محبتوں کے شہر میں دُکھی کہانی!‎

کام کے سلسلے میں لاہور آنے کا اتفاق ہوا تھا لیکن مجھے کیا پتا کہ یہاں ہر موڑ پر ایک کہانی موجود ہے. جس فیکٹری میں مجھے کام کے سلسلے میں جانا پڑا وہاں بھی ایک ایسی ہی چلتی پھرتی چھوٹی سی کہانی موجود تھی. یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے فیکٹری کے ملازمین نے خود سے خدا کر لیا ہے. کیونکہ یہ کہانی خاموش ہے. اِس لئے آغاز سے لے کر آج تک جو کچھ بھی مجھے پتا چلنا تھا وہ صرف اُس کہانی کے ساتھ کام کرنے والوں کا اخذ کیا ہوا ہے. اُس کہانی کے بارے میں مشکوک کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے. یہ ملاقات کس طرح شروع کرنی ہے اور کب شروع کرنی ہے. کوئی اندازہ نہیں بس اُس کے ساتھیوں نے کہا کہ انتظار کرو اور موڈ کو دیکھ کر گفتگو کا آغاز کر دو. ذہن میں سوال؟ کہ پتا نہیں کیوں جس شخص سے ملاقات کے لئے اتنا خیال کرنا پڑے گا. یہ شخص آخر کون ہے؟ سب اِسے اتنا حساس کیوں لے رہے ہیں؟. نپولین کی طرح چھوٹا سا قد ہے. صحت میں خودکفیل ہیں. اقتدار کے سابق مکینوں جیسا آدھا سر گنجا ہے. دماغ جو گنجے پن کی وجہ سے مبہم دکھائی دیتا ہے. یوں محسوس ہوتا ہے کہ دماغ کی سوئیاں ایک جگہ جامد ہیں. چلنے کا انداز متکبرانہ ہے یا ہمیں لگتا ہے. بولنے میں وہ آر محسوس کرتے ہیں اِس لئے منہ سے پھول کم ہی جھاڑا کرتے ہیں. کبھی کبھار اُن کی خاموشی میں بھی نخرہ نظر آتا ہے لیکن یہ اُن کی پرسنیلٹی کا حصہ ہے اور ایک خوبصورت حصہ ہے. بولنا انہیں چپ رہنے سے زیادہ اذیت دیتا تھا شاید اِس لئے وہ خاموشی کو اپنا کردار بنائے تنہائی میں رہنا پسند کرتے ہیں.

جمع کا صیغہ عزت کے لئے استعمال ہو رہا ہے ورنہ وہ تو دوستوں کی طرح ایک ہاتھ ملانے والا دوست ہے. لیکن شاید اُن کے ذہن میں شعر کا مصرعہ ہو کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا. اُن سے گفتگو کیا کرنی وہ گہرا مزاج انسان جواب بھی مرضی سے دینے کے عادی ہیں. موڈ کے حساب سے دل کیا تو جواب دے دیا ورنہ زیادہ تر خاموشی اختیار کرتے ہیں. موصوف فیکٹری کے تمام معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں. ایک دن میں نے فیکٹری کے متعلق بات چیت کا آغاز کیا تو تفصیلاتِ زر بتاتے بتاتے اُن کا لہجہ واقعے نپولین کی طرح ہو گیا. تقریر کا فن اور ایڈمنسٹریشن کا تجربہ اُن کی گفتگو سے واضع ہو رہا تھا. سیاست کی بات کا وہ ہمیشہ ایک ہی انداز میں جواب دیتے ہیں کہ اگر انڈر پاس نہ ہوتے تو یہ قوم ترقی کی راہ میں اور لیٹ ہو جاتی. اصل میں وہ شہباز شریف سے قربت کا رشتہ رکھتے ہیں. اِس لئے وہ ہمیشہ انڈر پاس کا ذکر کرتے ہیں. شہباز شریف کے بارے میں وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ "کھاتا نہیں ہے صرف لگاتا ہے". آب وہ یہاں دا لگانے کی بات کر رہے ہیں یا پیسہ سائیڈ پر لگانے کی اِس کا سراغ نیب کو بھی ابھی تک نہیں ملا.

ایک غیر معمولی انسان سارا لاہور پیدل گھوم لیتا ہے. اگر وہ فیکٹری نہ ہو تو کوئی ساتھی فون کر دے کہ کہاں ہیں؟ تو آگے سے جواب سیدھا کبھی نہیں آتا. ہمیشہ وہ الٹا جواب دیں گے. ایسا کیوں تھا یہ راز انہیں کے سینے میں دفن ہے. کوئی پوچھنے کی جسارت نہیں کر سکا. اور ساتھ ہی کہتے تھے کہ بس دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں. کہتے ہیں کہ اُس نے ساری زندگی فیکٹریوں میں ہی گزاری ہے. وہ تقریباً تیرہ سال سے اِس موجودہ فیکٹری میں کام کر رہے ہیں. اِس سے پہلے وہ چند قدم دور ایک اور فیکٹری میں کام کرتے تھے. کبھی اُن سے اُن کے معاوضے کے بارے پوچھ لیا جائے تو وہ کہتے ہیں باس جتنے پیسے بھی مجھے پکڑا دیں گنے بغیر جیب میں ڈال لیتا ہوں. کھانا میانہ راوی سے کھاتے ہیں. دوپہر کے ٹھنڈے سالن سے رات کی روٹی کھا لیتے ہیں. کبھی کبھار تو بنا کھائے ہی سو جاتے ہیں. کبھی چالیس روپے کی سادہ بریانی کھا کر گزارا کر لیا کرتے ہیں. کبھی چائے کے ساتھ بسکٹ کھا لیتے ہیں. کبھی سوکھی روٹی بھی کھا لیتے ہیں. وہ کسی کا احسان نہیں رکھتے. احسان کا بوجھ جلدی جلدی اتار دیا کرتے ہیں. یادداشت ویسے کمزور ہے لیکن احسان کے معاملے میں اُنہیں سب یاد ہوتا ہے. کھانے کے بدلے کھانا، چائے کے بدلے چائے اور پیسوں کے بدلے پیسے وہ کبھی یہ ذمہ داری نہیں بھولتے.

پرانے ساتھیوں سے پتا چلا کہ ماسٹر کے دماغ کی سوئی واقعے گھوم جاتی ہے. اکثر اوقات اپنے باس کو ہی ڈانٹ دیتے ہیں. اور پھر کام سے منہ موڑ لیتے ہیں. اور پھر چند گھنٹوں بعد ویسے کے ویسے جیسے پہلے تھے. گھر اور فیملی کے بارے میں پوچھا جائے تو لبوں سمیت چہرے پر بھی مکمل خاموشی کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں. آنکھوں میں چھپی کہانیاں نظر آتی ہیں. میں خود سوچ میں پڑ گیا کہ آخر یہ شخص ہے کون؟ جس کی زاتی زندگی کا کسی کو معلوم ہی نہیں اور یہ زاتی زندگی کے سوالات پر مکمل اعتماد کے ساتھ چپ ہو جاتے ہیں. فیملی، خاندان اور گھر کے سوال پر یہ اتنا حوصلے والا انسان جسے یہاں سب ماسٹر کہتے ہیں وہ خاموش کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ سوال میں نے ماسٹر کے تین پرانے ساتھیوں سے پوچھا کہ آخر یہ سوال ماسٹر پر کہر بن کر کیوں اترتا ہے. وہ خود کو ایک دم عذاب میں کیوں محسوس کرنے لگتا ہے. سب کا جواب ایک ہی تھا کہ آج تک اِس نے ہمیں بھی کچھ نہیں بتایا. ایک ساتھی نے بتایا کہ میں نے ایک اتوار کو ماسٹر کا پیچھا کیا تو پتا چلا کہ اتوار کو فیکٹری سے چھٹی کرنے والا ماسٹر چھٹی والے دن بھی ایک دکان پر دہاڑی کر کے رات کو واپس آ جاتا ہے. اور لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ گھر گیا تھا.

اُنہوں نے مزید بتایا کہ وہ عیدین پر بھی فیکٹری سے چھٹی کر لیتا ہے لیکن گھر جانے کا ثبوت آج تک نہیں ملا. دو تین دن اِدھر اُدھر دیہاڑی کرتا ہے اور پھر فیکٹری واپس اپنے کام پر آ جاتا ہے. میں حیران و پریشان کہ انسان جو ہمارے ساتھ رہتا ہے. موڈ کے حساب سے بات کرتا ہے. سیاسی معاملات بھی بحث کا حصہ بناتا ہے پتا نہیں کس دکھ اور درد میں زندگی گزار رہا ہے. یہ خاموش اور سنجیدہ چہرہ کہیں اپنے اندر کوئی دکھ بھری کہانی تو نہیں رکھتا. کہیں زندگی کے نشیب و فراز نے اتنا مایوس تو نہیں کیا کہ آب بولنے کی بھی ہمت باقی نہ رہی ہو. ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ فیملی ہو اور اُسی نے ایسے دکھ اور زخم دیئے ہوں کہ آب اُن پر زرا سا بھی نمک برداشت کرنے کی سکت باقی نہ رہی ہو. اُس نے آج تک اپنے ماں باپ بہن بھائی کا ذکر بھی تو نہیں کیا. یہ انسان کون تھا؟ اور کون ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں. کام سے کام رکھنے والا یہ شخص اپنے سالوں سے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی کچھ نہیں بتاتا میں تو پھر بھی نیا تھا. نہ بتا کر باہر جاتا ہے. نہ ہی واپسی کا بتاتا ہے. نہ ہی ذاتی زندگی کا کوئی ورق ہمارے سامنے کھولتا ہے. پتا نہیں اندر ہی اندر اُس پر کیا بیت رہی ہو گی.

وہ انسان اپنے ایک غیر معمولی کردار سے یقیناً ہم سب کو مسکراہٹ دیتا دیتا ہے. بنا بولے اُس کا چہرہ چارلی چیپلن کی طرح ہنسانے کے لئے کافی ہوتا ہے. ہمارے چہرے اُس کو دیکھ کر کھِل جاتے ہیں. لیکن میں اُس کے ظاہر کو نہیں باطن کو اُس کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا. اُس کی بناوٹی مسکراہٹ اُس کے مردہ دل ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی. اندر سے وہ مر چکا ہے. اور اپنی ہی میت پر اکیلے میں روتا ہو گا. کچھ گِلے ہوں گے کچھ شکوے شکایات ہوں گیں. کون جانے کہ ماسٹر کون ہے؟ لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے دکھ درد میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں. گلے شکوے کرتے ہیں لیکن ماسٹر میں یہ عادت بھی نہیں تھی. وہ عام لوگوں سے ہٹ کر چلتا ہے. یہ سب دکھ درد کی شدت اُس کے چہرے سے جھلکتی ہے. اُس کی آواز میں لرزش باقاعدہ سنائی دیتی تھی.

میری بدقسمتی دیکھیں یا خوش قسمتی کہ مجھے ماسٹر کا اصل نام بھی نہیں ابھی تک معلوم نہیں ہوا. پوچھنا چاہتا تھا لیکن پوچھ نہ سکا پتا نہیں کیوں؟ شاید کچھ زیادہ ہی جذبات میں یہ بات خود سے اندر ہی اندر کہ چکا تھا کہ ہو سکتا ہے نام پوچھنے پر وہ کہے کہ "پتا نہیں اللہ جانے". یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گہرائی میں ڈوبی خاموشی کا اظہار کرے جو مجھے اور زیادہ پریشان کرتی.

آج میں راوی کے لاہور سے واپس جا رہا ہوں. اداسی کے شہر میں میری ملاقات ماسٹر سے ہوئی جو شہر سے بھی زیادہ اداس تھا لیکن وہ باہر سے شہر کی طرح رنگین نظر آنے کی کوشش ضرور کرتا ہے. فیکٹری سے نکلتے ہوئے میں نے ماسٹر کو آخری سلام کیا. جس کے جواب میں چھپی تکلیف غم اور اُس کی سنجیدگی میرے کانوں میں کافی دیر گونجتی رہی. اُسے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی آ رہا ہے یا جا رہا ہے. لیکن وہاں مقیم لوگوں سے وہ ایک الگ ہی رشتہ جوڑ لیتا ہے جو زاتی نہیں سوشل ہوتا ہے. اور میں سوچ رہا تھا کہ جب میں فیکٹری داخل ہوا وہ پہلی نظر والا ماسٹر اور آج آخری نظر والا ماسٹر زمین اور آسمان جیسا فرق رکھتا ہے. ایک لمحے میں سب کچھ ایسے بدلہ کہ حسن نثار کا ایک قول یاد آ رہا ہے کہ کچھ لمحے صدیوں پر محیط ہوتے ہیں.اپنے کام سے کام رکھنے والا سارا دن محنت کرنے والا ماسٹر کون ہے؟

سوال سینے میں لئے میں رومانوی محبتوں کے شہر لاہور سے واپس نکل رہا تھا اور دل خود کو سمجھا رہا تھا کہ زندگی میں نشیب تو ماسٹر نے بہت دیکھیں ہوں گے لیکن پتا نہیں کبھی نشیب کے ساتھی فراز سے بھی ملاقات ہوئی ہے یا نہیں. جنہیں مل کر پڑھا جائے تو بڑا خوبصورت لفظ "نشیب و فراز" بنتا ہے جیسے فراز کے کسی شعر میں استعمال ہوا ہو.کچھ لوگ آپ کو آپ کی زندگی میں راہ چلتے اجنبی کی طرح ملتے ہیں. اور دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی عجیب و غریب شخصیت دیکھ کر بھی لوگ متاثر ہو جاتے ہیں. ماسٹر بھی ایسا ہی تھا. دکھ درد اور نشیبی حالات نے اُسے اتنا پختہ بنا دیا تھا کہ وہ کبھی قدرت سے مایوس نظر نہیں آیا. لیکن سوال اُس کے ذہن میں بھی آتا ہو گا اور وہ قدرت سے یقیناً یہ سوال کرتا ہو گا کہ آخر میری زندگی کو فراز کب نصیب ہو گا؟
 

Hassan Ali
About the Author: Hassan Ali Read More Articles by Hassan Ali: 3 Articles with 1748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.