ہر عقل مند انسان کی نظر میں خاندان و رشتے ناطوں کی بڑی
اہمیت ہوتی ہے ، کیوں کہ اس دنیا میں ہر انسان کو دوسروں کے سہارے کی ضرورت
پڑتی ہے اور اجنبی کے مقابلے میں ظاہر ہے کہ رشتے دار ہی کام آیا کرتے ہیں،
خواہ یہ رشتے خون کے ہوں، مصاہرت کے ہوں، محبتوں کے ہوںیا پڑوس کے ۔ جو
جتنا قریبی ہوگا اسے ہماری پریشانی و ضرورت کا اتنا ہی زیادہ احساس ہوگا۔
یہ ایک حقیقت ہے اور اسی لیے خدا نے رشتے داریوں کو نبھانے کی بہت تاکید کی
ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ہم مادیت میں ترقی کرتے جا رہے ہیں، ویسے
ویسے ہمارے رشتے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں، کیوں کہ مادیت نے ہمیں کسی حد تک
خود کفیل بنا دیا ہے ، اب ہمیں گویا دوسروں کی ضرورت کم ہو گئی ہے ، اس لیے
ہم کسی سے ربط رکھنے کے لیے آمادہ نہیں۔ہمیں لگنے لگا ہے کہ ایسا کرنے پر
ہمیں ان کا احسان ماننا پڑے گا۔ مثال کے طور پر پہلے مال کی کمی تھی، غریبی
کا دور دورہ تھا، شادی بیاہ میں بہت سے ہاتھوں کی ضرورت پڑتی تھی، تو شاید
اسی لیے لوگ کم از کم شادی بیاہ میں سالوں پرانی ناراضگی کو بالاے طاق رکھ
کر ایک دوسرے کو راضی کرلیا کرتے تھے ، لیکن اب مال و اسباب کی فراوانی ہے
، رشتے دار ساتھ نہ دیں تو کام کرنے والے ہاتھ کرایے پر مل جاتے ہیں، اس
لیے لوگ اپنوں کو منانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔لیکن اپنوں کے ساتھ ہونے
میں جہاں کام میں ہاٹھ بنٹتا ہے ، وہیں دعائیں اور محبت بھی نصیب ہوتی ہے ،
جو مال و دولت سے ہرگز خریدی نہیں جا سکتی۔حال یہ ہے کہ دُور کے رشتے دار
یا سگے چچا، ماموں، پھوپھی اور خالہ وغیرہ کی شرکت یا رضامندی تو درکنار
سگے ماں باپ کی رضامندی و شرکت کو اہمیت نہیں دی جاتی، اور اپنی پسند کے
نام پر اپنوں کو قربان کر دیا جاتا ہے۔کیا ایسی شادی بیاہ میں برکت ہوسکتی
ہے؟
بات صرف شادی بیاہ کی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ آج کے زمانے جہاں گھر فرنیچر
وغیرہ سے سجتے جا رہے ہیں، وہیں محبتوں و الفتوں سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔
باپ کو بیٹے کی پروا ہے نہ بیٹے کو باپ کی۔ بیوی کی شوہر سے نہیں جمتی اور
شوہر کی بیوی سے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں اکثر لوگ اپنا
حق تو مانگتے ہیں، لیکن دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر نہیں کرتے ۔ مثال
کے طور پر بیوی یہ چاہتی ہے کہ شوہر اس کی ضرورتیں پوری کرے ، اس کا خیال
رکھے ، لیکن خود اس کے لیے آرام و سکون اور محبتوں کا باعث نہیں بنتی۔ اسی
طرح شوہر یہ تمنا کرتا ہے کہ اس کی بیوی ہر چھوٹی بڑی بات میں اس کی تابع و
فرماں بردار ہو، لیکن خود اس کی خوشی کا خیال نہیں رکھتا۔ استاد کا خیال ہے
کہ شاگرد اس کی خدمت نہیں کرتے اور شاگردوں کا کہنا ہے کہ استاد محبتوں کا
معاملہ نہیں فرماتے۔ اسی طرح تمام رشتوں کو قیاس کر لیجیے ، کیوں کہ یہ
معاملہ تقریباً ہر رشتے میں اور ہر موقع پر پیش آتا ہے کہ ہم دوسروں کو ان
کی ذمے داریاں تو یاد دلاتے ہیں، لیکن اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی فکر
نہیں کرتے، جس سے آپسی رنجشوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور نوبت یہاں تک
پہنچ جاتی ہے کہ خاندان بکھر جاتا ہے۔بعض دفع ذرا سی انا اس کا سبب بنتی ہے
، جس کے بعد انسان سالہا سال تنہا زندگی بسر کرنا تو گوارا کرتا ہے ، لیکن
گِلے شکوے بھلا کر اپنوں کو گَلے لگانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
اس کی ایک بڑی وجہ ہماری کم علمی ہے کہ ہم نے اپنے کام کی باتیں تو خوب یاد
کر رکھی ہیں، لیکن دوسروں سے متعلق ہدایات کو بالائے طاق رکھ دیاہے۔ مثال
کے طور پر اکثر مسلمان مرد یہ حدیث دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر کسی
انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی ، تو بیوی کو کہا
جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، لیکن ایسے مرد یہ فراموش کر دیتے ہیں
کہ حدیث ہی میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ برا ہے وہ آدمی جو رات کو
اپنی بیوی سے ضرورت پوری کرے اور دن میں اس کو گالیاں بکے یا مارے پیٹے،یا
بہترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو۔اسی طرح والدین اکثر
یہ کہتے ہوئے تو سنے جاتے ہیں کہ اولاد کو یہ حق نہیں کہ وہ والدین کی کسی
بات پر اُف بھی کرے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں اگر واقعی وہ اپنی اولاد کی
تربیت پر بچپن میں دھیان دیتے تو آج انھیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا، کیوں کہ
والدین کی ذمّے داری صرف کھانے پینے اور اسکول اور ٹیوشن کے خرچے برداشت کر
لینے سے پوری نہیں ہو جاتی، اولاد کی اخلاقی تربیت بھی ان کی ذمّے داری
ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ درخت سے پھل کھائیں تو ببول لگانے
سے پرہیز کرنا ہوگا۔
اپنوں سے نا اتفاقی کا ایک بڑا اور اہم سبب ناک یا انا کا مسئلہ ہے ، جس کے
چلتے ہم اپنوں کی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ، اولاد اپنے والدین کو
سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ والدین اس بات کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ
اولاد کے نقطۂ نظر کو سمجھیں۔ ہر معاملے اور رائے میں پوری طرح اتفاق ہونا
تو دو انسانوں میں مشکل ہے ، لیکن کیا درمیان کا کوئی ایسا راستہ نہیں
نکالا جا سکتا جس سے باوجود اختلاف کے ساتھ رہا جا سکے؟
بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ جب بیٹے کے پاؤں میں باپ کا جوتا آنے لگے تو
باپ کو بیٹے پہ ہاتھ اٹھانے کا خیال دل میں نہیں لانا چاہیے ، لیکن ہم اپنے
غصّے میں اتنے پاگل ہو جاتے ہیں کہ اولاد کو برا بھلا کہتے ہیں اور کبھی
جوان بیٹوں پر ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔ردِ عمل میں وہ کوئی غلط قدم اٹھا لے
یاگھر چھوڑ کر چلا جائے تو زندگی بھر گھٹتے ہیں۔ اسی طرح اولاد بھی گرم
جوشی میں والدین کے ساتھ بحث و مباحثہ کر لیتی ہے، پھر جب باپ اسے خود سے
الگ کر دیتا ہے تو ساری زندگی اس ٹھنڈے سایے کو ترستی ہے ۔
یہ سب باتیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنے سمجھنے کی ہیں، تاکہ بعد میں پچھتانا نہ
پڑے ۔ایک آدمی گرم ہو تو دوسرے کو اس وقت خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔
ناراضگی اپنوں سے ہی ہوا کرتی ہے ، ایرے غیرے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا۔ راہ
چلتے ہوئے لوگوں سے لڑائی تو ہو جاتی ہے، لیکن انھیں یاد نہیں رکھا جاتا۔
یاد رکھیے چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے، نہ جانے کس موڑ پر کس
کی زندگی کی شام ہو جائے ، ضروری نہیں کہ بوڑھے والدین ہی پہلے وفات پائیں،
کبھی جوان اولاد بھی داغِ مفارقت دے جایا کرتی ہے ، اس لیے ہر انسان کو
چاہیے کہ اپنے فرائضِ منصبی جان جان کر انھیں ادا کرنے کی کوشش کرے اور
دوسروں کو اس حد تک معاف کرنے کی عادت ڈالے، جس حد تک اپنے گناہ خدا سے
معاف کروانے کا امید وار ہو۔ محبتیں بانٹیں اور خوش رہیں۔بیتا ہوا ہوا وقت
اور گزرے ہوئے لوگ واپس نہیں آیا کرتے ۔
|