نصیر ترابی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

نصیر ترابی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس
نصیر ؔ ترابی اپنی تصانیف کے آئینہ میں
25جون 1945ء ۔ 10جنوری 2021
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم (PALF)کے زیر اہتمام شاعر نصیرؔ ترابی کی یاد میں آن لائن تعزیتی ریفریس 15 جنوری 2021ء کو منعقد ہوا۔ جس میں آسٹریلیا کے علاوہ دیگر ممالک اور پاکستان سے مختلف احباب نے نصیر ؔ ترابی کی شخصیت، شاعری اور علمی و ادبی خدمات پر اظہار خیال کیا۔ راقم نے اس موقع پر ”نصیر ؔ ترابی اپنی تصانیف کے آئینہ میں“کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔

حاضرین و سامعین محترم
اسلام علیکم !
سب سے پہلے تو میں پالف کے صدر ڈاکٹر افضل رضوی صاحب کا اور تمام منتظمین کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اردو کے معروف شاعر جناب نصیرؔ ترابی کی یاد میں ریفرنس کا آن لائن اہتمام کیا اور مجھے بھی گفتگو کا موقع فراہم کیا۔دعا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نصیر ترابی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔

سامعین محترم!
پاکستان میں 1960ء کی دہائی تھی، پرنٹ میڈیا تو بھر پور تھا البتہ الیکٹرانک میڈیا اکلوتا PTV تھا جو کہ بلیک اینڈ وائٹ ہی تھا اس نے اپنا رنگ روپ رنگین نہیں کیا تھا جیسا کہ اب ہے۔ اس دور میں علامہ رشید ترابی ایک خطیب، ذاکر اور ایک مبلغ کی حیثیت سے بہت مقبول تھے بقول پروفیسر سحر انصاری ”ان کی مثل کوئی خطیب اورخوبصورت الفاظ و اظہار ان کے بعد سے آج تک منبر نشین نہیں ہوسکا، رشید ترابی کی حیثیت ایک egendl کی تھی“۔ علامہ رشید ترابی کو جنہوں نے انہیں سنا ہے وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ جس موضوع پر اظہار خیال فرمایا کرتے وہ ہر طبقہ فکر کے لیے معلومات سے بھر پور، فصیح و بلیغ، الفاظ گویا ان کے سامنے ہاتھ باندھیں ہوتے اور وہ اپنے خوبصورت انداز سے ان الفاظ کو حسین جملوں کا روپ دیتے چلے جاتے۔ کڑی سے کڑی، بات سے بات، واقعہ سے واقعہ، قرآن و حدیث کے حوالے دے کر سننے والوں کے علم میں اضافہ کا باعث ہوتے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ علامہ رشید ترابی کے بعد ان جیسا کوئی خطیب پیدا نہیں ہوا۔جامعہ عثمانیہ، حید رآباد دکن سے گریجویشن اور جامعہ الہٰ آباد فلسفہ میں ماسٹرز کیا، 1940 ء میں حیدر آباد دکن کی مجلس قانون ساز کے رکن رہے، حیدر آباد دکن سے ایک اخبار ”المنتظر“ اور کراچی سے ”انیس“ جاری کیا۔ قائد اعظم کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے۔وہ جدید خطابت کے موجد تصور کیے جاتے تھے۔

علامہ رشید ترابی کے دوبیٹے ہوئے ایک عقیل ترابی دوسرے نصیر ترابی۔ ان گوہر نایاب نے ایک عالم اور فاضل کے گھر میں جنم لیا۔ان کی تربیت جس علمی وادبی اور دینی ماحول میں ہوئی ان میں ادب سے لگاؤ پیدا ہوجانا لازمی امر تھا۔ ان میں وہ علم منتقل ہوا، عقیل ترابی نے اپنے والد کی پیروی میں خطابت کو اپنا یا جب کہ نصیر ترابی خطابت کی جانب نہیں گئے البتہ وہ اچھے مقرر تھے طالب علمی کے زمانے میں، مشاعروں کی نظامت خوبصورت انداز سے کیا کرتے اور شاعری کی جانب رغبت ہوئے اور کمال حاصل کیا۔ شاعری کے علاوہ تاریخ ان کا موضوع رہا، لغت نگاری میں اپنے جوہر دکھائے۔ان کی چھ تصانیف کامیں کھوج لگا سکا، ان میں سے ’عکس فریادی‘،اور، ’لاریب‘ (شعری مجموعہ)فضلی بک کے ساجد فضلی صاحب نے مجھے فوری فراہم کر دیے، شاعری کے اصناف پر مشتمل کتاب ’شعریات (Poetics)‘اور لغت العوام‘ کے عنوان سے اردو کے عوامی الفاظ پر مشتمل لغت کے بارے میں معلوما ت رائل بک کمپنی کے سید نا ظم حسین نے فراہم کردیں۔ نصیر ترابی مرحوم پر میری معلومات اور آج کی گفتگو انہیں کتب کی مرہون منت ہے۔

نصیر ترابی نے شہر کراچی میں بھرپور زندگی گزاری، وہ بہت زیادہ مجلسی آدمی تو نہ تھے لیکن گوشہ نشین بھی نہیں۔ ابلاغ عامہ میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا۔ کیوں کہ وہ اپنے والد کے نقشہ قدم پر اس انداز سے نہیں چلے یعنی خطابت سے اس انداز سے تعلق قائم نہیں کیا۔ انہوں نے ایسٹرن فیڈ رل انشورنس کمپنی میں افسر تعلقات عاملہ کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ ذولفقار علی بھٹونے ملک کے بڑے بڑے شہرو ں میں ”پاکستان نیشنل سینڑز“ قائم کیے۔ ان کا مقصد علمی، ادبی، سماجی، تقاریب کا انعقاد اور کتب خانہ کا قیام بھی تھا۔ نصیر ترابی نیشنل سینٹر کے انتظامی امور سے منسلک رہے۔ بعد ازاں ملازمت ترک کردی اور اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ کاروبار کو زیادہ وقت دیا کرتے تھے جس کے باعث تخلیقی عمل کو اس انداز سے آگے نہیں بڑھا سکے۔ ان کی تصانیف کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھے اور مستند اور ایک خاص اسلوب کے شاعر تھے، سحر انصاری کا کہنا ہے کہ ”تخلیق ایک فیصد ودیعت اور ننانوے فیصد محنت و ریاضت کا نام ہے“، وہ نصیر ترابی پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ وہ لفظ و معنی اور ااظہار و ترسیل کے ایک ایک پہلو پر بہت غور و خوض کرتے ہیں اور جب تک مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہوجائے مطمئن نہیں ہوتے‘۔

نصیر ؔ ترابی کی علمی ادبی خدمات کا جائزہ ان کی تصانیف کی روشنی میں اس طرح لیا جاسکتا ہے۔

عکس فریادی: شعری مجموعہ
”عکس فریادی“ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو2000 ء میں شائع ہوا، میرے پیش نظر اس وقت اس شعری مجموعے کا تیسرا ایڈیشن ہے جو 2017ء میں مکتبہ دانیال، کراچی سے اشاعت پذیر ہوا۔ انتساب کے طور پر لکھا ہے نصیر ترابی نے لکھا ”سُپردگی۔۔ اپنے بابا کی نگاہِ تکلم نصاب اور اپنی اماں کے دستِ دعا حصار کی پناہ میں“۔اس کے علاوہ ”قِبالہ“ کے عنوان سے لکھا ہے۔
ہر ذی شعور نفس کا اصل تقش
لوِ ح محفوظ کی زیبائش میں شامل ہے
جب کہ رُوئے زمین پر اُس نقش
کا محض عکس اپنا ایک قیاسی وجود رکھتا ہے
لیٰذا عکس فریادی۔۔۔۔
فریادوں کے نگار خانے میں ایک ایسا فریادی عکس ہے
جو کسی شایستہ گوشی اور با یستہ چشمی کا انتظار
کھینچ رہا ہے۔۔۔۔
مجموعے کے بیک ٹائٹل پر یہ شعر درج ہے۔
اب کسے پوچھتی ہے رُسوائی
ابھی نگاہِ توجّہ اِدھر نہیں ورنہ

شاعری ہی نصیر ترابی کی پہچان رہی لیکن انہوں نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی، وہ انہوں نے ”سقوط ڈھاکہ“ کے عنوان سے کہی۔ یہ ان کے اس مجموعے میں شامل ہے۔ اس کا پہلا شعر بہت مقبول ہوا۔ وہ کچھ یوں ہے۔
وہ ہم سفر تھا مگر اُس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر ایک ڈرامہ ن”ہم سفر“ پیش کیا گیا، اس شعر کو ڈرامے کے ساؤنڈ کے حصے کے طور پر استعمال کیا گیا اور بہت مقبول ہوا، حالانکہ یہ سقوط ڈاھاکہ کے حوالہ سے شعر کہا گیا تھا۔

لاریب: شعری مجموعہ
نصیر ترابی کا دوسرا شعری مجموعہ ’لَارَیب“ ہے ہیں۔ لاریب کو عقیدہ نوائی کہا گیا ہے اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ نہ تو شاعر نے مجموعہ کے بارے میں کچھ لکھا نہ ہی کسی اور سے اس پر کچھ لکھوایا گیا۔مجموعہ میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ نصیرؔ نے مختلف بڑے شاعروں کی زمین میں شعرکہے اور ان کا نام بھی لکھ دیا جیسے ’برزمینِ میر انیسؔ، برزمینِ میر مونسؔ، بر زمینِ مرزا غالبؔ، بر زمین ِ میر وحید ؔ، بر زمین ِ ناسخ ؔ، بر زمینِ شہید یار جنگ، بر زمین ُآرزوؔ لکھنوی، اسی طرح اقبالؔ کی خدمت میں نذر تضمین ’نفسِ جبرئیل‘کے عنوان سے کہی وغیرہ۔غالبؔ کی زمین میں کہی گئی ایک غزل کے چند شعر دیکھئے۔
کوئی بولو یہ مَا جرا کیا ہے
کربلا بعد ِ کر کیَا ہے
کَربلاب ہی سے آشکار ہُوا
آدمی کیا ہے خُدَ ا کیا ہے
میں سلامی ہُوں جن کا وہ بھی نصیرؔ
”کاش پُوچھیں کہ مدٌعا کیا ہے“
مجموعہ کلام ”لاریب‘‘کے بیک ٹائیٹل پر نصیرؔ کا یہ شعر درج ہے۔
نکل کے نرغہ ئ شَر سے تری پناہ کی سمت
میں آرہا ہوں ، مِر ا انتظار کر مولا

عکس در عکس: شعری مجموعہ
نصیر ترابی کے ایک مجموعے میں ”عکس در عکس“ کااشتہار ملتا ہے جس کے ساتھ لکھا ہے کہ زیر طباعت۔ مجھے تاحال اس مجموعے کے بارے میں علم نہ ہوسکا آیا یہ شائع ہوا یا نہیں۔

لغت العوام
نصیر ترابی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ لغت نگار ی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں جو لغت مرتب کی اس کا عنوان ہے ”لغت العوام۔ اردو کے عوامی الفاظ پر مشتمل“۔ یہ لغت پیراماؤنٹ نے شائع کی تھی۔لغت کے ابتدا میں ’حرف چند‘کے عوان سے اردو لغت بورڈ کراچی کے ڈاکٹر شاہد ضمیر نے لکھا ”لغت العوام میں نصیر ترابی کی محنت اور تک ودو قابل ستائش ہے۔ اس میں بہت سے ایسے الفاظ محاوروں کو یک جا کردیا گیا ہے جو اس سے پہلے فقط بول چال تک محدود تھے اور اب تک لغت نویسوں نے ان کو منتخب نہیں کیا تھا لیکن یہ الفاظ بڑی حد تک اپنی قوت ابلاغ کی بدولت مملکت زبان میں مستقل شہریت کا حق رکھتے ہیں“۔

شعریات (Poetics): ادبی ذوق کی آبیاری کے لیے ایک خود آموز کتاب
نصیر ترابی کی کتاب ’شعریات‘ واقعی میں ادبی ذوق کی آبیاری کے لیے ایک خود آموز کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ پروفیسر سحر انصاری نے ’حرے چند‘ اپنے پیش لفظ میں لکھا کہ ”نصیر ترابی نے بات کا آغاز شعر کی تعریف سے ہی کیا ہے۔ اس کے بعد جتنی وضاحتیں اصطلاحات کے ضمن میں انہوں نے کی ہیں ان میں اسلوب سادہ اور منفرد ہے۔ یہ بیان قواعد کی عام کتابوں جیسا نہیں ہے۔ ا س میں اصطلاحات کے علاوہ غیر اصطلاحی زبان میں بھی عروض، اوزان، بحور، قافیہ، ردیف، تقطیع، املا، تلفظ وغیرہ کی مثالیں ان اساتذہ اور مستند شعرا کے کلام سے پیش کی گئی ہیں جن سے ہمارے ادب کے عام قاری بھی واقف ہیں۔ علم بیان و بدیع کے نکات و مباحث بھی اسی انداز سے پیش کیے گئے ہیں۔ کتاب کو کئی عنوانات کے تحت مختلف نکات کی تشریح و توضیح کے لیے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شعریات کے آخری حصے میں اردولغا ت کا تاریخی جائزہ اور تعارف پیش کیا گیا ہے جو بہت مفید ہے۔ شعر گوئی کے لیے کیا وہبی اور اکتسابی شرایط ہیں؟ اس ضمن میں بھی نظم و نثر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ یوں تو ملاّ وجہی سے لے کر میرؔ، غالبؔ، میر انیسؔ، حالیؔ، داغؔ اور جوشؔ ملیح آبادی کے کلام میں معایب و محاسن شعری کا تذکرہ مل جاتا ہے تاہم نصیر ترابی نے ان میں سے بعض شعرا کی مثالیں دے کر کتاب کے اس حصے کو بھی وقیع بنادیا ہے۔ صنایع بدایع کی مثالیں اور ترجیحات نے اس کتاب کو اہل ذوق اور شائقین ادب کے لیے ناگزیر بنادیا ہے“۔

تاریخ کے حوالے سے نصیر ترابی کی ایک کتاب کا اشتہار بھی ان کے ایک مجموعے میں موجود ہے۔ کتاب کا عنوان ”تاریخ طرازی“ لکھا گیا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ نصیر ترابی تاریخ دانی سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اس کتاب کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ منظر عام پر آئی یا نہیں۔میری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ نصیر ترابی شاعر تو بہت اچھے تھے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ شاعر وہ ہی اچھا ہے جس کا شعر سنایا جائے تو سننے والے از خود کہہ دیں کہ یہ اس شعر کا خالق فلاں شاعر ہے۔ نصیر ؔ کی شاعری میں یہی پختگی نظر آتی ہے۔ بقول پروفیسر سحر ؔانصاری”تخلیق ایک فیصد ودیعت اور ننانوے فیصد محنت کا نام ہے ”وہ نصیر ترابی پر پوری صادق آتا ہے۔ وہ لفظ و معنی اور اظہار و ترسیل کے ایک ایک پہلو پر بہت غور و خوض کرتے اور جب تک مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہوجائے مطمئن نہیں ہوتے“۔ ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی بات نصیر’ترابی کے دو اشعار پر ختم کرتا ہوں۔یہ غزل عکس فریادی میں شامل ہے۔
بزم وا لو یہ بزم آرائی
تم ہی دیکھو، مجھے تو نیند آئی
میرے ہونے سے ایک رونق تھی
وہ دیکھ لے تو ہو چہرہ بھی آئینہ معلوم
(15جنوری2021ء)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438840 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More