بلوچستان کے علاقے ’’مچھ‘‘میں دہشت گردوں کے ہاتھوں
11مزدروں کی شہادت نے ساری قوم کو غمزدہ کردیا ہے ۔ایک طرف ’’ضرب عضب ‘‘
آپریشن کے تحت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم نے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے
۔دوسری طرف دہشت گردوں نے گیارہ انسانوں کی جان لے کر دوبارہ ’’امن
بحالی‘‘کے دعویداروں کو للکارا ہے ۔یہ کوئی ایک سانحہ نہیں ہے گذشتہ چند
سالوں کے دوران متعدد کارروائی میں بے شمار لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا
گیا ہے ۔ان تمام تر کارروائیوں کا المناک پہلو یہ ہے کہ ایک مخصوص نظریات
رکھنے والے لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔رعایا کی جان و مال کا تحفظ
حکومت کی ذمہ داری ہے ۔لیکن ایسانظر آتا ہے کہ دہشت گرد گروپ انتہائی منظم
طریقے سے واردات کا ارتکاب کرتے ہیں۔اور چن چن کرایک ہی نظریہ اور خیال کے
لوگوں کو مارا جا رہا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران
بھی ہزاروں لوگوں کی جان لی جا چکی ہے اور ان کے پسماندگان میں عورتیں اور
بچے ہی باقی رہ گئے ہیں ۔۔ان خاندانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ان کے سروں
سے سائبان چھین لیے گئے ہیں ۔لیکن حکومت کے ذمہ داران کو ذرا برابر بھی
احساس نہیں ہو پا رہا ہے ۔کہ ان مظلوموں پر کیاگذر رہی ہے ۔
مچھ متاثرین نے شدید سردی میں میتوں کے ہمراہ چھ روز دھرنا دیا اوروزیراعظم
کی آمد تک میتوں کی تدفین نہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔اسی ضد اور ہٹ
دھرمی کے باعث میتوں کی تدفین کا عمل رکا رہا ،جو سراسر نامناسب تھا ۔میت
کی جلد از جلد تدفین کا حکم ہے جبکہ ہم اپنے ربّ کے احکامات کو نظر انداز
کرکے گناہ کامرتکب ہوتے ہیں۔ادھراسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے
ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے متاثرین مچھ کی طرف سے میتوں کی تدفین کو ان
کی آمد سے مشروط کرنے کے مطالبے کو سراسر’’ بلیک میلنگ‘‘ قرار دیا اور کہا
کہ ہزارہ برادری آج میتیں دفنائیں ، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ آج ہی کوئٹہ
پہنچتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پوری قوم اور حکومت ہزارہ برادری کے ساتھ کھڑی
ہے، ہم تمام مطالبے بھی مان چکے ہیں،وزیر اعظم نے اس امر پر دکھ کا اظہار
کیا کہ ہمارے ملک میں ہزارہ کمیونٹی پر سب سے زیادہ ظلم ہوا، جتنا ظلم ان
پر ہوا پاکستان میں کسی پر نہیں ہوا، جس کا ہمیں احساس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ
وزیر اعظم کا ’’بلیک میلنگ ‘‘ کے حوالے سے بیان ان کے شایان شان نہیں تھا ،بھلا
کسی انسان میں اتنی جرات ہے کہ وہ ’’حاکم ِ وقت‘‘کوبلیک میل کر سکے۔
ادھربلوچستان حکومت نے سانحہ مچھ میں ملوث عناصر کی گرفتاری پر 20 لاکھ
روپے انعام بھی مقرر کردیاہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کب
پکڑے جاتے ہیں اور انہیں کب سزا ملتی ہے ۔
اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب قتل وغارت گری کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستا ن
غالباً دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں خود کو مسلمان کہلانے والے ہی اپنے
مسلم بھائیوں کی جان لے رہے ہیں ۔ اسلام تو کسی کافر کی بھی یوں جان لینے
کی اجازت نہیں دیتا۔حتیٰ جانوروں اور پرندوں پر ظلم ڈھانے سے منع کرتا ہے
۔کسی کو انصاف ملنا یا دلانا ایک بڑا ہی کٹھن کام ہے ۔لیکن ناانصافی اور
ظلم پر خاموشی اختیار کرنا قتل سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے ۔وطن عزیز میں قتل
و غارت کے واقعات روزمرّہ کامعمول بن چکا ہے ۔دہشت گرد انہ کارروائی میں
کوئی مارا جائے یا اپنوں کے ظلم کا نشانہ بنے ۔آج اسے کوئی اہمیت ہی نہیں
دی جاتی ۔ حکومتی بے حسی اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے ۔لاشوں پر سیاست چمکانا
کسی طور اچھی بات نہیں ۔ہمارا مزاج بن چکا ہے کہ اس قسم کے واقعات پر
متاثرہ افراد کی دلجوئی کے لیے اپوزیشن والے فوری طور پر پہنچ جاتے ہیں اور
حکومت کی ناکامی اور بے حسی پر لعن طعن کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے
انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج ریکارڈ کروا کر اپنا حق ادا کر دیا ۔جبکہ
دوسری طرف’’ حاکم وقت‘‘ اس قسم کے سانحات میں لواحقین کی دل جوئی کے لیے
حاضری دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ اپوزیشن لیڈروں کی متاثرہ افراد سے
ملاقاتوں یا حاکم وقت کی طرف سے حاضری سے ضروری نہیں کہ ظالم اپنے انجام کو
بھی پہنچ پائیں ۔لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اگر وزیر اعظم لواحقین کی دل جوئی
کے لیے ان کے پاس چلے جائیں تو انہیں کافی حوصلہ ملتا کہ وزیر اعظم نے ان
کی بات سنی اور انہیں تسلی کے دوبول بول کر ڈھارس بندھائی ۔
ماضی میں جب5اگست1988ء کو معروف شیعہ رہنما ء علامہ عارف الحسینی کو پشاور
میں شہید کیا گیا تھا تو اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق فوری طور پر
پشاورپہنچ گئے تھے ،ان کی علامہ صاحب کے لواحقین سے ملاقات اور اظہار
ہمدردی کے اس نیک عمل کے سبب ملک ایک بڑی انارکی سے محفوظ رہا۔اسی طرح
پیپلز پارٹی کے دورِحکومت میں10جنوری 2013ء کوسنوکر کلب کوئٹہ میں خود کش
حملہ کے نتیجے میں ہزارہ برادری کے96افراد شہید اور 150زخمی ہوئے تھے
جبکہ17 فروری 2013 ء کوکوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن کی سبزی منڈی میں کم از کم 84
افراد شہید ہوئے اور 160 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔تو اس وقت کے وزیر اعظم
راجہ پرویز اشرف نے فوری طور پر کوئٹہ پہنچ کر شہداء اور زخمیوں کے لواحقین
کے نمائندہ وفد سے ملاقات کی تھی ، اور انہیں تسلی دی تھی کہ سانحے کے ذمہ
دار مجرمان کو قرار واقعی سزا دلوا کر انصاف کا بول بالا کریں گے۔بعد ازاں
انہیں انصاف ملا یا نہیں لیکن راجہ پرویز اشرف کی لواحقین سے ملاقات نے
معاملے کو بگڑنے سے بچایا۔کاش! موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی
مصروفیات ترک کرکے’’ سانحہ مچھ‘‘ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ملنے
کوئٹہ چلے جاتے ،تو ان کی آمد سے شہید ہونے والے مظلومین دوبارہ زندہ تو
نہیں ہو سکتے لیکن ان کی آمد اور لواحقین سے اظہار ہمدردی کے مثبت اثرات
مرتب ہو سکتے تھے ۔آج شہدا ء مچھ کی میتیں چھ روز سے سڑکوں پر رکھ کر
لواحقین احتجاج کرتے رہے اور وزیر اعظم کی آمد کے منتظر رہے لیکن بوجہ وہ
نہیں آئے ۔اس رویہ کی وجہ سے متاثرین میں مایوسی اور اضطراب پیداہونا قدرتی
امر ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم بلیک میلنگ والے اپنے خطاب کو پس
پشت ڈال کر تاخیر سے سہی ،متاثرین سے ملاقات کے لیے تو آئے۔اس موقع
پرمزدوروں کے لواحقین نے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
کہ’’ بلیک میلنگ‘‘ والا بیان ہزارہ برادری کے لیے نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے
لیے تھا۔مچھ متاثرین سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ کمیونٹی
کی تمام شرائط تسلیم کرلی ہیں، ہزارہ برادری سے کیے گئے وعدے پورے کریں گے،
وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ہزارہ برادری کو تحفظ دینے کی پوری کوشش
کریں گے جب کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے سیل بنایا جارہاہے، متاثرین کو
اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
گذشتہ کئی سالوں سے ہزارہ برادری دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور اب تک کئی
ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جن میں اسی برادری کے لوگوں کو ہی نشانہ بنایا
جاتا رہاہے ۔۔کورونا کی وجہ سے گذشتہ تقریباً ایک سال میں دہشت گردی کا
کوئی اہم سانحہ رونماء نہیں ہوا ۔سانحہ مچھ میں انسانی جانوں کا ضیاع ایک
المیہ ہے ۔اور اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔۔ دہشت گردانہ
کارروائیوں کو ملک دشمن عناصر کے سر تھوپنے کی بجائے ان کی روک تھام کے لیے
اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔ وزیر اعظم کی طرف سے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے’’
سیل ‘‘بنانے کا اعلان خوش آئند اقدام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت دہشت
گردوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نبٹے اور لوگوں کی جان و مال کے تحفظ اور امن
وامان ی بحالی کے ذمہ دار تمام اداروں کے مابین رابطوں کو موثر بنائے تاکہ
اس قسم کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|