مطالعہ کا شوق

تحریر:شبیر ابن عادل
عام لوگوں خاص طورپر نوجوانوں میں مطالعہ کی عادت ڈالنے یا مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لئے انہیں اچھی کتابیں فراہم کرنے یا کتب خانے قائم کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ موبائل پر فیس بک اور واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا اور ٹیلے ویژن پر گھنٹوں ضائع کرنے والے کتاب ہاتھ میں آتے ہی اسے پڑھنا شروع کردیں۔ اگر انہیں مفت میں کسی بھی موضوع پر کوئی کتاب حتیٰ کہ ناول یا افسانوں کا مجموعہ بھی دے دیں تو وہ ایک طرف رکھ دیں گے یا گھر لے جاکر ایک کونے میں ڈال دیں گے۔ اس کے لئے ان کے اندر شوق بیدار کرنا ہوگا، اس شوق کی شدت اتنی ہو کہ وہ فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ کو چھوڑ کر مطالعہ کو اپنالیں یا کم از کم تھوڑا وقت مطالعہ کو بھی دے دیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مطالعہ کا شوق کیسے پیدا کیا جائے؟ اور یہ کام کون کرے اور کیوں کرے؟ہمیں تو یہ تک فکر نہیں کہ ہمارے بچوں کو اسکولوں میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ اسکولوں کی فیس ادا کرنے کے بعد ہم اپنے بچے کی طرف سے بے فکر ہوجاتے ہیں، اور اگر فکر ہوبھی تو چھوٹے بچوں کی ٹیوشن لگوا دیتے ہیں اور بڑے بچوں کوکوچنگ سینٹر بھیج دیتے ہیں۔ جبکہ خود ہمارا حال یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر ڈراموں،فلموں، موسیقی اور ٹاک شوز کے نام پر ہونے والے سیاسی دنگل میں گھنٹوں صرف کردیتے ہیں یا موبائل پر مذکورہ بالا چیزوں میں محو ہوجاتے ہیں یا فون پر گھنٹوں گپ شپ میں وقت ضائع کرتے ہیں۔
لوگوں میں اور وہ بھی اس دور میں مطالعہ کا شوق پیدا کرنا آسان کام نہیں، اگر تھوڑے لوگ کسی کام کے لئے تیار نہ ہوں تو اکثریت انہیں تیار کرلیتی ہے یا نظر انداز کردیتی ہے۔ لیکن جب نوے یا پچانوے فیصد لوگ کسی کام کے لئے تیار نہ ہوں تو انہیں تیار کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ لوگ اپنے فائدے اور مزے یا نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں تو خود ہی لگے رہتے ہیں، اس حوالے سے کوئی مہم چلانے یا انہیں راغب کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ لیکن مشکل اس وقت ہوتی ہے، جب پورا معاشرہ کسی مفید اور اچھے کام کے لئے تیار ہی نہ ہو تواسے کیسے تیار کیا جائے۔
اگرچہ صورتحال مکمل طور پر مایوس کن نہیں ہے، کتابیں شائع بھی ہورہی ہیں، خریدی بھی جارہی ہیں، پڑھی بھی جارہی ہیں اور پبلشر دولت بھی کما رہے ہیں۔ یقین نہ آئے تو اپنے شہرکی بک شاپس، کبھی کبھار ہونے والے کتب میلے اور اگر کراچی میں رہتے ہیں تو ہر سال ایکسپو سینٹر میں ہونے والے کراچی انٹرنیشنل بک فیئر کو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ملک کی آبادی کے اعتبار سے اس کی شرح بہت کم ہے۔ اور عمومی طور پر مطالعہ کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ لوگوں میں مطالعہ کا ذوق وشوق کیسے پیدا کریں؟ اس حوالے سے کسی کو اور کہیں سے تو آغاز کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہم اپنے آپ سے آغاز کرتے ہیں۔ پہلے اس حوالے سے اپنے اندر شوق پیدا کرتے ہیں، اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخرعلم ہے کیا؟ اور اس کی کیا اہمیت ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ علم کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے؟ انٹرنیٹ سے یا کتابوں سے؟ لیکن ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ گوگل، اساتذہ، علماء، انجینئر، سائنسدان یا کوئی اور؟ اور اس کے لئے کیا تگ ودو کرنا ہوگی؟ اور ان سوالوں سے بیزار ہوکر کہیں حصول علم کا شوق ہی ماند نہ پڑجائے۔
بنیادی طور پر حصول علم کے مراکز تو ہماری درسگاہیں یا تعلیمی ادارے ہی ہیں اور ہونا بھی چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اپنا یہ بنیادی فریضہ برسوں قبل فراموش کرچکے ہیں، معاشی جدوجہد کے چکر میں تعلیمی نصاب میں اس قدر ردوبدل کیا گیا کہ وہ صرف حصول روزگار کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں سب کچھ ہے، مگر علم نہیں۔ کیونکہ علم تو وہ ہے، جو انسان اور حیوان میں فرق پیدا کرتا ہے۔ ہم اس مغربی تصور کے قائل نہیں کہ انسان سماجی حیوان ہے۔
علم کیا ہے؟ ا س کا جواب ہمیں اسی سے معلوم کرنا ہوگا، جس نے ہمیں تخلیق کیا اور ہمیں پیدا کیا، یعنی اپنے ربّ سے، اسی نے ہمیں علم سکھایا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت فرشتوں نے ڈرتے ڈرتے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی تھی کہ کیا تو ایسی مخلوق پیدا کررہا ہے، جو زمین پر فساد کرے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے ۔ اور اللہ نے حضرت آدم ؑ کو کچھ نام سکھائے، پھر فرشتوں کے سامنے ان سے کہا کہ وہ نام بتاؤ، اس پر حضرت آدم ؑنے وہ نام بتادیئے۔ چنانچہ اللہ پاک نے فرشتوں سے کہا کہ میں نہ کہتا تھاکہ میں جو کچھ جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ جواب میں فرشتوں نے کہا کہ پاک ہے تو اور اللہ رب العزت کے حکم پر حضرت آدم ؑ کو سجدہ کیا۔ اس کی تفصیل قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بہت سے علوم سکھائے تھے۔ اور پھر مختلف انبیاء پر آسمانی کتب کے نزول کا سلسلہ جاری رہا، جن میں ظالموں نے تحریف کرکے تعلیماتِ الٰہیہ کو بدل ڈالا۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم آخری نبی تھے، ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضور اکرم ؐ کے قلب اطہر پر قرآن کریم نازل ہوا اوراس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے اور وہ اب تک ویسے کا ویسا ہے، جیسا نبی کریم ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوا تھا۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ علم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ پہلی وحی کے الفاظ ہی اقراء یعنی پڑھئے تھے۔ اس لئے قرآ ن وحدیث کے مطالعہ سے علم کی اہمیت واضح ہوجائے گی۔
انسان اور حیوان میں بنیادی فرق علم ہی ہے۔ اور علم بھی وہ جو نفع دینے والا ہو، روپے پیسے والا نفع نہیں بلکہ انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے والا ہو۔ اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے والا ہو، کیونکہ جہل اندھیرا اور علم روشنی ہے۔ جب خود پر یہ اہمیت واضح ہوجائے کہ علم کی کتنی اہمیت ہے توکتاب سے دوستی کریں، یہ سوچیں کہ کتا ب سے بہترین کوئی دوست نہیں۔ پہلے اس حوالے سے اقوال زریں کا مطالعہ کرلیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
============


shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 111170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.