز میں بدل جاتے ہیں کہ قاری اس تبدیلی پر ششدر رہ جاتاہے ۔فارسی اور اُردو کے اشعار کے بر محل استعمال سے اس ناول میں تسلسل اور تجسس قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے ۔ ناول کی کہانی میں جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا گیاہے اُس کا نقطہ ٔ آغازاٹھارہویں صدی عیسوی میں راجپوتانہ کے حالات ہیں اور ایک سو سال گزرنے کے بعد لال قلعہ دہلی میں اس کہانی کی تکمیل ہوتی ہے شمس الرحمٰن فاروقی نے اس ناول میں قطرے میں دجلہ اور جزومیں کُل کا منظر دکھا کرقارئین کو حیرت زدہ کر دیاہے ۔ مطلق العنان بادشاہ اور فن کاروں کی زندگی کے مراحل ،بے بس و لاچار سائل ،نو آبادیاتی دور کے مسائل، تہذیب و تمدن ،معاشرت اور ثقافت کا احوال اس ناول میں جلوہ گر ہے ۔آخری عہدِ مغلیہ میں پرورش لوح و قلم میں انہماک کامظاہرہ کرنے والے اسداﷲ خان غالب ؔ ، امام بخش صہبائی ،احسن اﷲ خان حکیم ،گھنشیام لال عاصی ؔ اور نواب مرزا خان داغؔ جیسے حریت فکر کے مجاہد جنھوں نے حریت ِ ضمیر سے زندگی بسر کر نا اپنا مطمح نظر بنایا اس ناول میں پوری آن بان کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ بر صغیر میں ثرو ت مند گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں یہاں کے مسلمان اور ہندو برابر کے شریک رہے ہیں ۔ یہ یادگار ناول بر صغیر کی تاریخ ،ثقافت ،لسانی کیفیات اور تمدن و معاشرت کے بارے میں متعدد حقائق کو سامنے لاتاہے ۔اس ناول کا عنوان احمد مشتاق کے اس شعرسے لیا گیاہے :
کئی چاند تھے سر ِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمھاری زکف سیا ہ تھی

اردو زبان کے ممتاز ادیب شمس الرحمٰن فاروقی نے پندرہ سال کی عمر میں پہلا ناول لکھا مگر اُسے اپنی تخلیق تسلیم نہ کیا ۔ خو داحتسابی اور نقد و نظر کے سارے احوال پر اظہار ِ خیال شمس الرحمٰن فاروقی کا کمال سمجھاجاتاہے ۔ انھو ں نے ادبی تنقید کو منطق ،تنقیدی معائر ،نظریاتی مباحث اور طریق کار سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔اس کے چالیس سال بعد ستر برس کی عمر میں اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی اسلامی اور ہند ی تہذیب اور ادبی و انسانی روابط کے موضوع پر قدیم عہد کی ایسی عمدہ زبان میں یہ معرکہ آرا ناول لکھا جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے نہایت مہارت سے قدیم زبانوں کے ہزاروں الفاظ کو اپنی نثر میں ایسے شامل کیا ہے جیسے مرصع ساز انگوٹھی میں نگینہ لگا دیتاہے ۔ سب سے پہلے یہ ناول سال 2005ء میں اُردو شائع ہوا سال 2010ء میں اس کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور سال 2013ء میں شمس الرحمٰن فاروقی نے خود اس کا ـ ’’The Mirror of Beauty ‘‘کے نام سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ۔اس ناول میں مغلیہ دور میں بر صغیر کی سیاست ،تاریخ کے نشیب و فراز ،تمدن و معاشرت اور تہذیب و ثقافت کی جس انداز میں عکاسی کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ناول اُنیسویں صدی کی ایک آزاد خیال حسینہ وزیر خانم کے بارے میں ہے جو حُسن و جمال میں یکتاتھی ۔بہت سے چاہنے والوں کے ساتھ پیمان ِ وفا باندھنے والی اسی عورت کے بطن سے اردو زبان کے ممتاز شاعر نواب مرزا خا ن داغ ؔ دہلوی ( 1831-1905)نے جنم لیا۔ وزیر بیگم کاشجرہ نسب اور آبا و اجداد کا حال اس ناول کے ابتدائی ساٹھ صفحات پر محیط ہے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے زندگی کی راہوں کو جس انداز میں بدل دیتے ہیں یہ ناول نہ صرف اُس کے پس پردہ عوامل کی گرہ کشائی کرتا ہے بل کہ اِس خطے کی تہذیب و ثقافت اور اقدار و روایات پر بھی روشنی ڈالتاہے ۔ اُنیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں نو آبادیاتی نظام کے شکنجے کے باعث مغلیہ خاندان کی حکومت کے زوال کے نتیجے میں یہاں تہذیبی اور ثقافتی سطح پر جو تغیر و تبدل رونما ہوا یہ ناول اس کی بھر پور عکاسی کرتاہے ۔اس ناول میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ انسان کی مثال ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسے تحریر کے مانند ہے جسے طوفان حوادث کی مہیب موجیں پلک جھپکتے میں نیست و نابو کر دیتی ہیں ۔تقدیر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے اور انسان بے بسی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھ کر کف افسوس ملتا رہ جاتاہے ۔

۲۔ ہر افسانہ نگار اپنے لیے خود لائحہ عمل منتخب کرتاہے اردوزبان و ادب کے جہاں دیدہ۔کہنہ مشق اور معمر تخلیق کار کی حیثیت سے شمس الرحمٰن فاروقی نے نو آبادیاتی دور میں اپنے فن پاروں میں اظہار و ابلاغ کے لیے جو طرزِ فغاں منتخب کی پس نو آبادیاتی دور میں وہی بزم ادب میں طرز ِاد اقرار پائی ۔اپنے اس مختصر ناول The Sun That Rose From the Earth میں مرزا اسداﷲ خا ن غالب ؔ ( 1797-1869)، میر تقی میر ؔ ، ( 1723-1810)۔ اور غلام ہمدانی مصحفی ؔ ( 1751-1824)کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے شمس الرحمٰن فاروقی کے ناولوں اور افسانوں پر مشتمل اس کتاب میں شمالی ہند میں آخری عہد ِ مغلیہ کی اردو شاعری اور تہذیبی و ثقافتی اور ادب و فنون لطیفہ کے شعبوں میں ارتقا کا احوال بیان کیا گیاہے ۔آخری عہد مغلیہ کے حاکم محمد شاہ رنگیلا کے عہد حکومت میں اگرچہ سیاسی اعتبار سے حکومت زوال کا شکار تھی مگر ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں ترقی جاری تھی ۔جہاں تک لسانیات کا تعلق ہے شاہی دربار میں اردو نے فارسی کی جگہ لے لیے اور ساز اور آواز کے شعبوں میں خیال اور گائیکی کے نئے رنگ اور آ ہنگ سامنے آئے ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بر صغیر میں شاعری نے روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی صلاحیت کے اعجاز سے ساحری کا درجہ حاصل کر لیا۔اسی عرصے میں میر تقی میرؔ، نواب مرزا خان داغ دہلوی ( 1831-1905)، غلا م ہمدانی مصحفی ؔ اور مرزا اسداﷲ خان غالبؔ جیسے یگانۂ روزگار شعرا پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی تخلیقی فعا لیت کی بنا پر جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔اس کتاب میں اپنی جن اردو تخلیقات کو شمس الرحمٰن فاروقی نے انگریزی کے قالب میں ڈھالا ہے اُس میں سوار اور دوسرے افسانے کے علاوہ درج ذیل تین افسانے شامل ہیں ۔
"Bright Star,Lone Splendour ", In Such Meetings and Paintings,Ultimately" and " The Sun That Rose from the Earth"

میر تقی میر ؔ کی حیات معاشقہ کی کہانی اصفہان سے تعلق رکھنے والی ایک ڈیرے دار کسبی طوائف نورس سعادت کے گِرد گھومتی ہے۔نو رس سعادت کی ماں لبیبہ خانم ایک یتیم طوائف ہے جو قسمت آزمائی کے لیے آرمینیا سے اصفہان اور پھر دہلی پہنچتی ہے ۔میر تقی میر ؔ سے رازداری کے ساتھ محبت کرنے والی اس طوائف کوعیاش پرستاروں نے جیتے جی مارڈالا۔ کرداروں کے ملبوسات ،رہن سہن اور طرز تکلم کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مشاہدے کابھر پور استعمال کیاہے ۔

شمس الرحمٰن فاروقی اپنے عہد کے دائرۃ المعارف اور ممتاز ماہر لسانیات تھے سا ل 1960ء کے بعد سے اُنھوں نے مغربی تصورات کی آمیزش سے تخلیق ادب اور تنقید کے حوالے سے اپنی خاص لسانی تھیوری پر کام شروع کیا۔وہ کلاسیکی اردو شعریات کے احیا کے آرزو مندتھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ بر صغیر کی مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو ،عربی اور فارسی زبان کے کلاسیکی ادب کے مطالعہ سے گلشنِ ادب کو اس انداز میں نکھاراجائے کہ اس میں مٹی کی مہک پیدا کی جا سکے ۔ ایک لسانی محقق کی حیثیت سے اُن کا کہنا تھا کہ اردو میں سا ٹھ فی صد الفاظ سنسکرت سے لیے گئے ہیں اس لیے سنسکرت سے ناخوش و بیزار ہونا غیر حقیقی طرزِ عمل ہے ۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں سنسکرت پر خلاقانہ دستر س رکھنے والے والے ہندو ماہرین لسانیات نے اُرود زبان کے فروغ میں گہری دلچسپی لی ۔ سنسکرت نے لفظ کی کئی پرتوں پر زور دیایہ انداز اردو میں سنسکرت سے مستعار لیا گیا ہے ،فارسی اور عربی اس استعداد سے محروم ہیں ۔ آج سے سات سو برس پہلے گجرات میں مقامی زبان ہندی ،ہندوی یاگجراتی میں اظہا ر و ابلاغ کا سلسلہ شروع ہوا۔ بر صغیر کے طول و عرض میں مہا بھارت اور رامائن سے اخذ و استفادہ کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے ۔اردو زبان میں سینتالیس تراجم ایسے ہیں جو براہِ راست سنسکرت سے کیے گئے ہیں ۔اپنی ذہنی اُپج اور اختراع سے انھوں نے جو ادبی کہکشاں سجائی اُس کے جلووں سے قریۂ جاں چمک اُٹھا۔ اُنھوں نے یہ محسوس کہ بوجھل نوعیت کے متعدد علائق ایسے ہیں جن سے گلو خلاصی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔اسی سوچ کے زیر اثر انھوں نے پیہم ساٹھ برس تک تقلید کے بجائے جدت اور تنوع پر زور دیا اور افکار تازہ کی مشعل فروزاں کر کے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ تک ر سائی کے امکانات پر غور کو شعار بنایا۔ ایک رجحان ساز اور عہد ساز ادیب کی حیثیت سے شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی تصنیف ’’ شعر شور انگیز‘ ‘ کے ذریعے نہ صرف اردو ادب کی ثروت میں اِضافہ کیا ہے بل کہ اس کے اعجاز سے میر تقی میر ؔ کے اسلوب کی تفہیم کے نئے امکانات پیداہوئے ہیں ۔یہ اہم کتاب محض میر تقی میر ؔ کے اشعار کی تشریح پر مشتمل نہیں بل کہ اسے اردو شعریات میں سنگ ِ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔

شمس الرحمٰن فاروقی کے سانحہ ٔ ارتحال کی خبر سُن کر دنیا بھر میں اُن کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ موت کالرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ اجل کے ہاتھوں شمس الرحمٰن فاروقی جیسے روشنی کے سر بہ فلک میناروں کے انہدام سے ان کے فیض رساں اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی حسین یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان درد آشنا مسیحاؤں کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان اور دِل گرفتہ مداحوں کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی جیسے عظیم محسنوں کی رحلت کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے عظیم محسن رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ شمس الرحمٰن فاروقی جیسی محبوب ِخلائق ہستیاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تی ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے کہ اس وقت افقِ علم و ادب پر کوئی ایسا ستارہ ضو فشاں دکھائی نہیں دیتا جسے شمس الرحمٰن فاروقی جیسا کہا جا سکے ۔

اپنے وسیع مطالعہ ،تجزیاتی انداز ِ فکر اور دُور بین نگاہ سے شمس الرحمٰن فاروقی نے سالہا سال کی محنت کے بعد عالمی ادب میں جو ممتاز مقام حاصل کیا اس کا ایک عالم معترف ہے ۔ادب پر کسی خاص نظریے کے غلبے کو وہ پسند نہیں کرتے تھے اس لیے وہ خالصتاً ادب کی تخلیق کے لیے تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نمو پر توجہ دینے کی حمایت کرتے تھے ۔بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسانی معاشرے میں افراد کا رہن سہن ،سماجی روّیے،عادات و اطوار،علوم و فنون ،عقائد ،ادب و فنون لطیفہ ،رسوم و رواج ،قواعد و ضوابط اور استعدادِ کار سے ادیب گہرے اثرات قبول کرتاہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے روسی ہئیت پسندی اور محمد حسن عسکری کے افکار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شمس الرحمٰن فاروقی کے فکری ارتقا کا سلسلہ جاری ر ہا اور انھوں نے جدیدیت سے گہرے اثرات قبول کیے ۔اردو ،انگریزی ،فارسی اور ہندی زبانوں پر یکساں خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے عالمی ادب کے ماہرین سے اپنے فکر پرور اور خیال افروز مباحث سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لو ہا منوایا۔وہ تیشۂ حرف سے فصیل مکر و فریب کو منہدم کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتے تھے ۔اُن کا نام سنتے ہی چربہ ساز ،سارق ،جعل ساز اور کفن دُزد سفہا کی گھگھی بند ھ جاتی تھی ۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن ،چغد اور کر گس گُھس گئے ہیں ۔ کوہِ دغا و دُزدی پر کھڑ ے ہو کر ہنہنانے والے بونے جب اپنے تئیں باون گزا ثابت کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتے اور جی کا زیان کرتے ہیں تو سنجیدہ لوگ ایسے جعل سازوں کے مکر کی چالوں کو برداشت نہیں کر سکتے ۔بُز اخفش قماش کے ایسے اجلاف و ارذال ، سفہا اور بروٹس قماش کے مسخروں کے خلاف شمس الرحمٰن فاروقی کسی مصلحت کی پروا نہ کرتے اورسخت لہجے میں بات کرنے کے عادی تھے ۔

علمی و ادبی مجلہ ’’ شب خون ‘‘ پیہم چالیس بر س ( 1966-2006)تک شمس الرحمٰن فاروقی کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کی ادارت میں مجلہ ’’ شب خون ‘‘ بر صغیر میں جدیدیت کابہت بڑا ترجمان بن کر اُبھرا۔ ادبی مجلہ ’’ شب خون ‘‘ تنقید پر تنقید کے حوالے سے شمس الرحمٰن فاروقی کے نظریات کی عکاسی کرتاتھا۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے اُردو ادب میں خارجی تنقیدکو مروّج و مقبول بنانے کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ادیان عالم، فکشن،تاریخ ، علم بیان، علم عروض ،عالمی کلاسیک ،معاصر ادب ،لسانیات ،لغت نویسی،غالب اور علامہ اقبال پر شمس الرحمٰن فاروقی کا تحقیقی و تنقیدی کام فکر و خیال کے متعد نئے دریچے وا کرتاہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کو ارد و زبان کی کلاسیکی شاعری ،علم بیان اور علم عروض پر درجۂ استناد حاصل تھا ۔ اردو زبا ن میں سو لہویں صدی عیسوی کے فن داستان گوئی کو نئی تاب و تواں عطا کرنے کے سلسلے میں شمس الرحمٰن فاروقی کی مساعی ناقابل فراموش ہیں ۔ داستان ِ امیر حمزہ کے داستان گویوں پر شمس الرحمٰن فاروقی کی تحقیق متعدد خیال افروز حقائق اور چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہے ۔ گلزار ِ ہست و بُود میں ہر طرف انسانی زندگی کی داستان بکھری ہے مگر انسان خود بھی اپنی حقیقت کا شناسا نہیں ہے ۔مرزاعبدالقادر بیدلؔ ( 1642-1720) نے سچ کہا تھا :
عالم ہمہ افسانہ ٔ ما دارد و ما ہیچ

اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے شمس الرحمٰن فاروقی نے جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔بر صغیر میں اردو زبان کے حق میں آواز بلند کرنا شمس الرحمٰن فاروقی کی زندگی کانصب العین رہاہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اُنھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ سال 2005ء میں گیان چند جین کی کتاب ’’ ایک بھاشا : دو لکھاوٹ ،دو ادب ‘‘ پہلی بار شائع ہوئی تو شمس الرحمٰن فاروقی نے کسی مصلحت کی پروا کیے بغیر مدلل،مفصل اور عالمانہ جواب دیا ۔ غزل کی وہ روایت جس کا دکن سے آغاز ہوا اُسے شمس الرحمٰن فاروقی نے سدا پیشِ نظر رکھا۔خواجہ دِل محمد کا اسلوب شمس الرحمٰن فاروقی کو بہت پسند تھا جنھوں نے ’’ دِل کی گِیتا‘‘ کے عنوان سے ’’ گِیتا ‘‘ کا ترجمہ کیا تھا۔ دہلی سے د و سو سال قبل دکن میں قلی قطب شاہ نے آسان زبان میں اپنے جذبات کا اظہار کر کے غزل کو نکھار عطاکیا ۔دکنی غزل میں عورت کو محبوب قرار دیا گیاہے اور تکلم کے سب سلسلے عورت سے وابستہ ہیں ۔ ولی دکنی اور شاہ سعداﷲ گلشن کی دہلی میں ہونے والی ملاقات کو شمس الرحمٰن فاروقی نے خیال آرائی پر مبنی قرار دیا۔شمس الرحمٰن فاروقی کی شاعری اُن کی نثر کے بلندآ ہنگ میں دب گئی ہے ۔ ایک کوہ پیکر تخلیق کار کی حیثیت سیشمس الرحمٰن فاروقی نے اردوشعریات کو منفر د آہنگ عطا کیا ۔اُن کی شاعری اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے ۔ رجحان ساز شاعر اور مفکر شمس الرحمٰن فاروقیکا نمونہ کلام درج ذیل ہے :
کنارِ آب ہے دیکھوں گا موجِ آب میں سانپ
یہ وقت وہ ہے دکھائی دے ہر حباب میں سانپ
ادھر سے دیکھیں تو اپنا مکان لگتاہے
اک اور زاویے سے آسمان لگتاہے
جو اُترا پِھر نہ اُبھرا کہہ رہا ہے
یہ پانی مدتوں سے بہہ رہا ہے
گرگِ احساس سے بچنے کی تو کوئی نہیں راہ
سگِ تخیل پہ بند آنکھ کا دروازہ کریں
شور طوفان ہوا ہے بے اماں سنتے رہو
بند کُو چوں میں رواں ہے خون جاں سنتے رہو

شمس الرحمٰن فاروقی نے شاعری کے فرسودہ اور پامال اسالیب سے بچنے کی تلقین کی ۔بر صغیر میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کو متعارف کرانے کے سلسلے میں شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریروں نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اردو شاعری کو سراپا نگاری ،حُسن و جمال ،ہجر و فراق ،جفا اور وفا جیسے موضوعات کے بجائے نئے موضوعات کی جستجو کرنی چاہیے ۔ہر تہذیب اپنے دامن میں منفر دنوعیت کے موضوعات کے خزانے رکھتی ہے ۔اردو زبان کے ادیبوں کو اقتضائے وقت کے مطابق اپنے تہذیبی خزائن کی حفاظت پرتوجہ دینی چاہیے ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی ماحول کے تقاضوں کے مطابق ادیبوں کو تخلیق ادب کے لیے نئے معائر اور قواعد و ضوابط کی ترتیب و تشکیل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی بقا ہی زندگی کی بقا ہے اس لیے روایات کے تحفظ کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھنا چاہیے ۔ اس عہد ساز ادیب کی رحلت سے نہ صرف ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا بل کہ ایک دبستانِ علم و ادب کا خاتمہ ہو گیا۔
شور تھمنے کے بعد ( نظم )
اب شور تھما تو میں نے جانا
آدھی کے قریب رو چُکی ہے
شب گرد کو اَشک دھو چُکی ہے
بھاری ہے مثل موت شہپر
ہے سانس کو رُکنے کا بہانہ
تسبیح سے ٹُوٹتاہے دانہ
میں نقطہ حقیر آسمانی
بے فصل ہے بے زماں ہے تُو بھی
کہتی ہے یہ فلسفہ طرازی
لیکن سنسناتی وسعت
اِتنی بے حرف و بے مروّت
آمادۂ حرب لا زمانی
دُشمن کی اجنبی نشانی

ایوارڈز :
شمس الرحمٰن فاروقی کو پوری دنیا سے اعزاز و ایوارڈز ملے ۔اُن میں سے چند درج ذیل ہیں :
۱۔ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ( 1986)، ۲۔سر سوتی سمّان برلہ فاونڈیشن ،نئی دہلی ایوارڈ ( 1996)، ۳۔ پدم شری ایوراڑ 2009،۴۔نشان امتیاز ( پاکستان)

اولاد:
شمس الرحمٰن فاروقی کی بڑی بیٹی افشاں فاروقی اس وقت یونیورسٹی آ ف ورجینامیں اردو اور بر صغیر کی ثقافت کی تدریس پر مامور ہیں۔ اُن کی چھوٹی بیٹی باراں فاروقی اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں انگریزی ادب کی پروفیسر ہیں۔ دونوں بیٹیوں نے عالمی کلاسیک کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی جو مساعی کی ہیں ان سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے ۔شمس الرحمٰن فاروقی کی دونوں بیٹیوں کا تعلق ادب سے ہے اوراُن کے والد نے روشنی کا جو سفر شروع کیا تھاوہ اسے جاری رکھنے کے لیے پر عز م ہیں ۔

سفر آخرت:
جمعہ 25دسمبر کی شام چھے بجے اشوک نگر الہ آباد کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپالیا۔ شمس الرحمٰن فاروقی کو اُن کی اہلیہ جمیلہ( مر حومہ ) کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔دنیا بھر کے ادیبوں نے اس عبقری دانش ور کے حضور آہوں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا ۔ان میں پروفیسر بیگ احساس ،جشن ریختہ کے بانی سنجیت صراف ،سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے مورخ اور ادیب ولیم ڈار لیمپل( William Dalrymple )بھی شامل ہیں ۔ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنا کر شمس الرحمٰن فاروقی ہماری دنیا چھوڑ کر ایک نئی دنیا میں جابسے ہیں ۔پچیس دسمبر 2020ء کو شام آٹھ بجے باز گشت اون لائن کے ایک تعزیتی ویبینار میں ناظرین نے شمس الرحمٰن فاروقی کی علمی ،ادبی اور لسانی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اورقرار داد ِ تعزیت منظور کی گئی ۔یہ تعزیتی مضمون لکھ چکا تو میں نے چشمِ تصور سے شمس الرحمٰن فاروقی کو دیکھا جو اپنے خاص دبنگ لہجے میں کہہ رہے تھے :
بنائیں گے نئی دنیا ہم اپنی
تری دنیا میں اَب رہنا نہیں ہے
--------------------------------------------------
Dr.Ghulam Shabbbir Rana ( Mustafa Abad ,Jhnag City -Pakistan)
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.