زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!

آسٹریلیا میں اردو زبان وادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں علمی، ادبی اور ثقافتی تنظیم پاکستان -آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف)انکارپوریٹڈ کے زیراہتمام دنیائے اردوادب کے معروف شاعر نصیر ترابی کی یاد میں ایک آن لائن تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یاد رہے نصیر ترابی گزشتہ دنوں حرکتِ قلب بند ہو جانے سے 75 برس کی عمر پاکر خالق حقیقی سے جاملے۔
تعزیتی ریفرنس سے امریکہ کی معروف اردو شاعرہ سیدہ غوثیہ سلطانہ نوری، آسٹریلیا سے پروفیسر محمد رئیس علوی، طارق محمود مرزا، ڈاکٹر مفضل سید اور صدر پالف افضل رضوی جب کہ پاکستان سے پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اور ارشد قریشی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔تعزیتی ریفرنس کی نظامت پالف کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عاطف مجید ملک نے کی۔ تقریب کا مصعب بن عمیر نے تلاوتِ قرآن سے کیا۔۔۔۔۔۔

آسٹریلیا میں اردو زبان وادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں علمی، ادبی اور ثقافتی تنظیم پاکستان -آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف)انکارپوریٹڈ کے زیراہتمام دنیائے اردوادب کے معروف شاعر نصیر ترابی کی یاد میں ایک آن لائن تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یاد رہے نصیر ترابی گزشتہ دنوں حرکتِ قلب بند ہو جانے سے 75 برس کی عمر پاکر خالق حقیقی سے جاملے۔

تعزیتی ریفرنس سے امریکہ کی معروف اردو شاعرہ سیدہ غوثیہ سلطانہ نوری، آسٹریلیا سے پروفیسر محمد رئیس علوی، طارق محمود مرزا، ڈاکٹر مفضل سید اور صدر پالف افضل رضوی جب کہ پاکستان سے پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اور ارشد قریشی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔تعزیتی ریفرنس کی نظامت پالف کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عاطف مجید ملک نے کی۔ تقریب کا مصعب بن عمیر نے تلاوتِ قرآن سے کیا۔
پالف کے صدر افضل رضوی نے تمام شرکائے تعزیتی ریفرنس کا شکریہ ادا کیا اور نصیر ترابی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس مین کوئی شک نہیں کہ نصیر ترابی شاعری میں غالب ؔ سے متاثر تھے۔غالبؔ نے کہا تھا:
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
سلیم کوثر نے کہا:
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
نصیر ترابی نے اسی زمین میں یو ں اظہارِ خیال کیا:
تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے
مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے
مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے

افضل رضوی نے کہا کہ نصیر ترابی نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کی لیکن ان کا پہلا شعری مجموعہ 2000ء میں منصہ شہود پر آیا گویا انہوں نے اڑتیس سال مشقِ سخن کی اور جب انہوں نے جانا کہ اب ان کا کلام اس قابل ہو چکا کہ عوام کی نذر کیا جائے تو اسے شائع کرایا۔ان کا نطریہ تھا کہ شاعر تو بہت ہوتے ہیں لیکن ایسے شاعر کم ہوتے ہیں جن کا کلام انہیں زندہ رکھتا ہے۔

افضل رضوی نے ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے نصیر ترابی کی قادرالکلامی واضح کی کہ احمد فراز نے ایک غزل کہی جس کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
اسی زمین میں شان الحق حقی نے کہا:
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے

لیکن نصیر ترابی نے جس انداز سے اسی زمین میں غزل کہی اس پر عش عش کر نے کو جی چاہتا ہے۔
دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
اُ س کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے

پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے بھی پالف کے صدر افضل رضوی اور دیگر انتظامیہ کا اس تعزیتی ریفرنس منعقد کرنا ایک اچھی روایت ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ بھی پروفیسر علوی کی طرح نصیر ترابی کے ہم شہر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نصیر کی رگوں میں ایک بہت بڑے عالم فاضل کا خون دوڑ تا تھا۔ میں نے بہت سی محفلوں میں انہیں دیکھا اور سنا۔ان کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے۔ انہوں نے نصیر ترابی کے دو شعری مجموعوں ”عکس فریادی“ اور”لاریب“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نصیر ترابی نے غالب اور انیس دونوں کی زمین میں غزلیں کہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ ایک تاریخ دان بھی تھے اور انہوں نے ”لغت ِ عوام“ بھی مرتب کی۔مجموعی طور پر انہوں نے چھے تصانیف چھوڑی ہیں۔

پروفیسر محمد رئیس علوی نے کہا کہ یقینا نصیر ترابی کے لیے کوئی اہم فنگشن ہونا چاہیے تھا۔ہمیں فخر ہے کہ پالف جیسی علمی وادبی تنظیم نے آسٹریلیا میں یہ کام کرنے میں پہل کی ہے جس پر پالف کی انتظامیہ مبار باد کی مستحق ہے۔پروفیسر علوی نے اپنی متاثرکن گفتگو میں بتایا کہ انہیں نصیر ترابی کا دوست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ان کے مراسم یونورسٹی کے زمانہ سے تھے اور گھر مین آناجانا تھا۔انہوں نے ان کی چند خوبیوں کا تذکرہ کیا کہ وہ شاعر تھے لیکن کسی گروپ بندی کا شکار نہ تھے اور وہ شاعری میں مرزا اسد اللہ خاں غالب ؔ سے بے حد متاثر تھے۔وہ نہایت صاف گو انسان تھے نیز اردو کی کلاسیکی شاعری پر انہیں دسترس حاصل تھی۔وہ نہ صرف شاعری کو سمجھتے تھے بلکہ شاعری کی معنی خیزی سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔آخر مین انہوں نے نصیر ترابی کے اس شعر پر اپنی بات ختم کی:
یہ نصیرؔ شام سپردگی کی اداس اداس سی روشنی
بہ کنار گل ذرا دیکھنا یہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے

سیدہ غوثیہ نوری نے امیر مینائی مرحوم کے درج ذیل شعر سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

انہوں نے کہا کہ ایک اور ادبی چراغ گل ہو گیا۔نصیر ترابی ایک سماجی انسان تھے۔وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ گئے۔ سماجی لوگ جب گزر جاتے ہیں تو بہت نقسان ہوتا ہے اور برا شاعر وہی ہوتا ہے کہ اس کے نام سے پہلے اس کا کلام لوگوں تک پہنچتا ہے۔

”ہم سماج“ کے ڈائریکٹر ارشد قریشی نے کہا کہ بہت سی شخصیات کو ہم ان کی زندگی میں وہ اہمیت نہیں دیتے جو ان کے چلے جانے کے بعد انہیں ملتی ہے۔ نصیر ترابی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ بہت ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔اگر کوئی ان سے ہاتھ ملاتا اور اگروہ عمر مین چھوٹا بھی ہوتا تو بھی اٹھ کھڑے ہوتے اور نہایت شفقت اور محبت سے ملتے۔ان کی مشہورِ زمانہ غزل جو ڈرامہ ہم سفر کے حوالے سے مشہور ہوئی سب سے پہلے عابدہ پروین سے اسے گایا۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ لڑکپن میں مباحثوں میں حصہ لیتے تھے۔جب ان کی پہلی پوزیشن آتی تو کریڈٹ ان کے والدِ گرامی (رشید ترابی) کو چلا جاتا۔چنانچہ اپنی انفرادیت قائم کرنے کے لیے انہوں نے شاعری شروع کردی۔ارشد قریشی نے رضا علی عابدی کا حوالہ دیتے ہوئے درج ذیل شعر پر اپنی گفتگو ختم کی۔
وہی تو شہر میں تھا ایک میرے مطلب کا
ملال تو یہ تھا کہ اس تک میری رسائی نہ تھی

معروف کالم نگارطارق محمود مرزا نے اس موقع پر کہا کہ ”اردو انٹرنیشنل“ کے پلیٹ فارم سے نصیر ترابی کو آسٹریلیا مدعو کیا گیاتھا وہ باکمال شخصیت کے حامل تھے میں ان کا دل سے احترام کرتا ہوں اور ان کا ماننے والا ہوں۔ان کا خاندان علم وادب کے حوالے سے بہت اعلیٰ ہے۔نصیر ترابی کی شخصیت پر ان کے والد کے اثر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب دو ادبی شخصیات ایک ساتھ ہوں تو ایک دب جاتی ہے۔انہوں نے مچال دی کہ جب نصیر تقریر میں تیسری پوزیشن لیتے تو لوگ کہتے کہ باپ کا نام خراب کررہے ہو اور جب پہلی پوزیشن آتی تو کریڈٹ باپ کو جاتا۔ اس لیے انہوں نے شاعری شروع کردی اور جدید شاعری میں اپنا خاص مقام بنایا۔وہ نئے شاعروں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔اخلاق، محبت اور شفقت کا عنصر ان میں نمایاں تھا۔ہمسفر ڈرامہ میں شامل ہونے والی غزل دراصل انہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھی تھی،جو ان کی پہچان بن گئی۔انہوں نے ”پالف“ کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ باقاعدہ شمولیت کا وعدہ بھی کیا۔یاد رہے حال ہی میں انہوں نے ”پالف“کی ایگزیکٹو ممبرشپ بھی لی ہے۔

پالف کے نائب صدرڈاکٹر مفضل سید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح ایک مصور اپنی تصویر سے اور ایک موسیقار اپنی موسیقی سے اپنے چزبات کا اظہار کرتا ہے اسی طرح ایک شاعر اپنے اشعار سے اپنے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ نصیر ترابی صاحب کو انسانی جذبات کی ترجمانی کا اپنے اشعار کی صورت میں کرنے پر ملکہ حاصل تھا۔ گو کہ وہ ایک خطیب کے صاحب زادے تھے انہوں نے شاعری کا راستہ اختیار کر کے اپنی انفرادیت کو منوایا۔ ان کے جہان فانی سے رخصت ہونے پر سوشل میڈیا پر ان یہ شعر گردش کر رہا تھا۔
عداوتیں تھیں رنجشیں تھیں تغافل تھا مگر
بچھڑنے والے میی سب کچھ تھا جدائی نہ تھی

ڈاکٹر محمد محسن علی آرزوؔ نے کہا کہ نصیر ترابی حیدر آباد دکن میں پید اہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ان کی ادب اردو کے لیے بے پایاں خدمات ہیں۔ان کے لیے دعائے مغفرت کے بعد انہیں اپنے اشعار میں خراجِ تحسین پیش کیا۔
دکن سے جو تہذیب کا دیوانہ چلا تھا
وہ شہرِ کراچی میں کہیں آکے بسا تھا
کردار میں پرکھوں سے وراثت میں حیا تھی
افکار میں اک غیرتِ قومی کی ردا تھی
اس ملک کے بٹ جانے کا افسوس بہت تھا
بنگال کے کٹ جانے کا افسوس بہت تھا
اک غم کی اداسی تیری آنکھوں سے عیاں تھی
لہجے کی کسک روح کے زخموں کی نشاں تھی

انہوں نے نصیر ترابی کے مجموعہ کلام”عکس فریادی“ کے بارے کہا:
تھی عکس میں تحریرکہ فریادکشائی
اشعار میں تحقیق کی آیات نمائی
نصیر ترابی کی ”شعریات“ کے متعلق وہ یو گویا ہوئے:
جو شہرِ کراچی مین نصیر آکے بسا تھا
اردو کا علم تھا وہ محبت کی صدا تھا
جب تک رخِ خورشید میں تنویر رہے گی
اردو میں نصیر آپ کی تصویر رہے گی

 

Syeda F Gilani
About the Author: Syeda F Gilani Read More Articles by Syeda F Gilani: 38 Articles with 70709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.