رمضان المبارک: احادیث کی روشنی میں
(shabbir Ibne Adil, karachi)
رمضان المبارک: احادیث رمضان کی آمد پر رسول اللہ ﷺ کا ایک خطبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپؐ نے فرمایا کہ " اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات (شب قدر)ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے فرض کئے گئے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام اللیل یعنی تراویح کواللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود کرتے گا تو وہ اسطرح ہے کہ رمضان کے سوا دیگر مہینوں میں فرض ادا کیا ہو اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہے جیسے رمضان کے سوا کسی دوسرے مہینے میں کسی نے ستر(۰۷) فرض ادا کئے ہوں۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن بندوں کے رزق مییں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے) افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیاجائے گا اور روزہ دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یار سول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرادے (رسول اللہ ﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جوکوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، حتیٰ کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ (اس کے بعد آپؐ نے فرمایا) اس ماہِ مبار ک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔ اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا "۔ (مشکوٰۃ، للبیہقی)
ماہ رمضان کے فضائل و برکات ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑدئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا اورجنت کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان کا کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا، اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آ، اور اے بدی اور بد کرداری کے شائق رک، آگے نہ آ! اور اللہ کی طرف سے بہت سے (گناہ گار) بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے(یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے) اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا رہتا ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) ٭ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خیر کی بخشش اور خلق اللہ کی نفع رسانی میں اللہ کے سب بندوں سے فائق تھے اور رمضان مبارک میں آپؐ کی یہ کریمانہ صفت اور زیادہ ترقی کرجاتی تھی۔ رمضان کی ہر رات میں جبرئیل امین ؑ آپؐ سے ملتے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کو قرآن مجید سناتے تھے۔ تو جب روزانہ جبرئیل ؑ آپ ؐ سے ملتے تو آپ ؐ کی اس کریمانہ نفع رسانی اور خیر کی بخشش میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہواؤں سے بھی زیادہ تیزی آجاتی اور زور پیدا ہوجاتا۔ (بخاری و مسلم) روزہ کی قدر وقیمت اور اس کا صلہ ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہہ رسول اللہ ﷺ نے (روزے کی فضیلت اور قدرو قیمت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے (یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الٰہی یہی ہے کہ ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور عطا ہوگا اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اوراخلاص وخشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہہوگا، یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمال حسنہ کااجر سات سو گنا عطا فرمایا جائے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون کا ذکر فرمایا) مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے، وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لئے ایک تحفہ ہے، اورمیں ہی (جس طرح چاہوں گا) اس کا اجروثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے (پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا) روزہ دار کے لئے دو مسرتیں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک ومولیٰ کی بارگاہ میں حضوری اور شرف باریابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (یعنی انسانوں کے لئے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے) اور روزہ (دنیا میں شیطان اور نفس کے حملوں سے بچاؤ کے لئے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کے لئے) ڈھال ہے۔ اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہئے کہ وہ بے ہودہ اور فحش بات نہ بکے اور شور وشغب نہ کرے، اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری و مسلم) ٭ حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے، جس کو "باب الریان" کہا جاتا ہے۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہوگا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوسکے گا۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے۔ اس کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیے، جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے۔ (سنن نسائی) روزے اورتراویح باعث مغفرت ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے ایمانی کیفیت کے ساتھ اجرِ آخرت کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے ان گناہوں کو معاف کردے گا جو پہلے ہوچکے ہیں۔ اور ایسے ہی جو لوگ ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل (تراویح وتہجد) پڑھیں گے ان کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے، اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نوافل پڑھیں گے ان کے بھی سارے پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ (بخاری و مسلم)
روزہ اور قرآن کی شفاعت ٭ حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن کو روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام قرآن کریم پڑھے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا، اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما(اور اس کے ساتھ مغفرت ورحمت کا معاملہ فرما)۔ اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، خداوندا! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما (اور اس کے ساتھ بخشش اور عنایت کا معاملہ فرما) چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی (اور اس کے لئے جنت اور مغفر ت کا فیصلہ فرمادیا جائے گا) اور خاص مراحم خسروانہ سے اس کو نوازا جائے گا۔ (للبیہقی) رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے کا نقصان ناقابل تلافی ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشا دفرمایا کہ جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری (جیسے کسی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ ے گا) پھر اگر وہ عمر بھر بھی روزے رکھے تب بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ (مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی) روزے میں معصیتوں سے پرہیز ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بخاری) ٭ روزے کے مفسدات کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اپنی زبان سے فحش بات نہ نکالے اور نہ شور وہنگامہ کرے، اور اگر کوئی اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑائی پر آمادہ ہوتو اسے یہ کہہ دینا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں (بھلا میں کس طرح گالی دے سکتا اور لڑ سکتا ہوں)۔ (بخاری ومسلم) عشرہئ اخیر اور لیلتہ القدر ٭ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں عبادت و مجاہدہ کرتے اور اتنی مشقت کرتے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (مسلم) ٭ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے) اور اپنے گھر کے لوگوں (یعنی ازواج مطہرات ؓ اور دوسرے متعلقین) کو بھی جگادیتے (تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں)۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر کو تلاش کرو، رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں۔ (صحیح بخاری) ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور ہر اس بندے کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ کے ذکر وعبادت میں مشغول ہوتا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی) شب قدرکی ایک خاص دعا ٭ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات شب قدر ہے تو میں اس رات اللہ سے کیا دعا مانگوں؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ عرض کرو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفْوّ’‘ تُحِبّ’‘ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (احمد، ترمذی) "میرے اللہ، تو معاف کرنے کو محبوب رکھتا ہے، پس مجھے معاف کردے۔ رمضان کی آخری رات ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لئے مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ! کیا وہ شب قدر ہوتی ہے؟آپؐ نے فرمایا کہ شب قدر تو نہیں ہوتی، لیکن بات یہ ہے کہ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کردے تو اس کو پوری اجرت مل جاتی ہے۔ (مسند احمد) اعتکاف ٭ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپؐ کا یہ معمول رہا، آپ ؐ کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال آپؐ اعتکاف نہیں کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (جامع ترمذی) ٭ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے مسجد میں مقید ہوجاتا ہے اور)گناہوں سے بچارہتا ہے، اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے بندے کی طرح جاری رہتا ہے اور نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ) سحر اور افطار کے بارے میں ہدایات ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سحری کھالیا کرو، اس لئے کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت ابوسعید ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سحری کھانے میں برکت ہے، اسے ہرگز نہ چھوڑو، اگر کچھ نہ ہو تو پانی کے چند گھونٹ ہی پی لیا کرو، کیونکہ سحر کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے، اور فرشتے ان کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں۔ (مسنداحمد) ٭ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے۔ (صحیح مسلم) افطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر کا حکم ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ مجھے وہ پسند ہے جو روزے کے افطار میں جلدی کرے (یعنی غروبِ آفتاب کے بعد ہرگز تاخیر نہ کرے)۔ (جامع ترمذی) ٭ حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میری امت کے لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے وہ اچھی حالت میں رہیں گے۔ (بخاری، مسلم) ٭ حضرت انس ؓ حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر (جلد ہی) آپؐ نماز فجر کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ سحری کھانے اور فجر کی اذان کے درمیان کتنا وقفہ رہا ہوگا؟ انہوں نے فرمایا کہ پچاس آیتوں کی تلاوت کے بقدر۔ (بخاری ومسلم) افطار کے لئے کیا چیز بہتر ہے؟ ٭ حضرت سلمان بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے افطار کرے، کھجور میسر نہ ہوتو پھر پانی سے افطار کرے، فی الواقع پانی انتہائی پاک ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) ٭ معاذ بن زہرہ تابعی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تھے تو کہتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطِرْتُ (اے اللہ! میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا)۔ (سنن ابی داؤد) ٭ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تھے تو کہتے تھے کہ پیاس چلی گئی اور رگیں (جو سوکھ گئی تھیں وہ) تر ہوگئیں، اور اللہ نے چاہا تو اجرو ثواب قائم ہوگیا۔ (سنن ابی داؤد) روزہ افطارکرانے کا ثواب ٭ حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا، یا کسی مجاہد کو جہاد کا سامان دیا (مثلاً اسلحہ وغیرہ) تو اس کو روزہ دار اور مجاہد کے مثل ہی ثواب ملے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی، شرح السنۃ للبغوی) سفر میں روزہ ٭ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے جو بہت روزے رکھا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میں سفر میں روزے رکھ لیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ چاہو تو رکھو اور چاہو نہ رکھو۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں آپ ؐ برابر روزے رکھتے رہے، یہاں تک کہ آپؐ مقام عسفان تک پہنچ گئے (وہاں سے آپؐ نے روزے رکھنے چھوڑ دئیے، اور سب پریہ بات واضح کردینے کے لئے) آپؐ نے پانی منگوایا، پھر آپؐ نے اس پانی کو ہاتھ میں لے کر اوپر اٹھایا، تاکہ سب لوگ دیکھ لیں (اس کے بعد آپؐ نے اس کو پیا) پھر مکہ پہنچنے تک آپ ؐ نے روزے نہیں رکھے، اور یہ سب ماہِ رمضان میں پیش آیا۔۔۔۔ تو ابن عباس ؓ (اسی بناء پر) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزے رکھے بھی ہیں اور قضاء بھی کئے ہیں، تو (گنجائش ہے) کہ جس کا جی چاہے سفر میں روزے رکھے اور جس کا جی چاہے قضا کرے۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت ابوسعید خُدری ؓ سے روایت ہے کہ ہم جہاد کے لئے چلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سولہویں رمضان کو، تو ہم میں سے بعض نے روزے رکھے اور بعض نے رخصت سفر کی بناء پر قضاء کئے، تو نہ تو رکھنے والوں نے قضاء سفر کرنے والوں پر اعتراض کیا اور نہ قضا ء کرنے والوں نے روزے رکھنے والوں پر اعتراض کیا (یعنی ہر ایک نے دوسرے کے طرز عمل کو جائز اورشریعت کے مطابق سمجھا)۔ (مسلم) ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم میں سے بعضے روزے رکھتے تھے، بعضے قضاء کرتے تھے تو ایک دن جب کہ سخت گرمی تھی ہم ایک منزل پر اترے، تو روزے رکھنے والے تو گرگئے اور پڑگئے اورجو روزے قضاء کرنے والے تھے وہ اٹھے، انہوں نے سب کے لئے خیمے لگائے اور سب کی سواریوں کو (یعنی سواری کے اونٹوں) کو پانی پلایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج روزے قضاء کرنے والے ثواب مارلے گئے(یعنی انہوں نے زیادہ ثواب کمالیا)۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے۔ آپ ؐ نے لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور ایک آدمی کو دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھاتو آپؐ نے فرمایاکہ کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ صاحب روزہ دار ہیں (ان کی حالت غیر ہورہی ہے اس لئے سایہ کیا جارہا ہے اور لوگ جمع ہوگئے ہیں) آپؐ نے فرمایا کہ سفر کی حالت میں یہ روزہ تو کوئی نیکی کا کا م نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم) کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس نے روزہ کی حالت میں بھول کر کچھ کھا لیا یا پی لیا تو (اس سے اس کاروزہ نہیں ٹوٹا، اس لئے) وہ قاعدہ کے مطابق اپنا روزہ پورا کرے، کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے(اس نے خود ارادہ کرکے روزہ نہیں توڑا ہے، اس لئے اس کاروزہ علیٰ حالہ ہے)۔ (بخاری و مسلم) ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ میری آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا میں روزے کی حالت میں سرمہ لگا سکتا ہوں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! لگا سکتے ہو۔ (جامع ترمذی) ٭ حضرت عامر بن ربیعہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اتنی دفعہ کہ میں شمار بھی نہیں کرسکتا، روزہ کی حالت میں مسواک کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد) ٭ رسول اللہ ﷺ کے بعض اصحاب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مقام عرج میں دیکھا، آپؐ روزے سے تھے اور پیاس یا گرمی کی شدت کی وجہ سے سر مبارک پر پانی بہا رہے تھے۔ (مؤطا امام مالک، سنن ابی داؤد) ٭ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ (روزے کی حالت میں) میرے اندر سخت تقاضا اور جذبہ پیدا ہوا اورمیں نے (اپنی بیوی کا) بوسہ لے لیا۔ اس کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ آج مجھ سے بہت بڑا قصور ہوگیا، میں نے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا؟ آپؐ نے فرمایا کہ بتاؤ اگر تم پانی منہ میں لے کر کلی کرو(تو کیا اس سے تمہارے روزے میں خرابی آئے گی؟) میں نے عرض کیا کہ اس سے تو کوئی خرابی نہ آئے گی۔ آپ ؐ نے فرمایا تو پھر (خالی بوسہ لینے سے)کیا ہوا۔ (سنن ابی داؤد) ٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ؐ سے روزے کی حالت میں بیوی کے ساتھ لیٹنے لپٹنے کے بارے میں سوال کیا(کہ اس کی گنجائش ہے یا نہیں)۔ آپؐ نے ان کو بتایا کہ گنجائش ہے، اور دوسرے صاحب نے آکر آپؐ سے یہی سوال کیا تو آپؐ نے ممانعت فرمادی (اور اجازت نہیں دی) تو جن کو آپؐ نے گنجائش بتائی تھی وہ بوڑھی عمر کے آدمی تھے اور جن کو ممانعت فرمائی وہ جوان تھے۔ (سنن ابی داؤد) ٭ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا: پچھنے لگوانا، قے ہوجانا اور احتلام۔ (جامع ترمذی)
|