حکومت کو نواز شریف کے مطالبات ماننے میں کیا حرج ہے

نواز شریف کا یہ مطالبہ سو فیصد درست ہے کہ خارجہ پالیسی پر فوج کے بجائے حکومت کا غلبہ ہونا چاہئے ....؟

اِس میں تو کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ سانحہ دومئی اور بائیس مئی کے واقعات سے یہ بات پوری طرح سے عیاں ہوچکی ہے کہ دشمن ہمارے ملک میں چھپا بیٹھا ہے اور وہ موقع محل کا فائدہ اٹھاکر اپنے اہداف کو ٹھیک ٹھیک طرح سے نشانہ بناکر ہمیں ہر طرح سے مفلوج اور کمزور کرنے کی پوری صلاحیت بھی رکھتا ہے اِس پس منظر میں ہمیں اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے اندر مثالی اتحاد اور ملی یکجہتی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا اور یہ بھی یاد رکھو کہ اگر اَب بھی ہم اپنی ذاتیات اور اَنا کے خول سے باہر نہ نکل سکے تو پھر ہماری تباہی اور بربادی ہی ہمارا مقدر ہوگی ۔

ایسے میں ہمیں اپنے تمام اختلافات کو بھلاکر صرف ایک پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا تو ہم اپنے دشمن کا مقابلہ کرسکیں گے ورنہ ہم نے ایسانہ کیاتو پھر وہی ہوگاجو دشمن چاہتاہے اور دشمن کیاچاہتاہے...؟ اِس کا مظاہر ہ اِس نے دومئی اور بائیس مئی کو کرکے دکھادیاہے ایسے میں ہمیں اپنی دفاع پر معمور پاک افواج پر تنقیدکرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکے گااُلٹاہم اپنے اِس عمل سے اپنی فوج کا مورال متاثرکریں گے جس کا فائدہ ہمارے دشمن کو ہوگااور دشمن تو یہی چاہتاہے کہ پاکستانی عوام اور فوج کا رشتہ کسی طرح کمزروہوتو وہ اِس سے فائدہ اٹھائے ۔

اَب اِس پس منظر میںملک کے سابق صدرجنرل (ر) پرویزمشرف کے ہاتھوںشدیدمتاثر ہونے والے اور موجودہ حکومت کے ایوان میں کچھ عرصہ قبل تک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار اداکرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے سیفما میںصحافی سلیم شہزادکے قتل پر منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے اپنے خطاب کے دوران خارجہ پالیسی پر فوج کا عمل دخل اور اِسی طرح آئی ایس آئی کابجٹ ایوان کو دکھانے سے متعلق جو کچھ بھی کہاہے وہ بیشک درست ہے مگر ایک ایسے وقت میں کہ جب ہمارادشمن اعلانیہ طور پر یہ چاہتاہے کہ پاکستان کی دفاعی لائن کو کمزور کرنے کے لئے فوج اور عوام کارشتہ نہ صرف کمزروکیاجائے بلکہ دشمن کی خواہش یہ بھی ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان قائم یہ رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم بھی کردیاجائے تو اِن نازک لمحات میں جن سے آج ہماراملک دوچار ہے ایسے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی جانب سے ایسے مطالبات ذراکچھ مناسب نہیںلگتے ہیں کیوں کہ جس طرح اور جس انداز سے اُنہوںنے ملک کی خارجہ پالیسی سے متعلق جن اہم نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ” خارجہ پالیسی پر فوج کے بجائے حکومت کا غلبہ ہوناچاہئے“ اور اِسی طرح اُنہوں نے اِس موقع پریہ بھی کہاکہ”ادارے خود کودرست کرلیں تو تنقیدختم ہوجائےگی،اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اپنے اِس خطاب میں یہ مطالبہ بھی کیاکہ ”آئی ایس آئی کا بجٹ ایوان کی ہاؤس کمیٹی کو دیکھنا چاہئے“ اِس سے تو صاف طور پر یہ ظاہر ہورہاہے کہ جیسے یہ آئی ایس آئی اور فوج کو ہدف تنقیدبناکرملک کے دشمن کے عزائم کو تقویت دے رہے ہیں۔

مگراس کے باوجود بھی ہم موجودہ حکمرانوں اور پاک فوج کے سربراہ سے یہی کہیں گے کہ اگر نواز شریف کے یہ مطالبے ملک کی بقاءو سا لمیت اور استحکام کے لئے کوئی بہتری لاسکتے ہیں تو اِن کے یہ مطالبے آپ لوگوں کو مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہوناچاہئے اور اِسی طرح اِن کے یہ دونوں مطالبے” خارجہ پالیسی پر فوج کے بجائے حکومت کا غلبہ ہوناچاہئے“اور ”آئی ایس آئی کا بجٹ ایوان کی ہاؤس کمیٹی کو دیکھنا چاہئے“ مان لینے میں کسی قسم کی حیل حجت کا ہرگزمظاہرہ نہیں کرناچاہئے ۔اور اِس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر حکمرانوں اور افواج پاک کے سربراہان نے اِن لمحات میں جن سے ملک دوچار ہے اگر ایسے میںیہ اپنی اَنااور ضدپرقائم رہے اور نواز شریف کے یہ مطالبے نہیںمانیں تو ایک طرف نواز شریف کو اپناسیاسی قداُونچاکرنے کا موقع مل جائے گا تو دوسری جانب عوام میںبھی یہ شک پیداہوگاکہ حکمران اور فوج نواز شریف کے مطالبے پورے کرنے میں کیوں کترارہے ہیں...؟یقیناً اِس میں کچھ نہ کچھ ضرور دال میں کالاہوگا....؟ اور اِسی طرح عوام اور فوج میںدوریاںپیداہونی شروع ہوجائیں گیںجس کا فائدہ ہمارادشمن اٹھائےگا۔

جبکہ دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ قوم کو اپنی مسلح افواج پر آج بھی اتناہی بھروسہ ہے جتنا پہلے دن تھا اور ایسے میں اپنے یا اغیاراورکوئی کچھ بھی کرلے مگر پاکستانی فوج اور عوام کے درمیان جو رشتہ پہلے ہی دن سے قائم ہوگیاتھا وہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط سے مضبوط تر ہوتاجارہاہے اِسے کوئی اپنے منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈوں سے ختم تو کیا کم بھی نہیں کرسکتا... مگر اِس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ پاکستانی فوج کو قائداعظم محمد علی جناح جو دفاعی اُمور کے ماہر تھے اِن کا14جون 1948کو اسٹاف کالج کوئٹہ کا خطاب اور اِس کے بعدقائد نے ایک فوجی افسر کو جس طرح سمجھایاتھا وہ بھی اچھی طرح سے ذہن نشین رکھناچاہئے جس میں اُنہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہاتھاکہ”مت بھولوکہ تم ریاست کے ملازم ہو ۔تم پالیسی نہیںبناتے۔عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلاناہے..؟تمہاراکام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلوں پر عمل کرناہے“ہم یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے اِن الفاظ کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ قائد اعظم مملکت خداداد پاکستان میں ہر حال میں اورہمیشہ سویلین حکمرانوں کی بالادستی کے قائل تھے اور قائداعظم سول و فوجی سرکاری ملازمین کو پیشہ ورانہ سرگرمیوںتک محدودرکھنے کے حامی تھے۔ اور اِس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم کے اِس خطاب سے یہ واضح ہوگیاہے کہ فوج کو ملکی اُمور میں حصہ لینے اور پالیسی بنانے کے کاموں میں خود کو اُلجھانے کے بجائے اپنی پیشہ ورانہ امُور پر توجہ دے کر اِن میں مہارت حاصل کرنی چاہئے۔

اَب اِس پس منظر میں ہمیںیہاںیہ بھی کہنے دیجئے کہ اگرچہ ہماری پاکستانی سیاست میںملٹری مداخلت اور کھینچاتانی کا عنصر کوئی نئی بات نہیں ہے کیوں کہ ملکی اُمور میں حقیقی معنوںمیںفوجی مداخلت کاسلسلہ تو 1953-54میں ہی شروع ہوگیاتھا مگر اِسے صحیح معنوںمیںتقویت 1958میں اُس وقت ملی جب فوج نے پہلی بار حکومت پر قبضہ کرکے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔اور پھر یہیں سے کبھی سول اور کبھی فوجی حکومتوں کے آنے جانےکا ایک ایساسلسلہ چل پڑاکہ جو کہیںتھمنے کانام نہیںلیتا...

ہاں البتہ !اِس اٹھا پھٹک کے گیم میں اَب اتنا فرق ضرور آگیاہے کہ پہلے دویا تین سالوں میںحکومتیںتبدیل ہوتیں تھیں مگر اَب پہلی بار ایسالگنے لگاہے اِس میں آہستہ آہستہ استحکام آتاجارہاہے کیوں کہ اَب ایسامحسوس ہورہاہے کہ موجودہ حکومت اپنے نومولود جمہوری طرز عمل کے ساتھ اپنی مدت شائد پوری کرجائے،بہرکیف!ہم ابھی یہ سمجھتے ہیں کہ اِس کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتاہے کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرپائےگی بھی کہ نہیں کیوں کہ ملکی حالات اور واقعات چیخ چیخ کر تو یہ بتارہے ہیں کہ آئندہ دنوں میں کچھ بھی ہوسکتاہے.....!!

اور آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ آج بھی ہماری ملکی تاریخ کے اوراق میںیہ الفاظ سُنہرے حرف میں رقم ہیں کہ قائدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے قیام پاکستان سے قبل عبوری حکومت کے وزیرخزانہ کی حیثیت سے اُنہوں نے غریب آدمی کا بجٹ پیش کرکے ہندوؤں اور انگریزوں کی سازشوں کوجس طرح ناکام بنایاوہ اِنہی کا حصہ تھا اور قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم کے عہدے کے ساتھ مرکزی وزیر دفاع کا محکمہ بھی اِنہی کے سپردرہااور بطور وزیردفاع اِن کی وہ تقریربڑی مقبول ہوئی جس میں اُنہوں نے دشمن کو اپنا آہنی مکّادکھاتے ہوئے عوام سے کہا”بھائیوں!یہ پانچ انگلیاں جب تک علیحدہ علیحدہ ہوں تو اِن کی قوت کم ہوتی ہے لیکن یہ جب مل کر مُکّا ہوجائیں تو یہ مُکّادُشمن کا منہ توڑسکتاہے“ تو آج جس نازک دور سے ہماراملک گزررہاہے ایسے میں ہمیں اپنے تمام ذاتی ،سیاسی ، مذہبی اور لسانی اختلافات کو بھلاکر قائد ملت لیاقت علی خان کا وہ مُکّابنناہوگا جو دشمن کا منہ توڑ دے اوراِسی کے ساتھ ہی ہم اپنی پاک فوج کو بھی 20نومبر 1948ءکو مشرقی پاکستان میں فوجیوں سے کئے جانے والا قائد ملت لیاقت علی خان کا وہ خطاب بھی یاد کراناچاہتے ہیں جس میں اُنہوں نے کہا تھاکہ”پاکستان کے تحفظ کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کے لئے تیار رہواور نظم و ضبط، بلند حوصلے اور یقین مُحکم پر عمل پیراہو، تاکہ ملک کے لوگ اِن سے سبق حاصل کریں۔حکومت یہ چاہتی ہے کہ ملک کے دفاع میں سب صوبے برابر کاحصہ لیں ملک کے دفاع کی ذمہ داری ایک گروہ پر نہیں ہے حکومت اپنی آمدنی کا بڑاحصہ ملک کے دفاع پر صرف کررہی ہے برصغیرہند کے مسلمانوں نے دوسوسال کی غلامی کے بعد جو آزادی حاصل کی ہے اِسے برقراررکھنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں گے“ اَب ایسے میں کہ جب ہمارے ملک میں رونماہونے والے واقعات کے بعد ہمارے حکمرانوں اور افواج پاکستان کے سربراہان پر امریکاجیساہمارا دوست نمادشمن اپنا دباؤ بڑھائے جارہاہے تو اِن حالات و اقعات کے حوالے سے ہماراخیال یہ ہے ملک کے کسی بھی شخص کو یہ زیب نہیں دیتاہے کہ وہ فوج کو تنقید کا نشانہ بنائے اور افواج پاک کو بدنام کرکے اِس کا مورال خراب کرے اور زبردستی اپناسیاسی قد اُونچاکرکے اپنی سیاست چمکائے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.